اللہ تعالی نے انسان کو اشرف المخلوقات ہونے کا شرف
عطاکیا ہے۔اسے تمام دوسری مخلوق پر بھی برتری حاصل ہونے کا شرف حاصل
ہے۔ابتدائےآفرینشمیں یہ انسان جنگلوں اور پہاڑوں میں رہتا تھا۔کھانے کے لیے
جنگل میں موجود ہی جانوروں اور پتوں کا استعمال کرتا۔انسان کا اپنے اندر کے
انسان کے ساتھ بہت مضبوط رشتہ تھا۔یہ انسان بہت طاقتور لیکن احساس سے عاری
تھا۔اسے دوسرے کا دکھ،تکلیف غمگین نہ کر پاتے۔چھوٹی چھوٹی باتوں پر قتل کر
دیتا۔یہ انسان جنگلوں اور پہاڑوں میں رہنے کی وجہ سے دلیر اور مضبوط تھا۔وہ
حالات کا مقابلہ کرتا،غمگین نہ ہوتا۔ حالانکہ یہ وہ دور تھا جب انسان نے
ترقی کی منازل طے نہیں کی تھیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کا وجود نہیں تھا۔
پھراس کی ضروریات نے اسے سوچنے پر مجبور کیا۔ضرورت ایجاد کی ماں ہے ،پر عمل
کرتے ہوئے اس نے ترقی کی منازل طے کرنا شروع کردیں۔اس نے سمندروں کا سینہ
چیردیا،چاند پر ٹھکانہ بنا لیا،وہ لوگوں کی جگہ روبوٹس سے کام لینے
لگا،چاند کے بعد مریخ پہ نظریں جما دیں۔ لیکن یہیں پہ وہ اپنے آپ کو اعلی
بنانے کی لگن میں اپنے آپ سے دور ہوتا گیا،وہ اپنے اصل سے،اپنے سکون سے دور
ہوگیا۔جہاں وہ اپنی زندگی کو سہل پسند بناتا گیا وہیں پہ وہ اپنے اندر کے
سے دور ہوتا گیا۔وہ اندرسے کمزور ہوتا گیا۔لیکن اس میں احساس بھی پیدا ہو
گیا،دوسروں کے دکھ اسے غمگینکرنے لگے۔لیکن جناب مقابلے میں یہ کہاں دیکھا
جاتا ہےکہ مقابلے میں کتنی تکلیف ہوئی،مقابلے میں بس آنکھیں بند کر کے دوڑا
جاتا ہے۔اسی دوڑمیں میں کچھ ممالک آگے نکل گئے ،کچھ پیچھے رہ گئے اور کچھ
باہمت ممالک ابھی بھی اس ٹریک پر موجود ہیں ۔ترقی کرنے کے ان مختلف لیولز
پہ ہونے کے باوجود اس دار فانی میں موجود تمام انسانوں کے دکھ ایک جیسے
ہیں۔اس دور ترقی میں بھی یہ درد، یہ فکر،یہ غم دنیا کے تمام انسانوں کے لیے
یکساں لاحق ہوتےہیں۔یہ غم ،دکھ ہرجا،ہر گلی،ہر سو،ہر قریہ،ہر دل میں پائے
جاتے ہیں۔لیکن اس لحاظ سے ہماری قوم کچھ زیادہ ہی غم پرست اور غم پسند واقع
ہوئی ہے وہ انکا سامنا کرنے کی بجائے،مقابلہ کرنے کی بجائے دوسروں سے بھیک
اورہمدردی کو فوقیت دینے لگتی ہے۔ہم اپنا شاندار ماضی یاد کرنے کی بجائے
بھول جاتے ہیں کہ ہم اس قوم سے ہیں جس نے برصغیرمیں غلامی سے مقابلہ کر کے
حکومت کی۔ہم اپنے بزرگوں کے اسباق بھول کر درد سے آہ آہ کرنے لگتے ہیں۔لیکن
یہ درد ویسے تو باعث تکلیف ہوتے ہیں لیکن کبھی کبھی یہ باعث راحت بھی بن
جاتے ہیں۔اگر آپ درد سر سے آہ آہ کرتے ہیں تو ڈسپرین والی کمپنی یہ سمجھتی
