جاگدے رہنا ساڈھے تے نہ رہنا
(haseeb Ejaz Aashir, Lahore)
حسیب اعجا زعاشرؔ کورونا وبا چائنا کے لئے کسی پرسرار بیماری کے سوا کچھ نہ تھی۔نہ دوا میسر،نہ علاج کا علم،نہ احتیاط کا اندازہ مگر پھر بھی اُنہوں نے چند دنوں میں اِس وبا کی روک تھام کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کر کے دنیا کو حیرت زدہ کر دیا۔چند ہفتوں کے سخت لاک ڈاؤن میں بیماری کی تشخیص بھی ہو گئی اورویکسین کے بغیر یہ بھی جان گئے کہ صحت یاب ہونے والے مریض کے خون سے کورونا متاثرین کی قوت مدافعت کو کیسے بڑھاکر وبا کو شکست دی جا سکتی ہے اور مزید پھیلاؤ سے روک تھام کیسے ممکن ہے۔نہ ماسک،نہ حفاظتی کٹس او رنہ ہی ٹیسٹنگ کٹس میں خود کفیل لیکن پیداواری صلاحیت بڑھا کر اپنی ضرورت کو بھی پورا کیا اور دوست ممالک کی مدد کیلئے فرنٹ لائن ڈیفنس کے طور پر آگے بڑھے۔پاکستان کو تو چلی چلائی دُکان ملی او رپک پکائی روٹی،تحقیق کی ضرورت تھی نا تشخیص کی اور روک تھام کے سب زاویوں اور پیمانوں سے بھی پوری طرح واقف مگر پھربھی ہماری جرات کو خراجِ تحسین کہ ہم نے آؤ دیکھا نہ تاؤ،سرحدوں پر کورونا وائرس کے پرتپاک استقبال کے لئے بے مثال تیاریوں کے ساتھ کھڑے تھے۔ اب خودی ملاحظہ فرما لیجئے کہ وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں پندرہ جنوری کو کورونا سے نمٹنے کیلئے کمربستہ ہوچکے تھے وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار وسیم اکرم پلس نہیں بلکہ عمران خان پلس ثابت ہوئے او روہ تو پانچ جنوری کو اِس وبا کے خلاف محاذ کھولے کھڑے تھے اور یوں آج چھ ماہ میں کرونا کے مصدقہ کیسز ایک لاکھ سے چکے ہیں تجاوز کر چکے ہیں جواعتراف جرم ہے کہ حکومتی کارکردگی صفر نہیں بلکہ مائنس کی کئی حدیں تجاوز کرچکی ہیں،جب فیصلوں کا وقت تھا توحکومت نے چندوں اور امداد پر نظریں جمائی رکھیں، جب عوام کو ریلیف دینے کا وقت آیا تو لاک ڈاؤن کی طرف چلے گئے۔جب بھوک اور پیاس کے ہاتھوں عوام تلملااُٹھی تو ایک طرف سمارٹ لاک کی طرف جانے کے سوا کوئی راستہ نہ بچا اور دوسری طرف سوشل میڈیا پر احساس کفالت پروگرام کے تحت ملنے والے بارہ ہزار روپے کے خوب چرچے سنائی دیئے۔تعجب کی بات تو یہ رہی کہ ہر مرکز میں کئی دن قطاروں میں صرف خواتین ہی نظر آئیں۔پھر کچھ مردحضرات بھی کچھ تناسب میں دیکھائی دینے لگے جو نئے رجسٹرڈ ضرورت مند ہوبھی سکتے ہیں۔انکشاف ہوا کہ بے نظیر انکم سپورٹ کے تحت ملنے والی رقوم کو تین ماہ روکا گیا اور چوتھے ماہ یہ کہہ کر اگلے چار ماہ کیلئے پیسے تھما دیئے کہ کورونا سے معاشی طور پر دیہاڑی دار اور مزدور متاثرین کیلئے مالی امداد ہے۔ پھرجب کاروباری سرگرمیوں کے آغاز کے سلسلے میں لاک ڈاؤن کی نرمی کی طرف جانے کا فیصلہ کیا توچند روز قبل حکومتی وزیر کی جانب سے ٹائیگر فورس کا سولہ خاندانوں کو راش پہنچانے کی ایک ویڈیو ضرور دنیا نے ٹوئیٹر پر دیکھی۔ حکومت ان چھ ماہ میں کسی واضح موقف کے ساتھ نظر نہیں آئی ہر فیصلے متزلزل ہر دوسرا بیان پہلے سے متصادم،پہلے وزیراعظم کا فرمان جاری ہوتا ہے کہ کورونا معمولی ہے چند دن میں ختم ہوجائے گا،پھر فرماتے ہیں خطرناک ہے کیسز بڑھ سکتے ہیں اب کہہ رہے ہیں ”جاگدے رہنا ساڈھے تے نہ رہنا“جب تک ویکسین نہیں بن جاتی اپنی احتیاط آپ کریں۔پہلے کہتے ہیں لاک ڈاؤن نہیں ہوگا پھر سندھ کی طرح پنجاب میں بھی لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا جاتا ہے۔ سمجھ سے بالاتر ہے دوسال ہونے کو آ گئے وزیراعظم کو یقین کیوں نہیں آرہا کہ وہ وزیراعظم ہیں؟ناجانے کس حکومت کے کس وزیراعظم سے شکوہ کناں ہیں کہ وہ لاک ڈاؤن کے حامی نہ تھے حکمران اشرافیہ نے لاک ڈاؤن لگا دیا۔ معاملہ عجیب و غریب بھی ہے دلچسپ ومضحکہ خیز بھی کہ حکومت پہلے بھی ایس او پیز پر عملدرآمدنہ ہونے پر لاک ڈاؤن میں سختی کرچکی اور اب ایک بار پھر ایس اوپیز پر عملدرآمد نہ ہونے پر اعظم سواتی ایکشن لینے کا عندیہ دے رہے ہیں اور حکومت کی جانب سے ٹیمیں تشکیل دینے کے ساتھ ساتھ جرمانے کرنے کی بھی خبر سنا دی گئی ہے۔ سوال پیداہوتا ہے کہ کونسے ایس او پیز؟ بنکوں کے اندر رش لگانے کے بجائے بغیر کسی سائے کے بغیر کسی سوشل ڈسٹنس کے دھوپ کی تپش میں لوگوں کو اکٹھا کر لیا جائے۔دوکانوں میں محدود افراد کا داخلہ ہو مگر باہر بازارمیں عوام کا جمع غفیر ہو۔ڈبل سواری پر پابندی کیلئے سڑکوں پر پولیس کے ناکے ہوں اور اِ س دوران بھلے ٹریفک کی لمبی لمبی قطاریں لگ جائیں۔اب تو ماسک نہ پہننے والے موٹرسائیکل سواروں کے چالان بھی ہو رہے ہیں اور شاکنگ گن سے کرنٹ بھی دیا جارہا ہے مگر پیدل چلنے والوں کو استثنیٰ حاصل ہے جیسے وہ کورونا پروف ہوں۔جو ڈیٹول بیکٹریا کیلئے ہے وائرس مار نہیں سکتا اُسے پانی میں مکس کر کے وائرس مارنے کا پابند کیا جارہا ہے۔ جوعام کپڑے کا ماسک مٹی نہیں روک سکتا اُسے کورونا سے بچاؤ کیلئے لگانے کا کہا جارہا ہے۔اگر ملک کا سربراہ یہ مان چکا ہے کہ کورونا کے ساتھ ہی جینا ہے تو پھر سمارٹ لاک ڈاؤن یا سخت لاک ڈاؤن کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا؟اگر کورونا ایک بندے سے دوسرے بندے میں باآسانی منتقل ہوجاتا ہے تو ملک بھر ایک دن کی گہما گہمی سے ہی وائرس جہاں جہاں تک پھیل سکتا تھا پھیل چکا ہوگا توپھر اب کس بات کی فکر،بس صاحب اقتدار اب رپورٹ ہونے والے کیسز کی فہرست تیار کیجئے اور پہلے سے مہنگائی سے ستائی عوام کو موت سے ڈرائیں اور کہیں کہ کب تک گھروں میں محصور رکھ سکتے تھے لیکن عوام نہ تو گھروں میں محصور تھی اورنہ سڑکوں پر اِن کے ساتھ تو ”نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم۔نہ ادھر کے ہوئے نہ اُدھر کے ہوئے“والا معاملہ ہوا ہے۔چوری ڈکیتی کرنے سے بہتر تھا چار پیسے لگا کر شٹر بند کر کے کام کر لیا جائے تو صاحبِ حیثیت اپنے بچے کھچے کام سے اِس طرح اپنے گھر کا دال دلیا چلاتے رہے ہیں کیونکہ ٹائیگر فورس کے ذمے جو راشن پہنچانا لگا تھا ابھی وہ مارکیٹ میں میسر ہی نہیں۔ تقاضا تو یہ تھا کہ پانچ یا پندرہ جنوری جب اِن خدشات کا اظہار کیا جارہا تھا توزیادہ سے زیادہ پندرہ دن میں ہرگھر میں چاہے غریب ہے یا سفید پوش یا پھر امیر ہرگھر کیلئے راشن کا بندوبست کیاجاتا،حفاظتی کٹس اور ٹیسٹنگ کٹس سمیت تمام ضروری انتظامات مکمل کر لئے جاتے ا ور یکم فروری سے چائنا کی طرز کا سخت لاک ڈاؤن تین ہفتے کیلئے لگا دیا جاتا جو سب کو قابل قبول ہونا تھا اور یوں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجانا تھا اگلے ہی ماہ زندگیاں درجہ بہ درجہ معمول پر لانے کیلئے اقدامات کر لئے جاتے۔ حکومت کے ہاتھ میں تو چار پیسے شاید آچکے ہوں مگر عوام کے ہاتھ کچھ نہیں آیا بلکہ جو پہلے سے تھا وہ بھی ہاتھوں سے نکل گیا۔اب ایک بارپھر لاک ڈاؤن کی خبروں کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ زورزبردستی سے آدھا تیتر آدھا بٹیر کے طرز میں کوئی سمارٹ یا سلم لاک ڈاؤن مسلط کرنے میں حکومت ممکن ہے کہ کامیاب ہوبھی جائے مگر عوام اِسے کسی صورت دل سے قبول نہیں کرے گی۔ قصہ مختصر بہتر یہی ہوگا اب جیسا بھی چلتا ہے چلنے دیا جائے اور عوام کو چاہیے کہ مخصوص غذاؤں سے قوت مدافعت بڑھانے پر غورکرے کیوں پہلے کورونا سے لڑنا نہیں ڈرنا تھا اب ڈرنا نہیں لڑنا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ |