انہیں ووٹ کون دیتا ہے؟

کریموں نائی کے غم و غصے کا اجمالی خاکہ ایک کالم میں پیش کر چکا ہوں۔ جب بھی کسی دوست سے ملاقات ہوتی ہے تو کسی نہ کسی طور پر کریمو کا ذکر چل نکلتا ہے۔ ہماری نشستوں میں فکر دین باگڑی اور فضل کسانہ بزلہ سنجی اور مکالمہ بازی میں ہمیشہ پیش پیش رہتے ہیں۔ باگڑی کا کہنا ہے کہ کریموں کے ساتھ ہمارا بچپن کا یارانہ ہے، اس لیے اس کے باتوں سے متاثر ہو کر پورا کالم لکھ گیا ہے، جبکہ فضل کسانہ ہمیشہ کی طرح کوئی نہ کوئی بہتان تراش لیتا ہے، اس کا کہنا ہے کہ ہمارا اور ہمارے گھرانے کا حجامی بجٹ کریمو کے ذمے ہے ، اس لیے اس کی ہر بات ہمارے دل میں اتر جاتی ہے۔ میں نے بہت صفائیاں پیش کیں لیکن کوئی بھی ماننے پر تیار نہ ہوا۔ سال ہا سال سے جاننے اور ماننے کے باوجود اس معاملے میں ہماری ایک نہیں سنی اور الزام جڑ دیا۔ حالانکہ کسی کو بھی پتہ نہیں کہ میں زندگی میں پہلی بار کریمو کے حجام میں گیا تھا، کوئی پرانی سلام دعاء بھی نہیں تھی۔ بس اس نے حجامت کرتے، کرتے ٹھنڈی سانس لی تو میں نے ازراہ ہمدردی پوچھ لیا کہ چچا کیا مسئلہ ہے۔ بس اتنی سی بات تھی کہ اس نے پوری کہانی سنا دی۔ نہ اسے یہ پتہ تھا کہ میں کالم لکھتا ہوں اور نہ مجھے علم تھا کہ اس بابے سے چند منٹوں کی ملاقات میں میرے کالموں کے کئی عنوان موجود ہیں۔ ہاں اس کے بعد ہمارا ایک تعلق قائم ضرور ہو گیا ہے لیکن ایسی ویسی کوئی بات نہیں جن کا ذکر باگڑی اور کسانہ سرے مجلس کرتے ہیں۔ یہ الزام تراشی ہمارے سماج میں رچ بس گئی ہے، کوئی گمان نہیں کرسکتا کہ کوئی بھلے مانس کسی کی داستان سن سکتا ہے یا اس کہانی پر اعتبار بھی کر سکتا ہے۔ یہ معاملہ صرف صحافت تک ہی نہیں بلکہ ہر معاملے میں ہمارا سماج شکوک و شبہات کا شکار ہے۔ دیہی زندگی میں دن ڈھلتے ہیں مجلسیں سج جاتی ہیں اور اردگر د کی ساری کرنٹ پوزیشن زیر بحث آتی ہے۔ نوجوان بچوں، بچیوں سے لے کر بوڑھوں تک کی روزانہ کی ڈائریاں پیش ہوتی ہیں او ر پھر تبصرہ بازی رات گئے تک جاری رہتی ہے۔

