امریکہ میں سفید فام نسل پرستی اور انتظامیہ کے نسلی
امتیاز کی طویل تاریخ ہے۔ اس ملک میںافریقی لوگوں کو غلام بنانے کے خلاف
1840ء سے 1845ء تک ایک خانہ جنگی ہوچکی ہے اور اس میں لاکھوں لوگ ماردیئے
گئے۔ اس پر تشددبغاوت کے بعد صدر ابراہم لنکن کو غلامی کے خاتمے کا اعلان
کرنا پڑا۔ اس طرح آئین کے اندر تو غلامی ختم ہوگئی لیکن عوام کے ذہنوں میں
وہ خناس اب بھی باقی ہے۔ تمام تر دستوری تحفطات کے باوجود وقتاً فوقتاً
تفریق و امتیاز کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں ۔ دنیا کی اس عظیم ترین
جمہوریت میں آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو اس اونچ نیچ کو انسان کی فطرت
کے مطابق بتا کر اس کو جائزٹھہراتے ہیں۔ اس ذہنیت کے حاملین کو جبپولیس کی
وردی اور اختیارات حاصل ہوجاتے ہیں تو دل کھول کر اس کا بیجا استعمال کیا
جاتا ہے۔ یہ لوگ اکثر قانونی موشگافیوں کا سہارا لے کر سنگین الزامات سے
بری بھی ہو جاتے ہیں۔
امریکہ کی تاریخ میں ایک اہم موڑ اس وقت آیا جب ایک افریقی امریکن براک
اوبامہ نے دوانتخابات میں کامیابی حاصل کرکے صدرات کا عہدہ سنبھالا اور ۸
سالوں تک اس پر فائز رہے لیکن افسوس کہ وہ بھی نسلی بھید بھاو کوختم تو دور
کم بھی نہیں کرسکے ۔ اوبامہ کے دورِ حکمرانی (2012) میں ٹریون مارٹن نامی
نوجوان کو فلوریڈا کے اندر چوری کے شک پولس نے گولی ماردی ۔ 2014 میں
نیویارک شہر کے اندر ایرک گارنر نامی شخص کو پولس نے گلا گھونٹ کر مارڈالا
کیونکہ وہ سڑک پر ممنوعہ سگریٹ بیچ رہا تھا ۔وہ فلائیڈ کی مانند روتا
گڑگڑاتا رہا مگر پولس نے اس کو جان سے مارڈالا۔ اسی سال تامر رائز نامی
نوخیز کو نقلی بندوق سے باغ میں کھیلتے ہوئے دو پولس والوں نے گولی مار کر
ہلاک کردیا۔ ان پولس والوں پر سرے سے الزام ہی نہیں لگایا گیا۔ 2016 کے
اندر پولس نے فلانڈو کاسٹیلے کو گاڑی کے اندر پانچ گولیوں سے بھون دیا۔ اس
کا جواز یہ پیش کیا گیا کہ فلانڈو کے مشکوک انداز میں ہاتھ ہلانے سے پولس
حوالدار نے اپنی جان کو خطرہ محسوس کیا۔ 2014 میں میسوری کے اندر ایک
نوجوان کو اس وقت گولی ماری گئی کہ جب وہ اپنے ہاتھ ہوا میں اٹھائے ہوئے
تھا۔ پولس اہلکار کا یہ بیان تسلیم کرکے اس کی جان کو خطرہ ہے جیوری نے اسے
رہا کردیا۔یہ سلسلہ اسی لیے درا ز ہوتا چلا جاتا ہے کیونکہ پولس افسران کو
قرار واقعی سزا نہیں دی جاتی اور وہ بہ آسانی سے بچا لیے جاتے ہیں۔
جون 2015 میں دو واقعات نے امریکہ میں ہنگامہ برپا کردیا ۔ بوسٹن میں پولیس
نے ایک ایسے شخص کو گولی مار کر ہلاک کردیا ہے جو انسداد دہشت گردی کے
