اقوام میں مخلوقِ خدا بٹتی ہے اس سے
امریکی ریاست منے پولس میں افریقی نژاد جارج فلائیڈ کا پولس کے ہاتھوں
بہیمانہ قتل ہوا ۔ اس پر مقامی میئر جیکوب فرے کا ردعمل تاریخ کے صفحات
پرسیاہ حروف میں لکھا جائے گا کہ ’’امریکہ میں سیاہ فام ہونا سزائے موت (کا
نعم البدل) نہیں ہونا چاہیے‘‘۔میئر کو یہ جملہ اس لیے کہنا پڑا کہ فلائیڈ
کا قصور ۲۰ ڈالر کا مبینہ جعلی نوٹ دینا نہیں بلکہ سیاہ فام ہونا تھا ۔ اس
کے بعد ملک بھر میں احتجاج کا آتش فشاں پھٹ پڑا۔ امریکہ بہادر کے ستارے
آج کل گردش میں ہیں۔ کورونا کا لاک ڈاون ختم ہوا توملک کے پچیس شہروں
احتجاج کی وجہ سے کرفیو لگ گیا ۔مظاہروں کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا
جاسکتا ہے کہ یکم جون تک4 ہزار سے زائد افراد کو کرفیو کی خلاف ورزی کرنے
اور املاک کو نقصان پہنچانے کے الزامات گرفتار کرنا پڑا۔ مظاہرین میں شدید
غم و غصے کی دو بنیادی وجوہات ہیں ، اول تو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نےمقتول
سے ہمدردی اور مظاہرین کی دادرسی کرنے کے بجائے انہیں غنڈے اور بدمعاشوں کا
ٹولہ کہہ دیا ۔ دوسرے یہ خبر کہ حکام نے قاتل پولیس افسر ڈریک چیون کو پانچ
لاکھ ڈالر کی ضمانت پر رہا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
امریکی انتظامیہ ایک طرف ڈریک کے تئیں تو نرمی دکھا رہا ہے اور دوسری جانب
مظاہرین کی خبر رسانی کرنے والوں کوخوفزدہ کر رہا ہے۔ اس نے سی این این کے
نامہ نگار عمر جمے نیز کو اس کےساتھیوں سمیت گرفتار کرکے اپنی سفاکیت کا
ثبوت پیش کیا۔ عمر بھی فلائیڈ کی مانند سیاہ فام ہے ۔ پولس عمر کو گرفتار
کرتے وقت اس کے ساتھ موجود سفید فام جوش کیمپ بیل کو گرفتار نہیں کیا
حالانکہ صدر ٹرمپ کا سی این این سے خدا واسطے کا بیر ہے۔ امریکی حکومت ساری
دنیا میں اظہار رائے کی آزادی کا شور مچاتی ہے اور حقوق انسانی کی وکالت
کر تی ہے مگر خود اپنے ملک میں سیاہ فام نامہ نگاروں کا گلا گھونٹتی نظر
آتی ہے۔ یہ دراصل امریکہ کے اندر موجودنسل پرستی کو چھپانے اور اس کی
بنیاد پر ہونے والے جرائم کی پردہ پوشی کرنے کی سعی ہے ۔ وہاں پر سفید فام
لوگوں کو اظہار رائے کی تھوڑی بہت آزادی توحاصل ہے لیکن سیاہ فام کو یہی
کرنے پر عمر کی طرح سیدھے جیل بھیج دیا جاتا ہے ۔
امریکہ میں وقوع پذیر ہونے والے اس شرمناک سانحہ کی تفصیلیہ ہےکہ25 مئی
2020کی رات ، پولیس کو ایک پرچون کی دوکان سے فون آیا کہ مقامی ہوٹل میں
چوکیداری کرنے والے46 سالہ جارج فلائیڈ نے جعلی 20 ڈالر کے نوٹ سے ادائیگی
کی ہے۔پولیس کے مطابق جباسے گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی تو اس نے مزاحمت کی
۔ فلائیڈ کی ایک ویڈیو ذرائع ابلاغ میں منظر عام پر آئی ۔ اس میں پولس
افسر چیون کے گھٹنے اس کی گردن پر نظر آتے ہیں اور فلائیڈ کویہ کہتے ہوئے
سنا جاسکتا ہے کہ پلیز میں سانس نہیں لے پا رہا اور ’مجھے ہلاک نہ
کرو‘۔اسپتال کے طبّی معائنہ کار کی ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق
پولیس افسر نے آٹھ منٹ 46 سیکنڈ تک اپنے گھٹنے سے مقتول کی گردن کو دبائے