آج ہماری مجلس میں شرف دین مستری بھی آن پہنچا تھا۔ یوں تو وہ شام ڈھلنے کے بعد ہی محلے میں آتا تھا لیکن آج کہیں جلدی فارغ ہوگیا تو محلے داروں کی مجلس کی رونق افزائی کے لیے اس نے بھی عرصے بعد وقت نکال ہی لیا۔ انتخابی امیدواروں کی آمد ورفت نے شام کی مجالس کے لیے روزانہ کہیں ایک نئے موضوعات جنم دے رکھے ہوتے ہیں۔ آج ہمارے ہاں جو امیدوار چکر لگا کر گیا تھا وہ گزشتہ پانچ سالوں سے اسمبلی کی رونق بنا ہوا ہے اور اس نے تینوں بار وزیراعظم کی تبدیلی میں بھرپور حصہ لیا اور آئندہ انتخابات کے خرچے کے علاوہ اگلے پانچ سالوں کی گزربسر کا بھی بخوبی بندوبست کرلیا ہے۔ اب کی بار اس نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ اگر آئندہ بھی کسی وزیراعظم نے ہمارے مسائل پر توجہ نہ دی تو اس کو بھی تین ماہ سے زیادہ نہیں چلنے دیا جائے گا۔فضل کسانہ اس امیدوار کے خطاب کی جھلکیاں سنا ہی رہا تھا کہ شرف دین نے سگریٹ کا کش لگاتے ہوئے کہا کہ یہ ممبران ہر سال ڈیڑھ سال میں وزیراعظم تبدیل کر دیتے ہیں کیوں نہ ہم بھی ہر ڈیڑھ سال بعد ممبر اسمبلی کو تبدیل کر لیا کریں۔ فضل نے کہا کہ اسمبلی کے اندر تو کئی آپشن ہوتے ہیں۔ ممبران کی خرید وفروخت کے لیے وزارت اعظمیٰ کے امیدواروں کے پاس مال پانی بھی ہوتا ہے۔ ہمارے پاس تو کوئی آپشن ہی نہیں۔ دو لوگ ہیں جو باری، باری واری لگاتے ہیں۔ ان کی ملی بھگت کی وجہ سے مال پانی کا بھی کوئی راستہ نہیں رہا۔ کوئی تیسرا ایسا بندہ بھی نہیں ، جو ان کی طرح دن کو رات اور رات کو دن بنا کے دیکھا سکے۔ پرائمری سکول کو کالج کا درجہ دینے ، جنگلوں میں بسیں چلانے اور چیڑ کے درختوں سے زیتوں کا تیل نکالنے کے گُر سیکھانے کا عندیہ دے سکے۔ یہی تو وہ اوصاف ہیں جن پر عوام ووٹ دیتے ہیں، ورنہ وہ کام جو سیدھے ہاتھ سے ہوسکتے ہیں، ان کا جو بھی وعدہ کرتا ہے تو شرف دین کہتا ہے کہ یہ کام تو میں خود کر لیتا ہوں، اس کے لیے اتنے خرچے والا ممبر اسمبلی تراشنے کی کیا ضرورت پڑ گئی ہے۔

شرف دین کا خیال ہے کہ حکومت نے ہر انتخابی حلقے کے لیے سالانہ بجٹ میں ترقیاتی فنڈز طے کر رکھے ہوتے ہیں۔ ممبر اسمبلی گونگا ہو یا بہرہ یہ فنڈز تو ویسے ہی مل جانے ہوتے ہیں۔ اس میں ممبران اسمبلی کا کوئی کمال نہیں ہے۔ ان کا کمال تو یہ ہے کہ جو رقم مل جائے، اسے ہضم کیسے کرنا ہے۔ کسی نے اس فن کے ماہرین کو دیکھنا ہو تو محکمہ لوکل گورنمنٹ کے منشی کو پانچ ہزار روپے دے کر اپنے حلقے کی گزشتہ پندرہ سالوں کی ترقیاتی سکیمیوں کی فہرستوں کی کاپیاں حاصل کر کے دیکھ لے۔ شرفو کا کہنا تھا کہ میں نے گزشتہ سال ایک سکول ماسٹر کے پاس ایک فہرست دیکھی تھی۔ اسے دیکھ کر یہی لگتا تھا کہ ہمارا گاؤں تو پیرس بن چکا ہوگا لیکن زمینی حقائق کچھ اور ہی ہیں۔ شرفو کا کہنا تھا کہ یہی کمال فن ہے جو ایک ممبر اسمبلی کے لیے درکار ہے۔ یہ سیاسی کارکن نامی لوگ ممبران اسمبلی کے لیے نعرہ بازیاں اسی لیے کرتے ہیں کہ ان کا دال پانی بھی انہی سکیموں سے چلتا ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ یہ یوں ہی دن، رات ایک کرتے ہیں اور ذرا سی بات پر مرنے، مارنے پر اتر آتے ہیں۔ ایسی محبت تو کسی کو اپنے باپ سے نہیں ہوتی اس دور میں۔ یہ ممبران اسمبلی نہیں سونے کی کانیں ہیں، جو ان کی قربت حاصل کرتا ہے مالا مال ہو جاتا ہے۔ دیکھتے نہیں ہو ہمارے رکن اسمبلی نے پانچ سالوں میں جو عالیشان محل بنایا ہے وہ کوٹھیاں والے پوری زندگی کے کاروبار سے نہیں بن سکے۔ یہ ہوتا ہے شارٹ کٹ اور کمائی کا ہنر۔ جس میں یہ کمالات ہوں، وہی اسمبلی میں جا سکتا ہے اور وہی وہاں گزارا بھی کر سکتا ہے۔ جس نے اپنی ترقیاتی سکیموں کے بورڈ لگائے، جس نے سب کچھ عوام کے سامنے رکھا ، اسے یہ لوگ سستی شہرت حاصل کرنے کا نام دیتے ہیں اور اسے ہمیشہ کے لیے اسمبلی سے باہر رکھنے کے لیے پوری اسمبلی حزب اقتدار اور حزب اختلاف سب ہی متحد ہو جاتے ہیں۔