مقدمے میں 24 گھنٹے سے زیر نگرانی تھا۔ اس قتل کے بعد یہ کہانی بنائی گئی
کہ 24 سالہ اسامہ رحیم کا جب ایف بی آئی اور بوسٹن پولیس نے تعاقب کیا تو
اس نے ایک بڑی چھری کے ساتھ حملہ کر دیا ۔ حیرت کی بات یہ ہے تربیت یافتہ
گلے تک اسلحہ سے لیس اہلکار اسے گرفتار نہیں کر سکے اور اس پر گولی چلادی ۔
دہشت گردی کے حوالے سے مشکوک اسامہ رحیم کی گرفتاری کا وارنٹ تک پولس کے
پاس نہیں تھا۔ مقتول کے بھائی ایمان ابراہیم رحیم سان فرانسسکو میں مذہبی
رہنما ہیں ۔ انہوں نے پولس کے الزام کی تردید میں فیس بک پر لکھا کہ اسامہ
کوجب گولی مار ی گئی تو وہ ملازمت پر جانے کے لیے بس کے ا انتظار میں اپنے
والد سے فون پرگفتگو کر رہا تھا اور اس کے آخری الفاظ باپ کے فون میں
محفوظ ہیں ۔
اسی ماہ (2015) میں امریکہ کی ریاست جنوبی کیرولائنا کے شہر چارلسٹن میں
ایک افریقی امریکی گرجا گھر پر فائرنگ کر کے نو افراد کو ہلاک کردیا گیا ۔چارلسٹن
کا ایمینوئل افریقی میتھوڈسٹ کا شمارسرزمینِ امریکہ پر سیاہ فام امریکیوں
کی قدیم ترین عبادت گاہوں میں ہوتا ہے۔پولیس کے مطابق حملہ آور لیگزنٹن
فائرنگ سے پہلے ایک گھنٹے تک چرچ میں بیٹھا رہا تھا۔ رات نو بجے کے قریب جب
گرجا گھر میں لوگ عبادت کے لیے جمع ہوگئے تو اس درندے نےا چانک گولیوں کی
بوچھار کردی ۔ وہ حملہ آور فیس بک پر شائع شدہ ایک تصویر میں کنفیڈریٹ کا
پرچم اٹھا ئے ہوئے نظر آیا ۔ امریکی خانہ جنگی کے دوران یہ پرچم جنوبی
ریاستوں نے اس وقت استعمال کیا تھا جب انہوں نے غلامی کے خاتمے کے خلاف
علیحدہ ہونے کی کوشش کی تھی۔ اس طرح گویا وہ غلامی کو قائم رکھنے کی ایک
علامت ہے۔ یہ پرچم ساؤتھ کیرولائنا کے دارالحکومت میں اب بھی لہرا رہا ہے۔
اس واقعہ کے بعد سے ریاست میں یہ بحث پھر سے چھڑ گئی تھی کہ آیا اس جھنڈے
کو لہرانے دیا جائے یا اسے اتار لیا جائے۔
امریکہ میں اس وقت انتخابی گہما گہمی کا آغاز ہوچکا تھا اس لیے مذکورہ
سانحہ کا فائدہ اٹھانے کے لیے ریپبلیکن جماعت کے سابق صدارتی امیدوار مٹ
رومنی نے جنوبی کیرولائنا کے دارالحکومت کی عمارت کے باہر کنفیڈریشن کے
لہراتے جھنڈے کو اتارنے کا مطالبہ کرنے والے مظاہروں میں شرکت کی۔ ری
پبلیکن جماعت کے مقامی نمائندے ڈگ برانن نے کیرولائنا سے کنفیڈریشن جھنڈے
کو اتارنے کے لیے قانون سازی کی تجویز پیش کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ۔ اس کے
برعکس ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن نے چارلسٹن شوٹنگ کے بعد ملک
میں بندوق کے حوالے سے مزید سخت قوانین بنانے کی ایک جذباتی اپیل پر اکتفاء
