جنوبی ایشیاء کا کرونا وائرس ’’مودی سرکار‘‘!۔

بھارت جنوبی ایشیاء کا ایک ایسا ملک ہے جس نے ڈھیٹ پن اور مکاری کی تمام حدیں پار کردی ہیں اور جو اس وقت خطے کے امن کیلئے ایک بہت بڑا خطرہ بنا ہوا ہے ۔ بھارت جنوبی ایشیاء کا سب سے بڑا دہشتگرد ملک ہے جو اپنا جرم ماننے کو تیار ہی نہیں ، وہ پاکستان کی مقدس سرزمین کو نقصان پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے مگربعد میں جب اُس کا راز فاش ہوجائے تو وہ اس جرم کو مانتا ہی نہیں اوراسی وجہ سے وہ ہمیشہ سے ہی رسوا ہوتا آیا ہے ۔ مگر اُس نے ڈھیٹ پن کی تمام حدوں کو پار کرتے ہوئے ہمیشہ پاکستان کے خلاف ایک نئی سازش رچائی ،جس کا پاکستان نے اُسے منہ توڑ جواب دیا ہے اور آگے بھی دیتا رہے گا ۔ بھارت یہ سب کچھ اپنے اکھنڈ بھارت کے خواب کی تکمیل کیلئے کر رہا ہے جو انشاء اﷲ ہمیشہ ہی نامکمل رہے گا ۔ بھارت اپنے اس ناکام خواب کو پورا کرنے کیلئے آئے دن بھارتی مسلمانوں پر ظلم و تشدد کررہا ہے ، مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کا قتل عام کررہا ہے ، آئے دن لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کررہا ہے ، اس سے بھی بڑھ کر وہ پاکستان کی مقدس سرزمین کو نقصان پہنچانے کی کوشش میں رہتا ہے ۔ لیوں تو بھارت کے اپنے تمام پڑوسیوں سے مسلسل تنازعات رہتے ہیں کبھی سرحدی کبھی آبی کبھی کوئی اور کبھی کوئی اور پاکستان اور چین سے اُس کی کی کھلی جنگیں ہو چکی ہیں لیکن بھارت کے شر سے اُس کے باقی پڑوسی بھی محفوظ نہیں۔ ابھی حال ہی میں نیپال سے اس کا سرحدی تنازعہ ہوا جب اُس نے کالا پانی کے علاقے میں ایک سڑک کا افتتاع کیا اور بظاہر یہ کہا کہ یہ سڑک کیلاش قبائل زائرین کا مانسرور تک پہنچنا آسان بنادے گا لیکن نیپال کا اعتراض یہ ہے کہ علاقہ متنازعہ ہے اور یہاں لائن آف کنٹرول کے خلاف ورزی کی گئی ہے۔ ابھی بھارت اس تنازعے میں الجھا ہی ہوا ہے اور کرونا پر قابو پانے کے بعد دونوں ملکوں کے سیکریٹریوں کے درمیان اس پر بات چیت ہو گی یہ اور بات ہے کہ اب کرونا اس خطے میں بے قابو ہو رہا ہے لہٰذ ا یہ ملاقات مستقبل قریب میں ہوتی نظر نہیں آرہی۔ ابھی یہ ہو ہی رہا تھا کہ لداخ کے علاقے میں جہاں بھارت غیر قانونی تعمیرات کر رہا تھا وہاں اسے چین سے مار پڑ گئی اور ہزاروں چینی فوجی بھارت میں در آئے اور کئی ویڈیوز وائرل ہو گئیں جن میں دیکھا جاسکتا ہے کہ کیسے بھارتی فوجی چینی فوجیوں کے آگے کھسیانی بلیاں بنے ہوئے ہیں۔اس وقت بھارتی میڈیا اور سوشل میڈیا چیخ رہا ہے کہ اسے تین محاذوں پر مشکلات کا سامنا ہے چین سکم بارڈر، نیپال بھارت سرحد اور لداخ کی سرحد پر چینی فوجی لداخ کے اندر موجود ہیں بلکہ رپورٹس کے مطابق پانچ ہزار چینی فوجی اس وقت لداخ میں موجود ہیں۔ بھارت کی چین کے ساتھ ساڑھے تین ہزار کلو میٹرلمبی سرحدہے ان کی یہ سرحد ہمالیہ سے جا کر ملتی ہے اور لداخ میں اس وقت چینی کیمپ لگا کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ چین اس وقت اکسائی چن اور تبت چین سرحد پر تیز ترین ذرائع نقل و حمل تیار کر چکا ہے جو بھارت کے لیے یقینا باعث تشویش ہیں اور شاید اسی بوکھلاہٹ میں اس نے لداخ کے علاقے میں تعمیرات شروع کیں اور چین کی نظر میں آگیا اور جوابی کاروائی میں اس نے اپنا کئی کلو میٹر علاقہ کھو دیا۔ دراصل بھارت خطے میں وہ ملک ہے جس کے ہر پڑوسی کے ساتھ تنا زعات ہیں اس نے خطے میں جنگ کی ایک مستقل صورتحال پیدا کئے رکھی ہے اور اسلحے کی دوڑ لگا رکھی ہے وہ مسلسل اسلحہ خرید بھی رہا ہے جمع بھی کر رہا ہے اور کشمیر میں تو اسے آزادی حاصل ہے کہ جیسے چاہے اسلحے کا بے دریغ استعمال کرے۔پاکستان کے ساتھ وہ مسلسل لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کرتا رہتا ہے ۔لیکن دوسری طرف بھارت کی جنگی مہارت اور ہمت نہتے کشمیریوں اور بھارت کے بے آسرا مسلمانوں کے لئے ہے ورنہ یہ پہلی بار نہیں ہوا کہ بھارت کی جنگی مہارت کا پول کھلا ہو اور اسے اپنے دشمن سے منہ کی کھانی پڑی ہے اور لداخ میں وہ شرمندہ ہوا ہے اس سے پہلے فروری 2019ء میں اس نے پاکستان کے ساتھ مہم جوئی کی کوشش کی اور اس کا سورما پائلٹ ابھی نندن اپنا جہاز گرا کر خود کو بچانے کی کوشش میں پاکستانی شہریوں کے ہتھے چڑھ گیا اور پھر پاک فوج کا مہمان بنااور اس کا تباہ شدہ طیارہ پاک فضائیہ کا ایک قیمتی سرمایہ بن گیا۔ بھارت کو اپنی مہم جوئی پر جو ہزمت اورشرمندگی اُٹھانا پڑی وہ بھارت کی جنگی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے اور اُسے یہ بھی بتانے کے لیے کافی ہے کہ جنگی سامان تو ضروری ہے لیکن بندوق کے پیچھے جو شخص ہے اُس کی بہادری اور حاضر دماغی بھی بہت ضروری ہے اور مہارت بھی جو بھارت نہیں دکھا پا رہا اور بُری طرح مارکھا رہا ہے۔ نہ اس سے اندر کے معاملات سنبھل رہے ہیں نہ باہر کے ۔ بھارت اس وقت بری طرح سے مشکلات کے گھیرے میں پھنسا ہوا ہے جس کا خاتمہ اُس کی تباہی و بربادی سے ہی ہوگا۔
 

Syed Noorul Hassan Gillani
About the Author: Syed Noorul Hassan Gillani Read More Articles by Syed Noorul Hassan Gillani: 44 Articles with 29403 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.