ہندوستان میں منعقد ہونے
والے حالیہ ریاستی و ضمنی انتخابات میں ہر سیاسی گروہ کیلئے کوئی نہ
کوئی اطمینان کا پہلو موجود ہے اور وہ اس پر شادمان ہے۔ گویا کہ ایک
‘‘فیل گڈ’’ کی سی صورتحال ہے ۔ اس لئے کہ انتخابی سیاست میں لوگ نہ صرف
اپنی فتح سے خوش ہوتے ہیں بلکہ اپنے دشمن کی ناکامی پر بھی بغلیں بجاتے
ہیں اس سے قطع نظر کہ اسے شکست سے کس نے دوچار کیا ہے۔ ان انتخا بات
میں چونکہ سب کچھ توقع کے مطابق ہو گیا اس لئے مبصرین کیلئے بھی کچھ
زیادہ سمجھنے سمجھانے کا موقع نہیں رہا ۔بظاہر کانگریس پارٹی کو پانچ
میں سے دو ریاستوں میں راست کامیابی ہوئی اور ایک میں اسکی حلیف ترنمول
جیت گئی اس طرح کل ملا کر تین کامیابیاں لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ
کانگریس پانچوں ریاستوں میں کامیاب ہوگئی ہے ۔ پڈوچیری کے رنگا سوامی
فروری تک کانگریس میں تھے اوراس سے قبل کانگریس کی بدولت کئی مرتبہ
مختلف وزارتیں بشمول وزارت اعلیٰ پر براجمان رہ چکے ہیں دو سال قبل ان
کو کانگریس نے ہٹایا اور دو ماہ قبل انہوں نے بغاوت کرکے اپنی علحیدہ
پارٹی بنائی تاکہ کانگریس کو سبق سکھلایا جاسکے ۔ کانگریس کو انہوں نے
دھول چٹا دی اورانتقام لینے میں کامیاب ہو گئے ۔ اب کانگریس والے ان سے
پھر پینگیں بڑھائیں گے اور جلد ہی وہ سسرال سے میکے لوٹ آئیں گے۔ جئے
للیتا کے معاملے میں بھی یہی ہوگا ۔ سب سے پہلے کانگریس پارٹی ڈی ایم
کے سے خلع حاصل کریگی اور پھر اے آئی ڈی ایم کے سے بیاہ رچا لے گی ۔
یہ شادی خانہ آبادی دونوں کیلئے فائدے کا سودہ ہے ۔تمل ناڈو میں
کانگریس کا اپنا تو یہ حال ہے کہ فلمی اداکار وجئے کانتا کی نو زائیدہ
ڈی ایم ڈی کے نے بھی اس سے پانچ گنا زیادہ نشستیں حاصل کی ہیں ایسے میں
کرونا ندھی کے خزاں رسیدہ درخت سے امر بیل کی مانند لپٹے رہنے بہتر ہے
کہ اماّ ں کی چتھر چھایا میں پناہ لی جائے ۔ ویسے ملک کے وزیر داخلہ
چندمبرم کی اپنی ریاست میں ان کی پارٹی کا یہ حال بر سرِ اقتدار جماعت
کیلئے شرمناک ہے ۔لیکن سیاست کےگلشن میں شرم نام کی چڑیا پر نہیں
مارتی۔
آئی پی ایل کرکٹ سرکس اور ہندوستانی سیاست میں بڑی زبردست مشابہت ہے
۔کرکٹ کے موسم کا آغاز کھلاڑیوں کی نیلامی سے ہوتا ہے ۔بولیاں لگتی
ہیں اور اونچی اونچی قیمت پر اپنے آپ کو فروخت کر کے نامور کھلاڑی
مختلف ٹیموں سے جڑ جاتے ہیں اور پھر ان ٹیموں کے درمیان جیت ہار کا
مقابلہ شروع ہو جاتا ہے ۔ہندوستانی سیاست میں انتخاب سے قبل بولیاں
لگتی ہیں ایمان بکتے ہیں اور مادی مفاد کی بنیاد پر نت نئے رشتے بنتے