کیا مگر اپنے رائے دہندگان کی ناراضگی کے خوف سے پرچم پر تنقید کرنے سے
گریز کر گئیں ۔ صدر براک اوبامہنے بھی اسلحے کے بارے میں سخت قوانین نہیں
بنانے پرکانگریس پر تنقید کی اور بلاواسطہ یہ کہا کہ اس قسم کے پرچم عجائب
گھروں میں ہونے چاہییں۔ وہ بھی پارٹی کے سیاسی مفادات کا خیال رکھتے ہوئے
اس غلامی کی علامت پر پابندی لگانے کی جرأت نہیں کرسکے ۔
صدر براک اوباما نےان واقعات کے بعد ایک انٹرویو میں تسلیم کیا تھا کہ
امریکی تاریخ پر سیاہ فاموں کو غلام بنانے کا سایہ چھایا ہوا ہے اور بقول
ان کے ’یہ اب بھی ہمارے ڈی این اے میں موجود ہے۔‘ اس تاریخی اعتراف کے ساتھ
انہوں نے تسلیم کیا تھا کہ ’نسلی امتیاز سے ہمیں چھٹکارا نہیں ملا۔ معاملہ
صرف یہ نہیں کہ عوام کے سامنے لفظ ’’نِگر‘‘ نہ بولا جائے کیونکہ یہ لفظ
بدتمیزی کے زمرے میں آتا ہے(واضح رہے کہ ’نِگر‘ سیاہ فام افراد کے لیے
استعمال ہوتا ہے اور اس لفظ کے استعمال کو توہین آمیز سمجھا جاتا ہے)
۔انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ’یہ محض واضح امتیاز کا مسئلہ نہیں ہے۔ معاشرے
میں 200 یا 300 سال قبل ہونے والے واقعات کو راتوں رات نہیں مٹایا جا
سکتا۔‘ اسانٹرویو کے بعد نومبر میں اسی منے پولس میں ایک سیاہ فام شخص جمر
کلارک کو پولیس نے ہلاک کر دیا ۔
جمر کلارک کے قتل پر بھی حالیہ مظاہروں کی مانندامریکہ کے مختلف شہروں
فرگوسن، میسوری، نیویارک وغیرہ میں کرسمس کی خریداری کے موقع پر ’بلیک
لائیوز میٹر‘ یعنی ’سیاہ فاموں کی زندگیاں اہم ہیں‘ نامی گروپ نے احتجاج
کیا اور مظاہرین گرفتار بھی کیے گئے ۔ اس بار پھر وہی نعرہ گونج رہا ہے۔
امریکی عوام اور کو اس کے مداحوں کو اس بات پر بڑا فخر ہے کہ وہاں احتجاج
کرنے کی مکمل آزادی ہے لیکن وقت آگیا ہے ان کے نتائج کا بھی جائزہ لے
کردیکھا جائے کہ وہ کس قدر نتیجہ خیز ہوتے ہیں؟؟ اساحتجاج کے بعد والے سال
2016 میںسیاہ فام شخص فیلینڈو کاسٹائل کو مظاہروں کے مرکز سے قریب ٹریفک
میں گولی مار کر ہلاک کردیا گیا ۔ اس کو بین الاقوامی توجہ تو ملی لیکن
تھوڑے بہت شور شرابے کے بعدپھر معاملہ ٹائیں ٹائیں فش ہوگیا ۔
امریکہ کے اندر افریقی نژاد امریکی باشندوں کو جس معاشرتی اور معاشی عدم
مساوات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کی شدت کا اندازہ لگانے کے لیے جولائی
2015 میں ایک سروے کا مطالعہ مددگار ہوسکتا ہے۔ اس جائزے کی اہمت اس لیے
بھی ہے کہ صدر براک اوبامہ کے دورِ اقتدار میں کیا گیا تھا۔ اس کے مطابق
صرف بیس فیصد افراد نے کہا تھا کہ ملک میں نسلی تعلقات بہتر ہو رہے ہیں،