ہے کہ اس نے درد کا حل ڈھونڈ لیا ہے۔آپ کے درد میں جتنا اضافہ ہوتا ہے انکی
دوا کی مانگ بڑھتی ہے۔جیسے جیسے زندگیسہل پسند اور ترقی کرتی جا رہی ہے
اتنا ہی ہمارے رنج و الم،بیماریاں اور ڈپریشن میں اضافہ میں ہوتا جا رہا
ہے۔صبر ختم ہو چکا ہے اور برداشت بھی نا پید ہو چکا ہے ۔ ہمارا اسلام،ہمارے
پیارے نبی صلی علیہ والہ وسلم کی سنت، ہماری تاریخ ہمیں صبر سے برداشت کرنے
کا درس دیتی ہے۔سائنس بھی اس بات کو مانتی ہے کہ جب ہماراکسی سے جھگڑا ہوتا
ہے تو نیچرلی ہمارے اندر ہارمونز ایکٹیویٹ ہوتے ہیں اور ہمیں سگنل دیتے ہیں
کہ فائٹ آر فلائی ۔ یعنی کہ جھگڑا کرو یا بھاگو۔ یہاں جھگڑا کرنے سے بھی
مراد یہی ہو گا کہ رکو بھاگو نہیں ،مقابلہ کرو۔خون خرابے سے بچتے ہوئے ،صبرو
برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بات کو ختم کرو۔ اپنے شاندا ماضی کو یاد کرو،تم
تو بھاگنے والی قوم میں سے تو نہیں تھے،تم تم غلامی سے مقابلہ کر کے
حکمرانی کے تختے پہ آنا جانتے ہو۔ پر یہ کیا ہم تو اپنے اصل سے دور ہو گئے۔
اپنے اندر کے انسان کو کمزورکر لیا۔جدید ترقیوں کا ہم پہ اتنا اثر ہوا کہ
ہم صبر اور برداشت سے دور ہو گئے۔اب ہمیں صرف آگے بڑھنا آتا ہے۔ یہ بات بھی
غلط نہیں کہ ہمیں مقابلہ نہیں کرنا چاہیے۔ہمیں جدید تقاضوں کو پورا کرتے
ہوئے آگے بڑھنا چاہیے۔اسکا نام روشن کرتے ہوے اسے صف اول میں لانا چاہیے۔یہ
بات بھی قابل غور ہے کہ ہم اپنے آپ پر بھی توجہ دیں۔قرآن و سنت پر عمل
کریں۔لیکن اکیسویں صدی کے اس دور میں بھی ہم ان سب سے دور ہو چکے ہیں۔ہم
تکالیف اور غموں کو بھلا کر موو آن نہیں کرتے۔خوشیاں ہمیں وقتی راحت دیتی
ہیں جبکہ غموں کو ہم طویل عرصہ یاد رکھتے ہیں۔اگر اللہ تعالی ہمیں آزمانے
کے لیے کسی مصیبت یا آزمائش میں ڈالتے ہیں تو ہم صبر سے ثابت قدم رہنے کی
بجائے شور مچاتےہیں۔ہم بھول جاتے ہیں کہ مومن کو آزمایا جاتا ہے۔ہم اس
آزمائش پہ پورا اترنے کی بجائے مایوسی سے بیٹھ جاتے ہیں۔ہم بھل جاتے ہیں کہ
اسکی رحمت تو ہر چیز سے بڑی ہے۔مومن کو تو آزمایا جاتا ہے،یہ تو خدا کی
جانب سے امتحان ہے،جو ہمیں خدا کی یاد دلاتا ہےجوہمیں بتاتا ہے کہ اتنی
ترقی کرنے کے باوجود آج بھی ہم اسکے کن کے محتاج ہیں۔اس آزمائش اور مصیبت
کے متعلق حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا ایک واقعہ ہے کہ ایک بار کسی نے
حضرتعلی رضی اللہ تعالی عنہ سے کسی نے پوچھا کے ہمیں کیسے پتہ چلے گا کہ
تکلیف ہم پہ آئی ہے وہ آزمائش ہے یا مصیبت تو باب العلم حضرتعلی رضی اللہ
