جہاں آدمی آنکھ کھولتا ہے، بچپن گزارتا ہے، سکھیوں اور
دوستوں سے آشنائی ہوتی ہے وہی اس کا گلشن ہوتا ہے، خواہ اس کا یہ مسکن کچا
ہو یا پکا ہو، چھوٹا ہو یا بڑا ہو، وہاں رہنے والے کے لیے اس کی اہمیت ایون
فیلڈ فلیٹس اور سویزر لینڈ کے سرائے محل سے زیادہ ہوتی ہے،وہ ساری زندگی اس
گلشن کو سنوارنے اور بنانے میں لگا دیتا ہے کیونکہ وہ اپنے گلشن سے مخلص
ہوتا ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں زندگی گزر رہی تھی، کچھ دانشوروں، آزادی
پسند لوگوں نے مل کر ایک علیحدہ ریاست بنانے کا اعلان کیا، بے بہا مشکلات
اور قربانیوں کے بعد آزادی حاصل ہوتی ہے۔ اس آزاد ریاست کو پاکستان کہتے
ہیں، وطن پاکستان کی سالمیت کے لیے قوانین بنائے گئے، ہر طبقے نے اپنے لیے
اپنی مرضی کا قانون بنوایا، عام آدمی کو بھی قانونی تحفظ کی ہڈی دے کر
نمایا ں کر دیا گیا کہ یہ ریاست ماں جیسا سلوک کرے گی، پھر ان قوانین کو
ایک پن یا گلیو سے جوڑ کر ہمیشہ کے لیے سائیڈ پر کر دیا گیا۔ سیاسی گٹھ جوڑ
پروان چڑھنے لگے، پاڑیاں معرضِ وجود میں آئیں، حکمران بننے لگے۔ حکمرانوں
کو محسوس ہونے لگا کہ کوئی کام ایسا کیا جائے جس سے میرے نمائندے ایک فرعون
کی طرح غریبوں پر مسلط ہو جائیں اور میری حکمرانی سدا سلامت رہے، حالانکہ
معلوم بھی ہے کہ سدا حکمرانی میرے رب کریم کی ہے۔ اپنے اپنے ایم این ایز کو
سرکاری معاملات میں داخل اندازی کرتے ہوئے ملازمتوں، تعمیراتی فنڈز اور
میگا پروجیکٹس نوازنے کا سیاسی دور شروع کر دیا گیا۔ ان کو ترغیب دی گئی کہ
تم ہی پارس اور اپنے اپنے علاقے کا حاکم ہو۔ جب سے یہ کوٹا سسٹم شروع کیا،
میرے گلشن کے اجڑنے کی بنیاد رکھ دی گئی، پہلے مرحلے میں انہوں نے اپنی
جڑوں کو مضبوط کیا، کرپشن کو پروان چڑھایا، اقراء پروری کی بیل داغ کو مزید
تقویت دی، اور سیاسی اثرو رسوخ کو ٹاپ ٹرینڈ بخشا، اگر سرکاری عہدیدار ان
ان کے حربوں سے بچ نکلتا تو سیاستدان حاکم اعلیٰ سے پریشر بلڈ اپ کرواتا
اور اس ملازم سے جینے کا حق چھین لیا جاتا، اس طرح سلو پوائزن کے انداز میں
میرے گلشن کو اجاڑنے کا رستہ اپنایا گیا، وقت بدلتا رہا، اپنے ذاتی مفاد کو
آباد کرنے کے لیے سیاسی ڈھیروں پر میرے گلشن کو اجاڑنے کے پلان تیار ہوتے
رہے، سیاسی اثر و رسوخ اسقدر سر چڑھ کر بولا کہ اپنے اپنے مفاد،سیاسی ورکنگ
کو ظاہر کرنے کے لیے اپنے مطلب کے سرکاری ملازمین کو بھرتی کروایا گیا، ایک
مالی سے لے کر بیوریوکریٹس تک سرنگ کھودی گئی، اب یہ سرنگ سیاستدانوں کے
لیے زر خرید لونڈی کی طرح کام کرنے لگی اور ایک عام آدمی کو غیر ملکی دشمن
سمجھ کرنظر انداز کیا جانے لگا، حتیٰ کہ نوبت آن پہنچی کہ کوئی عام آدمی
سرکاری دفتر اگراکیلا چلا جائے تو وہاں موجود اس عام آدمی کی خدمت کے لیے
بھرتی کیے جانے والا ملازم اسے دھکے دے کر یا مایوس کر کے واپس لوٹا دیتا
ہے جب تک کہ اس کے ساتھ منکر نکیر کی جگہ کوئی سیاسی پہرہ دار نہیں
ہوتے،تقریباًپنتیس چالیس سال پہلے لگانے جانے والے سیاسی پودے اتنے قدآور
ہو چکے ہیں جو میرے گلشن کو اجاڑنے کے لیے کافی ہیں۔ آج چوری، ڈکیتی،
راہزنی، جنسی تشدد، اقراء پروری، سفارش، پولیس کاؤنٹر جعلی مقابلہ جات، بے
حیائی، دین سے دوری وغیرہ وغیرہ اس قدر عام ہو چکی ہے کہ اب شاید ہی ہے کہ
میرے گلشن کی کوئی پگڈنڈی محفوظ اور سلامت ہو۔ تہتر سال بعد میرا گلشن جسے
کم و بیش پچاس لاکھ قربانیوں کے بعد بویا تھا آج وہ سب بے سود نظر آرہی ہیں۔
اللہ کریم سے دُعا ہے کہ ایسے ناسور سیاستدانوں، بیوریوکریٹس اور ملک دشمن
عناصر کو سیدھی راہ دکھا دے اگر یہ ماننے والے نہیں تو ان کو ایسی سزا دے
جس سے ان کا خاندان توبہ تائب ہو جائے اور اس گلشن کے باسیوں کوشعور دے جس
سے ملکی لیڈر کے چناؤ حق اور سچ کی بنیاد پر کریں۔ آمین۔
|