کراچی میں دھرنا،عمران خان کی
”پاکستان بچاﺅ“ تحریک کا آغاز ہوگا
4 سال قبل کراچی میں رونما ہونے والا سانحہ 12 مئی ،ہماری تاریخ میں ایک
سیاہ باب کے طور پر رقم ہے جس دن وکلاء سمیت آزاد عدلیہ کی بحالی کے لیے
نکلنے والے عوام اور سیاسی کارکنوں پر اندھا دھند گولیاں برساکر 50 بے
گناہوں کے خون سے سڑکیں رنگین کردی گئی تھیں۔12 مئی آیا اور گزر گیا مگر اس
سانحے کے متاثرین آج بھی انصاف کے منتظر ہیں۔ سانحہ 12مئی کے 4 سال مکمل
ہونے پر وکلاء نے ملک گیر یوم سیاہ منایا۔ دفاتر پر سیاسی پرچم لہرائے،
بازوؤں پر سیاہ پٹیاں باندھیں اور عدالتوں کا بائیکاٹ کیا۔ وکلاء نے
احتجاجی مظاہروں اور ریلیوں میں حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ واقعہ میں ملوث
ملزمان کو فوری طور پر گرفتار کر کے بے نقاب کیا جائے جبکہ سپریم کورٹ بار
کی صدر عاصمہ جہانگیر نے کہا ہے کہ 12 مئی کے قتل وغارت اور9اپریل کو
وکلاءکو زندہ جلانے کی ذمہ دار ایم کیو ایم ہے اور سابق آمر پرویز مشرف بھی
اس گھناﺅنے جرم میں برابر کا شریک ہے-
سوال یہ ہے کہ ایک دن یوم سیاہ منانے، مذمتی بیانات اور احتجاجی ریلیاں
نکالنے کے بعد کیا ہماری ذمہ داری ختم ہوجاتی ہے؟ اور کیا یہ سب کچھ کرنے
سے متاثرہ خاندانوں کو انصاف مل جائے گا یا ہر سال ہم ایک دن یوم سیاہ
مناکر اپنی ذمہ داریوں سے بری ہوجائیں گے۔ اب تو سیاسی منظر نامہ بھی بدل
چکا ہے۔ مقتولین کے مدعی خود مسند اقتدار پر براجمان ہیں لیکن اس کے باوجود
وہ متاثرہ خاندانوں کو انصاف دلانے اور قاتلوں کو عدالت کے کٹہرے تک لانے
میں ناکام کیوں ہیں؟ 12 مئی کی شام جس مسلم لیگ ق نے پرویز مشرف کے ساتھ مل
کر اسلام آباد میں فتح کا جشن منایا تھا آج وہ خود حکمران پیپلزپارٹی کا
دست و بازو بن گئی ہے۔ دوسری جانب جماعت اسلامی کراچی کے زیر اہتمام مذہبی
و سیاسی جماعتوں، وکلائ، تاجروں، صنعت کاروں، دانشوروں، صحافیوں اور سول
سوسائٹی کے نمائندوں کی قومی کانفرنس نے سانحہ 12 مئی کا تحقیقاتی ٹریبونل
ری اوپن کرنے کا مطالبہ کردیا ہے۔ قومی کانفرنس نے مطالبہ کیا ہے کہ سپریم
کورٹ اس سانحہ کے ذمہ داروں کا تعین کرے اور جب تک اس سانحہ کے ذمہ داروں
کو سزا نہیں ملے گی کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ جاری رہے گا۔
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی جانب سے نیٹو سپلائی بندش کے
حوالے سے کراچی میں دھرنے کے اعلان کے بعد پی ٹی آئی سندھ کے رہنماﺅں نے
ایک پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ امریکی ڈرون حملوں کے خلاف 21 اور 22 مئی
کو کراچی میں دھرنا دے کر کراچی سے پشاور جانے والی نیٹو سپلائی بند کردیں
گے۔ دھرنے کی تیاریاں مکمل کرلی گئی ہیں، حکومت نے دھرنے میں رخنہ ڈالنے
اور عمران خان کے کراچی میں داخلے پر پابندی عائد کی تو تحریک انصاف کے
ہزاروں کارکن شدید احتجاج کریں گے۔ ان خیالات کا اظہار تحریک انصاف سندھ کے
صدر نعیم الحق نے دیگر رہنماﺅں کے ہمراہ کراچی پریس کلب میں ایک پریس
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ نعیم الحق نے کہا کہ 21 مئی کی سہ پہر 4