تعالی عنہنے جواب دیا کہ جس تکلیفمیں خدا یاد آ جائے تو سمجھ جاو کہ یہ
امتحان ہے اور جس میں خدا کو بھول جاو تو وہ تم پر مصیبت ہو گی۔لیکن کیا ہی
دلنیشین بات ہو کہ خدا ہمیں آزمائے اور ہم اس کی آزمائش میں پورا اتریں،اسے
یاد کریں،اس کو ہی پکاریں۔
وہ درد جو تجھے اللہ پکارنے پر لے آۓ
اس درد پر بھی تیرا سجدہ شکر لازم ہے
لیکن اس اکیسویں صدی کے دور میں جتنی سائنس ترقی کرتی جا رہی ہے،مضبوط ہوتی
جا رہی ہے،انسان اندر سے اتنا ہی کمزور ہوتا جا رہا ہے۔وہ اپنے اندرکے اس
کمزور انسان کو مظبوط بنانے کی بجائے اسے چھپانے کے لیے ، اپنے اندر کے غم
و مصائب کو عارضی طور پر بھلانے کے لیے کبھی حلقہ یاراں وسیع کرتا ہے،کبھی
موسیقی سے غم غلط کرتا ہے،کبھی رقص و سرور کی محفلیں آباد کرتا ہے۔کبھی کسی
بھی سمت پرواز کر جاتا ہے،لیکن اسے سکون حاصل نہیں ہوتا کیونکہ اسکے اندر
کا انسان جو خوش نہیں ہے اسی لیے کبھی گلشن ،کبھی صحرا کی طرف نکل جاتا ہے۔
نہیں اس کھلی فضا میں کوئی گوشہ فراغت
یہ جہاں عجب جہاں ہے،نہ قفس نہ آشیانہ
یہ انسان کبھی آٹھ آٹھ آنسو روتا ہے اور کبھی ہنسی کو علاج غم سمجھتے
ہوۓخوب ہنستا ہے اور خود کو داد دیتا ہے کہ اس نے جینا سیکھ لیا ہے۔غم کی
تو خصلت ہے کہ جاتے جاتے ایک نیا غم دے کے جاتا ہے۔
اب تو گھبرا کے کہتے ہیں مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ آیا تو کدھر جائیں گے
تو اگر یہ بات طے ہے کہ ہم جب تک اس دار فانی میں ہیں تو جہاں ہم اسکی
بہاروں سے لطف و اندوزہو رہے ہیں ،وہیں پہ ہمیں اسکی مصیبتوں،غموں اور
مشکلات کا بھی سامنا کرنا ہے۔تو جب انکا سامنا کرنا مقدر ٹھہرا تو کیوں نہ
بہادری سے ،مسکرا کر انکا مقابلہ کریں۔ہر بندے کا اس بات پہ ایمان مضبوط
ہونا چاہیے کہ مومن کو آزمایا جاتا ہے،اسے ثابت قدم رہنا چاہیے۔ہمیں اس
پاکستان کو تعمیر کرنا ہے جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا۔قرآن و سنت پر
عمل کریں تا کہ حقیقی معنوں میں خوش اور ترقی کر سکیں۔کوئی بھی قوم اش وقت
تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک وہ اپنی مذہبی تعلیمات پر عمل نہیں کرتی اور
اپنے ماضی سے سبق نہیں سیکھتی۔مظلوم بن کر ترس اور ہمدردی کی بھیک لینے کی
بجاۓ ہمیں خود دوا بننا ہے۔جیسے ہم نے اپنی زندگی کو سہل پسند بنایا ایسے
ہی اپنے اندر کے انسان کو پر سکون اور اللہ کے قریب کرنا ہے ۔اپنی روح کی
مرمت کرنی ہے۔اپنے اندر کی بے چینی کو ختم کر کے اپنے اندر کے انسان کو صبر
،برداشت اور ہر حال میں خوش رہنے والا بنانا ہے تبھی آج کا انسان حقیقی
معنوں میں ترقی کر سکے گا۔ |