ان سارے تجزیوں کے بعد فکر دین باگڑی نے کہا کہ مجھے تو پتہ نہیں تھا کہ اسمبلی میں جاکر یہ لوگ بیت المال پر ہاتھ صاف کرتے ہیں۔ میرا تو خیال تھا کہ قانون سازی کے علاوہ ان کا کوئی کام نہیں ہوتا۔ اپ پتہ چلا کہ قانون سازی کے بجائے یہ تو قانون شکنی کرتے ہیں۔ ان کو ووٹ دینا تو اپنے ایمان کا سودا کرنا ہے۔ ان کو ووٹ دینے کا مطلب تو یہ ہوا کہ ہمارے ووٹوں سے منتخب ہوکر یہ جتنی، جتنی کرپشن، ناانصافی، میرٹ کی پامالی، اقربہ پروری اور عیاشی کریں گے، ان سارے جرائم میں ہم بھی شریک ہوں گے اور ان کے گناہوں میں بھی ہم برابر حصہ دار ہوں گے۔ استغفر اللہ، اتغفراللہ، اللہ توبہ میں تو نہ دوں ووٹ۔ اللہ معافی دے جو ماضی میں بھوکے پیاسے پوری دیہاڑی اس شیطانی کام میں کھپاتا رہا۔ میں توبہ کرتا ہوں اور یہ اعلان کرتا ہوں کہ میرے گھر میں سے بھی کوئی شخص اس گناہ میں شریک نہیں ہوگا۔ یہ گناہ بے لذت ، میں کیوں کروں۔ میں تو سب سے کہتا ہوں کہ برادری ، علاقے، دھڑے اور پارٹی کے نام پر بیوقوف نہ بنو۔ ان ممبران اسمبلی کا کوئی عقیدہ اور نصب العین نہیں ہے۔ ان کا کوئی نطریہ اور فکر نہیں ہے۔ یہ حوس کے بندے، اپنے پیٹ کے پجاری، اپنے من کے غلام اور سماج میں پائی جانے والی ساری برائیوں کے ذمہ دار ہیں۔ یہ قابل نفرت لوگ ہیں۔ ان کی خاطر ہم نے اپنی دنیا تو تباہ کرہی ڈالی ہے، آخرت کو تباہ نہیں کرنا چاہیے۔قبر میں نہ برادری نے ساتھ دینا ہے، نہ پارٹی نے کام آنا ہے اور نہ حرام خوروں نے کہیں نظر آنا ہے۔ اس لیے توبہ کیجیے اور ایسے لوگوں نے برآت اور نفرت کا اظہار کیجیے۔ یہ ووٹ کے نہیں نفرت کے قابل لوگ ہیں۔ ووٹ سے مراد تو بیت ہوتی ہے۔ میں پاگل ہوں ، ان کی تائید کروں یا ان کی بیت کروں۔ انہیں کون ووٹ دیتا ہے، کوئی پاگل ہی ہوگا جو ایسے لوگوں کا ساتھ دے کر اپنی دنیا اور آخرت تباہ کرے گا۔ اللہ معافی ....میں اس راہ پر نہیں چل سکتا۔

رات خاصی ڈھل چکی تھی لیکن فکر دین بھائی کی فکرانگیز تقریر جاری تھی۔ میں نے یہ کہا کہ کسی اچھے بندے کو ووٹ دے کر دیکھ لو،اس کے تیور بدلنے لگے اور غصے سے بولا، پچاس سالوں سے تو کوئی اچھا بندہ ملا نہیں، اب تم آسمان سے لاؤ گے میرے لیے۔ جاؤ آرام کرو، چند ٹکوں پر بکنے والوں کے لیے اپنا وقت ضائع نہ کرو۔ ہاں اچھی طرح سن لو کہ آئندہ اس طرح کی شیطانی موضوعات پر یہاں بات نہیں ہوگی۔ جس نے بھی اس شام غریباں میں آنا ہے، وہ اپنے سماج کے مسائل کے ساتھ آئے۔ ہم اپنی مجالس کو ایسے لوگوں کے ذکر سے آلودہ نہیں کرنا چاہتے۔ سارے ساتھیوں نے اس موقف میں تبدیلی کے لیے کئی تحاریکیں پیش کیں لیکن فکر دین بھائی نے ایک نہ سنی اور سُوری، سُوری کرتا ہوا گھر کی طرف چلا گیا۔ اپنی آراء سے آگاہ کرنے کے لیے ای میل کے علاوہ فون نمبر03122561900 پر بھی رابطہ کر سکتے ہیں۔
Atta ur Rahman Chohan
About the Author: Atta ur Rahman Chohan Read More Articles by Atta ur Rahman Chohan: 129 Articles with 106354 views عام شہری ہوں، لکھنے پڑھنے کا شوق ہے۔ روزنامہ جموں کشمیر مظفرآباد۔۔ اسلام آباد میں مستقل کالم لکھتا ہوں۔ مقصد صرف یہی ہے کہ ایک پاکیزہ معاشرے کی تشکیل .. View More