آپ ٹائٹل دیکھ کر حیران
ہورہے ہونگے کہ یہ تین لوگ کون ہیں اور پاکستان کے مستقبل سے ان کا کیا
تعلق ہے۔؟ آپ یہ جان کر واقعی حیران ہونگے کہ پاکستان کے مستقبل کے
ساتھ ان کاﺅ بوائز کا گہرا تعلق ہے۔ان میں سے ایک تو بالکل کنوارہ ہے
اور باقی دو چھٹن ہیں یعنی طلاق دہندہ ہیں۔ لیکن میں ان تینوں کو
کنوارہ ہی سمجھتا ہوں۔۔ کیونکہ اتنے معصوم ہیں کہ یہ خیال بھی کرتے
ہوئے گناہ کا احساس ہوتا ہے کہ یہ بھی کسی زنانی کی طرف نظر اُٹھا کر
دیکھتے ہونگے۔۔ جب بھی دیکھتے ہونگے ترچھی نظر سے ہی۔
یہ کنوارے وہ ہیں جو کسی طور یہ دعویٰ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ
پاکستان کو بس انہی کی ضرورت ہے ان کے بغیر ملک کا مستقبل داﺅ پر
ہے۔مگر بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی کے مصداق ان دعوﺅں میں بھی
کچھ نہ کچھ سچائی ضرور ہے ملک کا مستقبل داﺅ پر ضرور ہے اگر ان میں سے
دو کو واقعی پاکستان کا ناﺅ سنبھالنے کا موقع ملے۔
پہلے میں ان تینوں کا بار ی باری آپ سے تعارف کرواتا ہوں اسکے بعد آپ
خود ہی اندازہ لگا سکیں گے کہ بات میں کہاں تک دم ہے۔
نمبر 1 جناب عزت مآب ۔عالم پناہ مانگے حضرت الطاف حسین عرف بھائی صاحب
ہیں۔ جن کے بارے میں یہ کہے تو بے جا نہ ہوگا کہ 200میل دور اگر کسی
گھر میں کوئی بچّہ روئے تو ماں کہتی ہے کہ بیٹا مت رو ورنہ بھائی کے
بندے آئیں گے تو بیچارہ بچّہ سانس لینا بھی بھول جائے۔
نمبر 2 پیران پیر مرشد حق کنوارہ وقت جناب فرزند پاکستان عرف شیخ صاحب۔
شکل و صورت ہیت وماہیت اور ڈھول ڈھال اور چال چلن سے بالکل انڈر ورلڈ
کے ڈان لگتے ہیں ۔ جن کے ہاتھ سگار کے بغیر بے رونق اور جلتا ہوا سگار
ان کی شان اور عظمت کی نشانی ہیں۔
پہلے ان دونوں کی تھوڑی سی بات کرلیتے ہیں پھر انڑوال میں آخری بے جوڑے
کی انٹری کرواتے ہیں۔
الطاف بھائی کی گرج دار آواز سات سمندر پار سے بھی اسی کڑک اور گھن گرج
کے ساتھ آتی ہے کہ جیسے جنگل میں بھوکا شیر دھاڑ رہا ہو اور اس خوفناک
آواز سے لومڑیاں ،بندر اور گیدڑ سب جیسے سہم کر بیٹھے ہوں ۔ پاکستان کا
مستقبل داﺅ پر ۔۔۔ میرا مطلب ہے انقلاب کے زریعے بدلنے کی باتیں کرتے
ہیں اس قسم کے ہیبت ناک لوگ اس قسم کی دھاڑیں مارتے ہیں تو اندر اندر
سے بہت خوف محسوس ہوتا ہے خدا نہ کرے کہ ہم بھائی صاحب کے ہتّھے چڑھ
جائے۔۔ اور شیخ صاحب تو ہیں ہی معصوم اس ہارے ہوئے شیر کی طرح جو اپنا
جنگل چھوڑنے پر رضامند نہ ہو مگر اس کے سوا چار ہ بھی کوئی نہ ہو۔ ایک
چھوٹا سا جنگل اپنا بنا کر گزارہ کرنے کا ارادہ فرمایا تھا مگر وہاں نہ
پانی ملا نہ گھاس نہ چرند پرند بہت بے رونق سا تھا دل نہیں لگ
رہا۔۔۔مگر کرے تو بھی کیا کرے۔۔ ہمیں اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم
تھا ۔۔ مری کشتی وہاں ڈوبی جہاں چلو بھر پانی تھا۔۔۔پاکستان بچانے کی
بات کرتے ہیں ۔۔ ہنسی آتی مجھے حضرت انسان پر ۔۔۔۔ کے مصداق مجھے شیخ
صاحب کے بیان پر ہنسی آتی ہے لطیفہ ہے کہ ایک شخص خون دینے ہسپتال گئے
جب آ دھا پاﺅنڈ خون نکالا گیا تو وہ صاحب بے ہوش ہوگئے اور انہیں خود
دو پاﺅنڈ خون چڑھانے پڑے جب ہوش میں آیا تو کہنے لگے اور تو چاہیے تو
بتانا ہاں۔۔ تو یہاں بھی کچھ معاملہ یوں ہی ہے ۔
اور جو آخری صاحب ہیں بالکل کاﺅ بوائے والا اسٹائل ، ایک زمانے میں
ہالی ووڈ سے لیکر بالی ووڈ اور شرقاً غرباً شمالاً جنوباً جن کے شہرت
کے چرچے تھے وقت کی حسینائیں جن کی قربت کے لئے ترستی تھیں چٹّی چمڑیا
ں جن کی زلفوں کی اسیر تھیں اور لندن کے نائٹ کلبز۔۔۔۔خیر چھوڑیں یہ تو
جوانی کی کچھ نادانیاں کچھ ناسمجھیاں سمجھیں۔۔۔ عمراں خان عرف خان
صاحب۔۔ کل کا ہیرو اور آج سب کچھ داﺅ پر لگا کر پاکستان جیسی غریب
نادار ، زخم خوردہ اور عزّت دار خاتون کی زلفوں کے اسیر ہوگئے ہیں وہ
بہت جذباتی نظر آتے ہیں آنکھوں میں کچھ کر گزرنے کا جذبہ اور باتوں میں
مر مٹنے کا عزم موجزن نظر آتا ہے۔۔ نوجوانوں کے ذریعے ملک میں انقلاب
لانے کی باتیں کرتے ہیں۔۔۔ خدا جانے یہ آل ٹائم لور پاکستان کے ساتھ
بھی کچھ وفا کرتے ہیں یا پھر اسے بھی دام محبت میں پھنسا کر جس طرح
چٹّی چمڑی حسیناﺅں کو دغا دے بیٹھے ہیں اسے بھی دغا دیں گے ۔۔۔؟؟ |