مقبوضہ کشمیر سے متعلق انڈیا کے غیر قانونی اقدامات

مقبوضہ کشمیر میں انڈیا سے توقع کی موت واقع ہو چکی ہے، ریاست جموں و کشمیر کے دو ٹکڑے کرنے،سٹیٹ کو ڈائون گریڈ کرنے ،سٹیٹ کو یونین ٹیریٹوری بنانے کے خلاف جموں کشمیر کے 22میں سے21اضلاع متحد ہیں، جموں و کشمیر ،لداخ کے 22اضلاع میں سے21اضلاع کے عوام چاہے وہ مسلمان ہو،ہندو ہو،سکھ ہو یا عیسائی ہو، وہ جموں کا ہو کٹھوعہ کا ہو،ڈوڈہ کا ہو،ویلی کا ہو،پیر پنجال کا ہو،جنوبی کشمیر کا ہو،شمالی کشمیر کا ہو،کرگل کا ہو،ان میں سے کوئی بھی سٹیٹ کو ہندوستانی ریاست کا حصہ بنانے کے حق میں نہیں ہے، انڈیا اپنی پوری فوج لگا کر کہتا ہے کہ صورتحال بدل رہی ہے؟ہندوستان کشمیر میں سب کو قید کر کے کہتا ہے کہ کشمیر میں سب ٹھیک ہے، یہ دنیا کا کونسا نیا طریقہ ہے؟
انڈین پارلیمنٹ میں قانون سازی کے مروجہ قواعد و اصولوں پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے مقبوضہ جموں و کشمیر کو انڈیا میں شامل کرنے کا عمل غیر آئینی اور غیر قانونی قرار پاتا ہے۔
اطہر مسعود وانی

کانگریس سے تعلق رکھنے والے غلام بنی آزاد ہندوستانی پارلیمنٹ کے ایوان بالا راجیہ سبھا میں اپوزیشن لیڈر ہیں اور2005سے 2008تک تقریبا پونے تین سال مقبوضہ کشمیر اسمبلی کے وزیر اعلی بھی رہ چکے ہیں۔ان کا تعلق مقبوضہ جموں و کشمیر کے ضلع ڈوڈہ سے ہے۔انڈیا کی مودی حکومت کی طرف سے مقبوضہ جموں و کشمیرکی خصوصی حیثیت کے خاتمے اور متنازعہ ریاست جمو ں و کشمیر کو انڈیا میں مدغم کرنے کے بعد غلام بنی آزاد نے انڈیا کے ایک ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں شرکت کرتے ہوئے اس موضوع پہ سوالات کے جواب دیئے۔

غلام بنی آزاد نے جموں و کشمیر کے بارے میں انڈین حکومت کے دعوے کو غلط ثابت کرتے ہوئے انڈین پارلیمنٹ میں ریاست کشمیر کو ہتھیانے والے عمل کو خلاف ضابطہ ثابت کرتے ہوئے انڈیا کے اس تمام عمل کو ہی غیر قانونی ثابت کر دیا۔غلام بنی آزاد نے دوسری اہم بات یہ کہی کہ جموں و کشمیر اور لداخ کے 22اضلاع میں سے21اضلاع کے لوگ ا نڈیا کے اس اقدام کے خلاف ہیں۔غلام بنی آزاد کی مدلل گفتگو سے نا صرف جموں وکشمیر سے متعلق انڈیا کے دعوے غلط ثابت ہو جاتے ہیں بلکہ یہ دلائل عالمی سطح پر بھی اہمیت کے حامل ہیں۔

غلام بنی آزاد نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں انڈیا سے توقع کی موت واقع ہو چکی ہے۔ کشمیری ایک چلتی پھرتی '' ڈیڈ باڈی '' ہیںجب تک زندہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ریاست کے دو ٹکڑے کرنے،سٹیٹ کو ڈائون گریڈ کرنے ،سٹیٹ کو یونین ٹیریٹوری بنانے کے خلاف جموں کشمیر کے 22میں سے21اضلاع متحد ہیں،ماسوائے لیہہ ،کیونکہ لیہہ والوں کی کافی عرصے سے ڈیمانڈ ہے یونین ٹیریٹوری میں شامل کئے جانے کی،لیکن لیہہ کا دوسرا ضلع کرگل جس کی 52فیصد آبادی ہے،لیہہ کی48فیصد آبادی ہے، اس طرح جموں و کشمیر ،لداخ کے 22اضلاع میں سے21اضلاع کے عوام چاہے وہ مسلمان ہو،ہندو ہو،سکھ ہو یا عیسائی ہو، وہ جموں کا ہو کٹھوعہ کا ہو،ڈوڈہ کا ہو،ویلی کا ہو،پیر پنجال کا ہو،جنوبی کشمیر کا ہو،شمالی کشمیر کا ہو،کرگل کا ہو،ان میں سے کوئی بھی سٹیٹ کو ہندوستانی ریاست کا حصہ بنانے کے حق میں نہیں ہے۔

انڈیا اپنی پوری فوج لگا کر کہتا ہے کہ صورتحال بدل رہی ہے؟ہندوستان کشمیر میں سب کو قید کر کے کہتا ہے کہ کشمیر میں سب ٹھیک ہے، یہ دنیا کا کونسا نیا طریقہ ہے؟ غلام بنی آزاد نے بتایا کہ کارپوریشن کے الیکشن میںبارہمولہ سے بی جے پی کے سات افراد تین سے سات ووٹ لے کر کارپوریشن کے ممبر بن گئے، اس الیکشن کو انڈیا کہتا ہے کہ منصفانہ الیکشن ہوئے اور لوگوں نے ووٹ دیئے۔

غلام بنی آزاد نے کہا کہ پارلیمنٹ میں بل منظور کرنے کا ایک طریقہ کا ر ہوتا ہے،کوئی بھی بل پارلیمنٹ میں پیش کرنے سے ایک ہفتے پہلے بزنس ایڈوائیزری کمیٹی طے کرتی ہے کہ یہ بل پارلیمنٹ میں آئے گا اور اس کے وقت کا تعین کرتی ہے،کمیٹی کی منظوری کے بعد وہ بل پارلیمنٹ میں پیش کرنے سے دو دن پہلے ایوان کے فلور پہ رکھنا ہوتا ہے تا کہ دو دن میں ممبران اس میں ترامیم دے دیں،یہی ہندوستانی پارلیمنٹ کا طریقہ کا رہے،ہندوستان کی تاریخ میں یہ پہلا بل ہے جو اس طرح پیش کر کے منظور کرا لیا گیا۔

اطہر مسعود وانی
03335176429
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 770 Articles with 611344 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More