اوربگڑتے ہیں ۔سیاسی اکھاڑے میں بھانت بھانت کی ٹیمیں خم ٹھونک کر اتر
جاتی ہیں اور موسمی مینڈک کی مانند ٹرانے لگتی ہیں ۔ ان سیاسی جماعتوں
میں سرِ فہرست قدیم ترین فرقہ پرست کانگریس اور پھر دوسرے نمبر پر
فسطائیت نواز بی جے پی ۔ان دونوں کا دعویٰ تو یہ ہے کہ یہ قومی جماعتیں
ہیں لیکن اصل میں ان کی حیثیت بھی علاقائی ہوگئی ہے فرق صرف یہ ہے کہ
دیگر علاقائی جماعتوں کے بالمقابل جن کا وجود کسی ایک ریاست تک محدود
ہو یہ ایک سے زائد ریاستوں کی علاقائی جماعتیں ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی
ایک حقیقت ہے ایسی بھی کئی ریاستیں ہیں جن میں ان کی حیثیت علاقائی
جماعت کے بغل بچہ کی سی ہے مثلاً تمل ناڈو،بہاریا بنگال۔نظریاتی سطح پر
ان دونوں میں کوئی خاص فرق نہیں ہاں طریقہ کار کچھ تھوڑا سا مختلف ہے
ایک اقلیتوں کے خلاف علیٰ اعلان تشدد کو بھڑکاتی ہے اور دوسری پس پردہ
اس کو ہوا دیتی ہے گویا ایک گرم شعلوں سے جلاتی ہے اور دوسری ٹھنڈی
آنچ سے جھلساتی ہے ۔احساس کا فرق ضرور ہے لیکن نتائج یکساں برآمد
ہوتے ہیں۔ بابری مسجد ہو مسلم نوجوانوں کا انکاؤنٹر ہر دوصورت میں بی
جے پی اور کانگریس کے درمیان کوئی فرق نظر نہیں آتا ۔ ایک ممبئی کے
فسادات سے متعلق شری کرشنا کمیشن کی رپورٹ کو ڈنکے کی چوٹ پر کچرے کی
ٹوکری میں پھینک دیتی ہے اور دوسری عدالت عالیہ میں اس کی خاطر خواہ
پیروی سے صرفِ نظر کر کے اس پر عملدرآمد میں رکاوٹ پیدا کردیتی ہے
نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ نہ تو بابری مسجد کی اراضی مسلمانوں کو ملتی ہے
اور نہ ہی ممبئی میں فساد برپا کرنے والےہندوؤں کو سزا ہی ملتی ہے ہاں
ممبئی بم بلاسٹ میں معصوموں کو برسوں تک جیل میں رکھنے پر دونوں کا
اتفاق ہے اور اس معاملے میں وہ ایک دوسرے کا بھر پور تعاون کرتی ہیں۔
ان دو جماعتوں کے علاوہ مختلف علاقائی موقع پرست جماعتیں ہیں جن کا
نظریہ حیات ہے ‘‘چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی’’ان کا کام کسی نہ کسی
طرح اقتدار حاصل کرنا یا اس میں حصہ دار بن کر رہنا ہے۔اس لئے یہ کبھی
بی جے پی تو کبھی کانگریس کے ساتھ ہو لیتی ہیں۔ اب اس امر کی پیشن گوئی
کرنے کیلئے کسی نجومی کی ضرورت نہیں کہ آئندہ قومی انتخابات میں جے
للیتا کانگریس اور کروناندھی بی جے پی کیساتھ ہوں گے اور اگر کانگریس
الیکشن ہار جاتی ہے تو امإّں پھر پینترا بدل کر بی جے پی کی ہمنوا بن
جائینگی بلکہ بنگال کی دیدی بھی ایسا کرنے سے گریز نہیں کرینگی۔