رکھا جبکہ تقریباً تین منٹ بعد فلائیڈ بے ہوش ہوچکا تھا اس لیے کسی بے حس و
حرکت فرد کا گھٹنے سے گلا گھونٹنا اگرعمداً قتل نہیں ہے تو اور کیا ہے؟
اس دوران وہاں موجود دوسرے افسران نے چیون کو ہٹانے کے بجائے فلائیڈ کی
دائیں کلائی کو نبض کے لیے چیک کیا مگر ناکام رہے۔یہی وجہ ہے کہ مقتول کے
اہل خانہ ان تین افسران کی بھی گرفتاری کا مطالبہ کررہے ہیں ۔ ویسے
انتظامیہ نے فی الحال دباو میں آکر ڈریک چیون سمیت چار پولیس اہلکاروں کو
ملازمت سے برخاست کردیا ہے۔اس کے باوجوددنیا کی عظیم ترین جمہوریت کے اندر
ابتدائی پوسٹ مارٹم میں ’ گلا گھونٹنے‘ کا ثبوت ندارد ہے۔ اس میں درج ہے کہ
فلائیڈ کے موت دل کی حالت ، نشے کے اثراور افسر کی جانب سے روکے جانے
کےباعث ہوئی۔ کیا یہ مقدمہ کمزور کرنے کی سازش نہیں ہے؟ آگے چل کرہنیپن
کاؤنٹی کے اٹارنی، مائیک فریمین نے باضابطہ فرد جرم کا اعلان کرتے ہوئے کہا
کہ ان کے پاس اقدام قتل کا جرم ثابت کرنے کے لیے کافی شہادتیں موجود ہیںمگر
تفصیل بتانے کے بجائے یہ کہہ کر ٹال گئے کہ اس کا اعلان بعد میں کیا جائےگا۔
فلائیڈ کے قتل کی ویڈیو کے وائرل ہوتے ہی مشتعل مظاہرین کا احتجاج شروع
ہوگیا اور انہوں نے منےپولس شہر کے مقامی پولیس اسٹیشن کو سب سے نذر آتش
کیا۔ انتظامیہ کے لیے یہ عین توقع کے مطابق تھا اس لیےتین روز قبل ہی اسے
خالی کیا جاچکا تھا۔ ریاستی گورنر ٹم والز نرمی برت رہے تھے لیکن ان کی
حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے صدر ٹرمپ اسے منےپولس کی سیاسی قیادت کی کمزوری
قرار دیتے ہوئےفوج کے ذریعہ صورتِ حال سے نمٹنے کا مشورہ دیا۔ صدر ٹرمپ نے
ٹوئٹ میں اپنے سیاسی حریف پر نام لے کراس طرح تنقید کی کہ ''میں امریکہ کے
ایک عظیم شہر، منےپولس میں یہ سب کچھ ہوتے نہیں دیکھ سکتا۔ یا تو کمزور،
بائیں بازو کے قدامت پسند میئر، جیکب فرے یاتو شہر کو کنٹرول کرنے کے لیے
اقدام کریں ورنہ میں صورت حال کو معمول پر لانے کے لیے نیشنل گارڈ روانہ
کردوں گا''۔ صدر ٹرمپ کو اس وقت اندازہ نہیں تھا کہ احتجاج کے شعلے بہت ملک
کے مختلف شہروں سے ہوتے ہوئے قصر ابیض تک پہنچ جائیں گی اور خود ان کو دو
دن کے اپنا محل خالی کرکے کیمپپ ڈیوڈ میں پناہ لینے پر مجبورہونا پڑے گا۔
نام نہاد عالمی سپر پاور کے صدر کی یہ درگت ان کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے۔
ٹرمپ نے شروع میں تو یہ کہا کہ مسٹر فلائیڈ کی موت نے امریکیوں کو ’خوف،
غصے اور غم سے بھر دیا ہے۔‘ لیکن پھر وہ بہک گئے اور فلوریڈا سے ٹیلی ویژن
خطاب میں کہہ دیا کہ میں ناراض ہجوم کو غلبہ حاصل کرنے کی اجازت نہیں دوں
گا۔ ایسا نہیں ہوگا. وائٹ ہاؤس کےحفاظتی دستے کی تعریف میں تو بالکل ہی
پٹری سے اتر گئے ۔ انہوں نے اپنے محافظوں کو انتہائی شیطانی کتوں، اور
انتہائی بدترین ہتھیاروں کا حامل کے خطابات سے نواز کر مظاہرین کو خوفزدہ
کرنے کی کوشش کی۔ اس تشدد کا مذاق اڑاتے ہوئے وہ بولے کہ ( سمجھ میں نہیں
آرہا ہے کہ) یہ بظاہر’جارج فلائیڈ کی موت کے بارے میں تھا یا یا عدم
مساوات یا ہماری مختلف طبقات میں تاریخی صدمے کے بارے میں‘‘۔ کوئی سربراہ
مملکت ملک کی نازک گھڑیوں میں ایسی بہکی بہکی باتیں کرنے لگے تو اس کی