بجے سے دھرنا ہوگا جو 22 مئی کو مغرب تک جاری رہے گا جس میں ملک بھر سے لوگ
شرکت کریں گے۔ انہوں نے حکومت کو متنبہ کیا کہ شہر میں دفعہ 144 نافذ کرکے
دھرنے کو روکنے کی کوشش کی گئی تو لاکھوں کارکن بندر گاہ بند کردیں گے اور
گلی محلوں میں دھرنا دیا جائے گا۔
تحریک انصاف نے دھرنے میں دیگر جماعتوں کی شرکت یقینی بنانے کے لیے سیاسی،
سماجی اور مذہبی جماعتوں سے رابطوں کا آغاز کردیا ہے۔ جماعت اسلامی، قوم
پرست جماعتوں، سنی تحریک، تحریک استقلال اور خاکسار تحریک نے دھرنے میں
شمولیت اور اس کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق عمران خان بجٹ
کے بعد ”پاکستان بچاﺅ“ تحریک کا آغاز کرنے والے ہیں اس تحریک میں امریکا
مخالف جذبات کو بنیادی اہمیت حاصل ہوگی۔ پشاور اور کراچی میں رواں ماہ دیا
جانے والا دھرنا دراصل اس تحریک کا پہلا مرحلہ ہے۔ تحریک انصاف اور بعض
دیگر ذرائع کے مطابق اس مرحلے پر عمران خان قومی ایجنڈے کا اعلان کریں گے۔
باخبر حلقوں کے مطابق اس قومی ایجنڈے پر پیپلزپارٹی کا ایک دھڑا، جماعت
اسلامی اور جمعیت علماء اسلام تحریک انصاف سے اتحاد کرسکتی ہیں۔
اس وقت قومی منظر نامے میں احتجاجی سیاست کے حوالے سے عمران خان خاصے متحرک
نظر آرہے ہیں وہ نوجوان نسل میں تیزی سے مقبول ہورہے ہیں اور پشاور میں
دھرنے کے بعد ان کی مقبولیت اور اعتماد میں بے پناہ اضافہ بھی ہوا ہے لیکن
ان کی پارٹی کا کمزور تنظیمی نظام غالبًا تیزی سے بڑھتی ہوئی مقبولیت کا
بوجھ اٹھانے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اگر تحریک انصاف نے اس جانب فوری طور پر
توجہ نہ دی تو وہ عمران خان کی مقبولیت کا خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھا سکے
گی۔
ملک میں بڑھتی ہوئی امریکی مداخلت، ریمنڈ ڈیوس کی رہائی، ایبٹ آباد میں
امریکی آپریشن، مسلسل انتباہ کے باوجود امریکی ڈرون طیارے ہماری قومی
سلامتی اور خود مختاری کی دھجیاں اڑا رہے ہیں، کرپشن، عدلیہ سے ٹکراﺅ کی
صورتحال، مہنگائی، لوڈشیڈنگ، بے روزگاری اور حکومتی بدانتظامی کے تاثر سے
عوام اب پیپلزپارٹی اور ن لیگ کو ایک ہی سکے کے 2 رخ خیال کرتے ہیں اور لوگ
اب آزمائے ہوئے سیاست دانوں کو دوبارہ موقع دینے کے لیے تیار نہیں۔
ایسے میں تحریک انصاف کے سربراہ قیادت کا خلا پر کرنے کے لیے متبادل قوت کے
طور پر ابھر کر سامنے آرہے ہیں۔ عمران خان کی تحریک کو نظر انداز کرنا ممکن
نہیں۔ ویسے بھی ان کے حوالے سے کم از کم اس بات پر ان کے مخالفین بھی متفق
ہیں کہ وہ کرپٹ نہیں اور سچے اور کھرے آدمی ہیں۔
ملک میں حالیہ دنوں پیش آنے والے واقعات کے بعد حکمرانوں اور امریکا کے
خلاف نفرت میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ قوم پہلے ہی پریشان اور مایوس تھی
لیکن ایبٹ آباد میں امریکی آپریشن نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی۔ جس سے یوں
محسوس ہوتا ہے کہ ملک میں تبدیلی کی فضا بن رہی ہے اور عین ممکن ہے کہ بجٹ
کے بعد ایسی فضا مکمل طور پر تیار ہوجائے۔ سو بجٹ کے بعد نئے اتحاد کی
تشکیل، نئے سرے سے رابطوں کا آغاز سیاسی درجہ حرارت میں اضافہ کرسکتا ہے۔ |