اشتراکیت پسند بظاہر اپنے آپ کو علاقائی جماعتوں سے مختلف گروہ قرار
دیتے ہیں لیکن سوویت یونین کے خاتمہ اور چین کی سرمایہ داری نے ان
بیچاروں کو بنیادیں ہلا کر رکھ دیں نیز بدھ دیو بھٹا چاریہ نے اس دعویٰ
کی بھی نفی کر دی کہ ‘ہم ان سے مختلف ہیں’ اس لئے اب اس کا شمار بھی
علاقائی جماعت میں ہونا چاہئے جس کا اثر کیرالا بنگال اور تریپورہ پر
محیط ہے ۔ ان کے علاوہ مسلم جماعتیں بھی ہیں مثلاً مسلم لیگ، اتحاد
ملت،یونائیٹڈ فرنٹ اور ایم ایم کے وغیرہ جو فسطائیت کے خلاف فرقہ
پرستوں اور موقع پرستوں کے درمیان جھولتے رہتے ہیں ۔ تو گویا ان چاروں
اقسام کی جماعتوں کیلئے ان انتخابات کے نتائج میں مسرت کا کوئی نہ کوئی
پیغام ضرورہے ۔
کانگریس کو سب سے بڑی خوشی اس بات کی ہے کہ وہ آسام میں وہ تیسری
مرتبہ اپنا اقتدار قائم رکھنے میں کامیاب ہوگئی لیکن آسام گن پریشد
اور اسکی حلیف بی جے پی کی خستہ حالی کے پیش نظر توقع بھی یہی تھی۔ اے
جی پی فی الحال پوری طرح کوما میں ہے اس کا نام انتخابات کے علاوہ کبھی
بھی سننے میں نہیں آتا اور بی جے پی اس کی بیساکھیوں پر سوار ہوکر
انتخاب لڑنے کی کوشش کر تی ہے اس کانتیجہ یہ ہواکہ مولانا اجمل کی
یونائیٹد فرنٹ اور بوڈو لینڈ پارٹی بھی اے جی پی سے زیادہ نشستوں
پرکامیابی حاصل کر لی۔ ویسے یونائیٹڈ فرنٹ کو بیک وقت خوشی اور غم سے
دوچار ہونا پڑا ۔ یہ تو ضرور ہوا کہ پہلی مرتبہ اسے ریاست میں حزب
اختلاف کی رہنمائی کا موقع ہاتھ آیا لیکن اے جی پی اور بی جے پی کی
مایوس کن کار کارکردگی پر اسے افسوس ضرور ہوا ہوگا ۔ اگر اس بار وہ
دونوں مزید بیس نشستوں پر کامیاب ہوجاتے تو کانگریس کو اکثریت حاصل
کرنے کیلئے یونائیٹڈ فرنٹ کے آگے ہاتھ پھیلانا پڑتا اور اس صورت میں
بھی حکومت تو بہر حال کانگریس ہی کی بنتی لیکن فرنٹ کے کچھ ممبران
ِاسمبلی کو وزیر بننے کا موقع بھی مل جاتا یہ سوئے اتفاق ہے کہ
مسلمانوں کے دشمنوں کی ناکامی نے ایک مسلم سیاسی جماعت کواقتدار میں
حصہ داری سےمحروم کر دیا ۔ اب عقل عام کیا کہتی ہے یونائیٹڈ فرنٹ کوبی
جے پی کی کمزوری کی دعا کرنی چاہئے یا اسے تقویت دینے کی کوشش کرنی
چاہئے ؟ ویسے کسی مسلم جماعت کے اپوزیشن کی سب پارٹی بن جانے کو بھی
بھولا بھالا عام مسلمان اپنے لئے باعثِ سعادت ہی سمجھتا ہے ۔
آسام کی محرومی کا ازالہ بڑی حد تک کیرالہ میں ہو گیا۔ وہاں مسلم لیگ
متحدہ محاذ میں دوسرے نمبر کی سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری اب اگر