دماغی حالت پر شک ہونا فطری بات ہے۔ ویسے ڈونلڈ ٹرمپ کو تو دنیا کہ بہت بڑی
آبادی خبط الحواس جنونی تسلیم کرہی چکی ہے۔
امریکہ میں یہ انتخابی سال ہے اس لیے حزبِ اختلاف اس موقع کو کیسے گنوا
سکتی ہے ۔ اس نے امریکی محکمہ انصاف کو خط لکھ کر مذکورہ واقعہ کی شفاف
تحقیقات کا مطالبہ کیا ہےنیز پولیس کے طریقہ کارمیں غیر قانونی اقدام
کومتعین کرنے پر زور دیا ہے۔ڈیمو کریٹک پارٹی نے تحقیق کا دائرہ وسیع کرتے
ہوئے رواں سال فروری میں مبینہ طور پر سابق پولیس اہلکار اور اس کے بیٹے کے
ہاتھوں ہلاک ہونے والے سیاہ فام احمد آربری کو بھی اس میں شامل کرنے کا
مطالبہ کیا ہے۔ پارٹی کی عدالتی کمیٹی نے ان واقعات کو انصاف کی فراہمی سے
متعلق عوام کے اعتماد کو دھچکا لگانے والا اور نسلی تعصب کو تقویت دینے
والا قرار دیا ہے۔امریکہ میں چونکہ سیاہ فام اور سفید فام شہریوں میں
امتیاز برتنا خلافِ قانون ہے اس لیےسیاسی جماعتوں کے علاوہ شہری حقوق کی
بحالی کا کام کرنے والی تنظیموں نے بھی سیاہ فام طبقے کے خلاف نسلی تعصب پر
تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان سب کے باوجود امریکہ میں ایسے واقعات رونما ہوتے
رہتے ہیں اورسفید فام دہشت گردوں کے علاوہ پولیس کے ہاتھوں بھی افریقی نسل
کے نہتےامریکیوں پر تشدد ہوتا رہتاہے۔
اقوام متحدہ نے اس سانحہ سے متعلق اپنے بیان میں اسی پہلو پر توجہ دلائی
ہے۔ یو این میں انسانی حقوق کے کمشنر مائیکل بِچلٹنے اپنے بیان میں فلائیڈ
کے قتل پر فوری اقدام کرنے کی تلقین کرتے ہوئے کہا کہ امریکی حکام اس طرح
کے قتل کو روکنے کی خاطر ٹھوس اقدام کریں۔ اس کے باوجود اگر ارتکاب
ہوجائےتو قرار واقعی انصاف کو یقینی بنایا جائے۔ بچِلٹ کا کہناہے کہ اس طرح
کے واقعات کی روک تھام کے لیےضابطےتبدیل کیے جائیں ۔ اسکے ساتھ طاقت کا
بیجا استعمال کرنے والے پولس افسران پر مقدمہ چلا کر انکوجرائم کی سخت سزا
دی جائے۔ اس بیان کے اندر بین السطور خاطی پولس افسران کے سزا سے بچ نکلنے
پر فکرمندی کا اظہار موجود ہے۔
اس حوالے سے امریکہ میں فی الحال مایوسی کا یہ عالم ہے کہ سیئیٹل یونیورسٹی
میںقانون کے پروفیسرڈاکٹر طیب محمودکہتے ہیں کہ کسی بھی ملک کی پولیس کو
حدود و قیود میں رکھنا ممکن نہیں ہے۔ان کے مطابق چونکہ امریکہ میں بھاگ
نکلنے والے غلاموں کو پکڑنے کیلئے پولیس وجود میں آئی تھی اور اس میں
اقلیتی طبقات کی تعداد نہیں کے برابر ہے اس لیے وہ زیادہ منہ زور ہے۔پولس
کے علاوہ وہاں کے جیو ری سسٹم میں بھی اقلیتوں کی نمائندگی نہیں ہے اس لیے
یہ لوگ چھوٹ جاتے اور ظلم و جورکا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اس دنیا میں عدل اور
مساوات کے درمیان چولی دامن کا ساتھ ہے۔ عدل کی پامالی ازخود عدم مساوات کو
جنم دیتی ہے اور یہی امریکی تفریق و امتیاز کا بنیادی سبب ہے۔ رنگ و نسل کی
برتری ایک ابلیسی نظریہ ہے اس کی بیخ کنی کے بغیر آسمان گیتی وہ منظر نہیں
دیکھ سکتی کہ جو علامہ اقبال کے اس شعر میں ہے؎
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز
(۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰جاری)
|