جبکہ چالیس فیصد نے کہا تھا کہ نسلی تعلقات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔اس
جائزے نے یہ ثابت کردیا کہ امریکہ میں پہلے سیاہ فام صدر کے انتخاب سے
وابستہ توقعات کے برعکس ملک ملک نسلی تعصب سے پاک ’’ ہم آہنگی کی دنیا‘‘
میں داخل نہیں ہوسکا ۔ اس عوامی جائزے میں انکشاف ہوا کہ دس میں سے چھ کے
قریب امریکیوںکا خیال ہے کہ ملک میں نسلی تعلقات کی موجودہ صورتحال خراب
ہے۔ جائزے کے دوران سیاہ فام اور سفید فام امریکیوں سے سوالات کیے گئے تھے
۔
اس مشق کے دوران چالیس فیصد لوگوں کے ذریعہ یہ خوفناک پہلو بھی سامنے آیا
تھا کہ ملک میں نسلی تعلقات مزید خراب ہو رہے ہیں کیونکہ ۶ سال قبل براک
اوباما کے انتخاب ہونے پر دو تہائی امریکیوں نے کہا تھا کہ ان کے خیال میں
نسلی تعلقات کی صورتحال ’’عمومی طور پر اچھی‘‘ ہے۔یہ مثبت تبدیلی تھی
کیونکہ 2008 میں اوباما کی پہلی صدارتی مہم کے دوران تقریباً 60 فیصد سیاہ
فام امریکیوں نے نسلی تعلقات کی صورتحال کو ’’عمومی طور پر خراب‘‘ قرار دیا
تھا۔ ان کے انتخاب کے بعد یہ تعداد نصف ہو گئی تھی لیکن وہ ایک عارضی احساس
تھا اس لیے کہ ۷سال بعد 68فیصد سیاہ فام امریکیوں کی رائے بدل گئی اور
انہوں نے کہا کہ نسلی تعلقات خراب ہوگئے ہیں۔
صدر اوباما کے دور اقتدار میں یہ رپورٹ بھی آئی کہ سیاہ فام آبادی میں عدم
اطمینانی بلند ترین سطح پر ہے اور 1992 میں روڈنی کنگ کی مارپیٹ کے ملزم
پولیس افسروں کی رہائی کے بعد شروع ہونے والے فسادات کے بعد ریکارڈ کی گئی
بے اطمینانی کی سطح کے قریب ہے۔‘‘ ۔ سروے میں شریک نصف تعداد نے کہا کہ
سیاہ فام صدر کے انتخاب سے مختلف نسلوں کے آپسی تعلقات پر کوئی اثر نہیں
پڑا، جبکہ ایک تہائی نے کہا کہ اس سے فاصلہ مزید بڑھا ہے۔ صرف پندرہ فیصد
نے کہاتھا کہ نسلی تعلقات بہتر ہوئے ہیں۔ براک اوبامہ کے بعد رعونت زدہ نسل
پرست ڈونلڈ نے اقتدار سنبھالا اور اس کے بعد کیا حالت ہوئی ہوگی اس کا
اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے لیکن یہ مسئلہ فرد کا نہیں بلکہ وہاں رائج نظام
سیاست کا ہے۔ انسانی تفریق و امتیاز کو ختم کرناقوم پرستی کی بنیاد پر قائم
و دائم لامذہبی سرمایہ دارانہ جمہوریت کے بس کی بات نہیں ہے کہ وہ محمود و
ایاز کو ایک ہی صف میں کھڑا کرسکے ۔اس سے متعلق شاعر مشرق علامہ اقبال نے
جو پیشنگوئی کی تھی اس کا نظارہ امریکہ جیسی عظیم ترین جمہوریت میں بسرو
چشم کیا جاسکتا ہے کیونکہ ؎
خالی ہے صداقت سے سیاست تو اسی سے
کمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تو اسی سے
|