کانگریس کے ۳۷ ممبران ِ اسمبلی ہیں تو مسلم لیگ کے نصف سے زیادہ یعنی
۲۰ ہیں اس طرح صرف چار کے فرق سے اقتدار سنبھالنے والا متحدہ محاذ اگر
مسلم لیگ کو نائب وزارت اعلیٰ کی کرسی نہ دے تو یہ یقیناً حیرت کی بات
ہوگی ۔اس طرح کی صورتحال میں بے چارہ عام مسلمان جو انتخابی سیاست کے
پیچ و خم سے واقف نہیں ہوتا یہ دیکھ کر پریشان ہوتا ہے کہ دو قطبی
ماحول میں مسلم جماعتیں متحد ہوکر کسی ایک کا ساتھ دینے کے بجائے مخالف
خیموں میں ایک دوسرے سے بر سرِ پیکار ہو جاتی ہیں۔ اس غریب کی سمجھ میں
یہ نہیں آتا انتخابی سیاست بھی تجارت کی مانند ہے جہاں ایک کمپنی بیک
وقت دو حریف دوکانداروں کو اپنا ایجنٹ نہیں بنا سکتی اس لئے دونوں حریف
ایجنٹوں کو حریف سرمایہ داروں کی ایجنسی لینی پڑتی ہے ۔ اب اگر مسلم
لیگ کانگریس کے ساتھ ہے تو بھلا کسی اور مسلم سیاسی جماعت کو وہ کیوں
منہ لگائے گی اور صورت میں اس جماعت کیلئے کانگریس کے حریف خیمے میں
جانے کے علاوہ اور کوئی اور چارۂ کار کیونکر ہو گا اب اس مجبوری کے
پیش نظر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کسی بدعنوان سے ہاتھ ملانا پڑے یا
نظریاتی دشمن کی تائید کرنی پڑے اسی کو انتخابی مجبوری کہتے جسے لوگ
ازخود اپنے اوپر اوڑھ لیتے ہیں ۔ اس مجبوری کے تحت اکثر ملی اتحاد پارہ
پارہ ہو جاتا ہے لیکن انتخابی سیاست میں اپنی جماعت کا فائدہ قومی و
ملی مفاد سے زیادہ قیمتی ہوتا ہے ۔
اشتراکیوں کو اس بار دوہرہ زخم لگا لیکن یہ بھی توقع کے مطابق ہی تھا
۔کیرالہ میں ہر پانچ سال کے بعد اقتدار سے بے دخل ہونے کی روایت اس طرح
قائم ہوئی ہے کہ اگر اس میں انحراف ہو تا تو وہ حیرت کی بات ہوتی ۔
ویسے کمیونسٹوں کو اندازہ ہو گیا تھا کہ وزیر اعلیٰ اچھوت آنند انہیں
جیت کا آنند نہیں دلا سکتے اس لئے انہیں انتخاب سے پہلے ہی اچھوت بنا
کر دور کر دیا گیا لیکن وہ پینترہ بھی کام نہ آیااور کیرالہ کی روایت
برقرار رہی۔ مغربی بنگال میں گذشتہ پارلیمانی انتخاب کے دوران ہی اس
بات کا ندازہ ہو گیا تھا کہ سرخ سورج روبہ زوال ہے۔دراصل بنگال کی
ناکامی کو لوگ بدھا دیو کے سرمنڈھ رہے اور کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے
گوربا چیف کی طرح اشتراکی نظریات سے انحراف کیا اور اسکی سزاخود بھی
پائی اور پارٹی کو بھی شکست سے دوچار کیا حالانکہ بدھا دیو نے ایسا کچھ
بھی نہیں کیا جو اشتراکی روایات کے خلاف ہو ہاں یہ ضرور کہہ سکتے ہیں
کہ انہوں نے جلد بازی کی ۔ اشتراکی طریقہ کار یہ ہے کہ پہلے مزدوروں کو
متحد کرکے ان کی طاقت کے بل بوتے پر انقلاب لاؤ اور پھر اپنے مخالفین
کو انقلاب کا دشمن قرار دے کر ان کا قلع قمع کردو۔اس کے بعد سرمایہ
داروں کے ساتھ مل کر انہیں محنت کشوں کا استحصال کرو۔ یہی کچھ ان لوگوں
نے سابقہ سوویت یونین میں اور پھر چین میں کیا۔بدھا دیو نے یہ کام
انقلاب سے قبل شروع کردیا اور نندی گرام میں اپنے چہرے پر پڑی خوشنما
نقاب خود اپنے ہاتھوں سے نوچ کر پھینک دی نتیجہ یہ ہوا کہ خود اپنی سیٹ
بھی نہیں بچا پائے ۔اشتراکیوں نےدیہی علاقوں میں ایک زبردست مافیا قائم
کر رکھی تھی جس کی کمر توڑنے کا عظیم کارنامہ ممتا بنرجی نے انجام دیا
اس کیلئے وہ یقیناً مبارکباد کی مستحق ہیں۔ لیکن اس کے باوجود
اشتراکیوں کے چالیس فی صد ووٹ محفوظ ہیں اور وہ پر امید ہیں اگلی مرتبہ
جب لوگ ممتا سے مایوس ہوں گے تو پھر ان کے بھاگ کھلیں گے اور کیرالہ
میں وہ ریاستی روایات کے چلتے پھر ایک بار اقتدار پر قابض ہو جائیں گے
ویسے بھی عوام کی یادداشت بہت کمزور ہوتی ہے وگرنہ وہ دوبارہ جئے للیتا
کو بدعنوانی کے مدعے پر اقتدار نہیں سونپتے۔ ممتا بنرجی نےجس طرح دل
کھول کر مسلمانوں کا شکریہ ادا کیا اسے دیکھ کر نہ صرف بنگال بلکہ
ہندوستا ن بھر کے مسلمانوں کا سینہ فخر سے پھول گیا۔ مسلمان اس بات سے
بھی بہت خوش ہیں کہ اس بار بنگال اسمبلی مسلم ممبران کی تعداد ۲۰ فی صد
سے زیادہ ہوگی لیکن اس سے پہلے بھی یہ تعداد کم نہیں ہوتی تھی ۴۵ سے
زیادہ وہ پہلے بھی تھے اورریاست میں ایک نام نہاد مسلم نوازپارٹی نے ۳۴
سال حکومت کی اس کے باوجود سچر کمیشن نے یہ انکشاف کیا کہ مغربی بنگال
کی سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کا تناسب مودی کے گجرات سے کم ہے اس
لئے اگر مسلمانوں اس خوش فہمی کا شکار ہیں کہ ان کے ممبران کی تعداد
میں اضافہ یا ان کی نام نہاد ہمدرد حکومت سے ملت کا کوئی بھلا ہوجاتا
ہے تو انہیں اپنی طرزِفکر کی اصلاح کر لینی چاہئے ۔
اس بار اتفاق سے جن ریاستوں میں انتخابات ہوئے ان میں ایسی ایک بھی
ریاست نہیں تھی جہاں بی جے پی مضبوط ہو۔ اس لئے وہ حاشیے پر رہی یہ
لیکن کرناٹک جہاں بی جے پی کی ریاستی حکومت کو اندر سے بغاوت کا سامنا
ہے۔ اس کے ۱۱ ممبران اسمبلی کے پارٹی سے استعفیٰ دینے سےحکومت اقلیت
میں آگئی ہے اس کے باوجود ضمنی انتخاب میں تینوں نشستوں پر اپنی
زبردست کامیابی درج کروا کر بی جے پی نے ثابت کر دیا کہ اس کے اپنے گڑھ
میں وہ اب بھی مضبوط ہے اور وزیر خارجہ کرشنن ملک سے باہر جو کچھ بھی
کر لیں لیکن اپنی ریاست میں بری طرح ناکام و نامراد ہیں۔اس بار پڈوچیری
کی طرح آندھرا پر دیش میں وائی ایس آر کے بیٹے جگن موہن ریڈی نے کڑپا
پارلیمانی حلقے سےکانگریس اور ٹی ڈی پی دونوں کے امیدواروں کی ضمانت
ضبط کروا کر کانگریسی رہنماؤں کی نیند اڑا دی ہے ۔جگن موہن نے اپنے
باپ کی موت کے بعد وزارت اعلیٰ کی کرسی پر اپنی دعویداری پیش کی تھی
جسے کانگریسی اعلیٰ کمان نے ٹھکرا دیا لیکن اب پانچ لاکھ چالیس ہزار
ووٹوں سے اپنی کامیابی درج کرواکر اس نے یہ ثابت کر دیا کہ کانگریس کو
یہ سودہ مہنگا پڑسکتا ہے ۔
ٹی وی کے پردے پر جب مختلف جماعتوں کے کارکنان کو ناچتے گاتے دکھلایا
جارہا تھا اس وقت مرکز کے کانگریسی رہنما سرمایہ داروں کے ساتھ بیٹھ کر
ملک کی عوام کا اپنے خاص انداز میں شکریہ ادا کرنے کی تیاری کر رہے تھے
۔ جب لوگوں پر سے کامیابی کا خمار اترا تو انہیں پتہ چلا کہ پٹرول کی
قیمت میں پانچ روپئے کا اضافہ ہو چکا ہے ۔ یہ اضافہ اب اس قدر جلدی
جلدی ہونے لگا ہے کہ عام آدمی کیلئے گذشتہ ایک سال کے اندر ایندھن کے
اخراجات دو گنا ہو چکے ہیں اور عوام یہ بھی جانتے ہیں کہ اس کا اثر
اشیاء خوردونوش کی قیمتوں پر بھی اس کا اثریقیناً پڑے گا۔ ویسے اب
بیچاری کانگریس بھی کرے توکیا کرے؟ اسے ان سرمایہ داروں کو اپنا روپیہ
وصول کرنے کا موقع تودینا ہی ہے جنھوں نے پچھلے انتخابات میں چندہ دیا
تھا بلکہ اگلے انتخابات تک کمانے کا موقع بھی دینا ہے تاکہ پھر دوبارہ
چندہ لیا جاسکے ۔کانگریسی رہنما جگدمبیکا پال کے مطابق بین الاقوامی
سطح پر تیل کی قیمت میں اضافے کے سبب صارفین پر یہ بوجھ ڈالنا پڑا لیکن
بین الاقوامی بازار میں جب تیل کی قیمت کم ہوتی ہے تو اس وقت حکومت
کوعوام کا خیال نہیں آتا۔ان کو راحت پہونچانے کے بجائے جمہوری طریقے
سے منتخب ہونے والے عوام نمائندے تیل کی قیمت میں کمی کواپنے لئے رحمت
جان بناکر اس منافع کواپنے سوئیس بنک کھاتوں میں عوام کے نام پر جمع کر
دیتے ہیں تا کہ ان کی پشت در پشت اس پر عیش کر سکے۔ انتخابات کے بعد
عوام الناس کا استحصال یہ پہلی مرتبہ نہیں ہو رہا ہے بلکہ گذشستہ ۶۱
سالوں سے یہ عمل بدستورجاری ہے لیکن اس کے باوجود لوگ اس جنجال سے
نکلنے کے بجائے اس میں پھنستے بلکہ دھنستے جارہے ہیں ۔ علامہ اقبال نے
تو کہا تھا ‘جس میں نہ ہو انقلاب موت ہے وہ زندگی’ لیکن ہمارے آج کل
کے دانشوروں نے انقلاب کو انتخاب سے بدل دیا ہے حالانکہ حقیقت تو یہ ہے
کہ جس طرح ‘روح امم کی حیات کشمکشِ انقلاب ’ہے اسی طرح ‘روح امم کی
ممات کشمکشِ انتخاب ’ہے ۔ |