سول ڈیفنس کا یہ اصول ہے کہ انسان فضا سے گرنے والے بم
کوتوروک نہیں سکتا لیکن احتیاطی تدابیر اختیار کرکے نقصان کو کم سے کم ضرور
کیا جاسکتا ہے ــ․ اس وقت ہم ایک ان دیکھے دشمن کے خلاف برسر پیکار ہیں۔
دنیا بھر میں لڑی جانے والی اس جنگ میں اب تک چار لاکھ سے زائدلوگ ہلاک ہو
چکے ہیں۔ ابتدا میں پاکستان تشویش ناک صورت حال سے کسی حد تک محفوظ رہا
لیکن عید سے چند دن پہلے جیسے ہی لاک ڈاؤن میں نرمی کی گئی ۔ لوگ عید کی
شاپنگ کے لئے ماسک، دستانے اور سینٹائزر کے استعمال کے بغیر ہی مارکیٹوں
میں پہنچ گئے ۔اس کا فوری رد عمل تو سامنے نہیں آیا لیکن عید کے گزرتے ہی
کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد ہزاروں میں جا پہنچی ۔حکومتی اور انتطامی
سطح پر احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی جتنی بھی اپیلیں کی گئیں وہ عوام نے
ایک کان سے سنی اور دوسرے نکال دیں ۔جبکہ اموات کی تعداد میں اضافہ خطرناک
حد تک ہوتا دکھائی دے رہا ہے ۔اس میں شک نہیں جب تک عوام احتیاطی تدابیر کو
نہیں اپناتے اس وقت تک حالات پر قابو نہیں پایا جا سکتا ۔ لیکن ترقی یافتہ
اقوام نے احتیاطی تدابیریں اختیار کرکے بڑی حد تک کورونا وائرس پر قابو پا
لیا ہے ۔ بدقسمتی سے ہم ایک قوم کی بجائے ہجوم کی شکل اختیار کر چکے ہیں
اور ہجوم بھی وہ جو کسی کی بات نہیں مانتا۔حکومت نے ماسک پہننے کا قانون
بنا کر بہت اچھا کیا لیکن ابھی تک مریضوں کی تعداد د ن بدن بڑھتی ہی جا رہی
ہے۔گو کہ افریقی ممالک کو کسی کھاتے میں شمار نہیں کیا جاتا لیکن گزشتہ
دنوں یوگنڈا کے صدر نے اپنی عوام سے ایک ایسا خطاب کیاجس کو پوری دنیا کا
بہترین خطاب قرار دیاجا رہا ہے ، میں اس تقریر کے چیدہ چیدہ نکات کو اپنے
کالم کا حصہ بنا رہا ہوں ۔یوگنڈا کے صدر فرماتے ہیں -: "خدا کو بہت سے کام
کرنے ہوتے ہیں۔۔اسے پوری دنیا کا نظام دیکھنا ہوتا ہے۔اس کے پاس اتنا وقت
نہیں ہوتا کہ وہ صرف یوگنڈا میں بیٹھ کر احمقوں کی نگہداشت کرے۔جنگ کے
زمانے میں کوئی کسی سے نہیں کہتا کہ گھروں میں بند ہوجائیں۔۔آپ برضا ورغبت
گھروں میں مقید ہوجاتے ہیں۔بلکہ اگر آپ کے پاس تہ خانہ ہو تو آپ حالات بہتر
ہونے تک خود کو وہیں تک محدود کر لیتے ہیں۔جنگ کے دنوں میں آپ آزادی کا
مطالبہ نہیں کرتے۔آپ اپنی زندگی کی خاطر اپنی آزادی قربان کر دیتے
ہیں۔دوران جنگ آپ "بھوک" کا بھی شکوہ نہیں کرتے۔۔آپ اس امید پہ بھوکا رہنا
گوارہ کرلیتے ہیں کہ زندگی رہی تو پھر کھالیں گے ۔جنگ کے دوران آپ اپنا
کاروبار کھولنے کا مطالبہ نہیں کرتے۔۔آپ اپنی دوکان بند کر دیتے ہیں۔دوران
جنگ آپ زندگی کے ہر نئے دن اﷲ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے ایک اور دن آپ
کو زندہ رکھا۔ دوران جنگ آپ اس بات پہ قطعاً پریشان نہیں ہوتے کہ آپ کے بچے
اسکول نہیں جارہے۔ سچ تو یہ ہے کہ دنیا اس وقت حالت جنگ میں ہے۔ایسی جنگ جو
بندوقوں اور گولیوں کے بغیر لڑی جارہی ہے۔۔ایسی جنگ جس میں ٹینک جہازاور
توپیں نہیں ۔ ایسی جنگ جس کی کوئی سرحد نہیں۔ ایسی جنگ جس میں کسی جنگ بندی
کے معاہدے کی کوئی امید نہیں۔اس جنگ میں لڑنے والی فوج بے رحم ہے۔ اس میں
انسانی ہمدردی کا کوئی عنصر قطعاً نہیں پایا جاتا۔اس کے دل میں بچوں،
عورتوں یا عبادت گاہوں کی کوئی وقعت نہیں۔ اسے مذہب، فرقے یا کسی خاص
نظریاتی تسلط سے بھی قطعاً کوئی دلچسپی نہیں۔اس کا مقصد صرف اور صرف "موت"
ہے۔۔ اس کی شکم سیری ساری دنیا کو موت کا میدان بنانے سے ہی ہوگی اور اس
مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اس کی صلاحیت شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ یہ دنیا کے
تقریباً ہر ملک میں موجود ہے۔ اس کی نقل و حرکت کسی جنگی قواعد کے ماتحت
نہیں۔ مختصراً یہ اپنی ذات میں خود "قانون" ہے۔ اسے COVID-19 بھی کہا جاتا
ہے ۔اﷲ کا شکر ہے کہ اس فوج کی کچھ کمزوریاں بھی ہیں اور اسے شکست بھی دی
جاسکتی ہے۔ اس کے لیے ہمارے اجتماعی اقدامات، تنظیم اور رواداری کی ضرورت
ہے۔ COVID-19 سماجی فاصلوں میں زندہ نہیں رہ سکتا۔ یہ صرف اسی صورت میں پنپ
سکتا ہے اگر آپ اس کے رابطے میں آئیں اور اس سے محاذآرائی کریں۔ یہ محاذ
آرائی کو پسند کرتا ہے۔ یہ اجتماعی طور پہ سماجی اور جسمانی دوری کی صورت
میں ہتھیار ڈال دیتا ہے۔ یہ حفظان صحت کے اصولوں کے سامنے سرنگوں رہتا ہے۔
یہ بالکل معذور ہوجاتا ہے۔ جب آپ اپنی قسمت اپنے ہاتھوں میں لے لیتے ہیں
اور انہیں حتی الامکان "سینیٹائز" کرتے رہتے ہیں تو آپ اس کے وار سے محفوظ
ہو جاتے ہیں۔یہ ضدی بچوں کی طرح روٹی مکھن کے لیے رونے پیٹنے کا وقت نہیں
ہے۔ تو آئیے ہم اﷲ کے اطاعت گذار بنیں اور خالق کی ہدایات پہ عمل پیرا ہوں۔
آئیے کہ ہم COVID-19 کواحتیاطی تدابیر اختیارکرکے الوداع کریں۔ صبر کا
مظاہرہ کریں۔ بہت جلد ہم اپنی آزادی سماجی و کاروباری زندگی کو دوبارہ حاصل
کرلیں گے۔یہ یوگنڈا کے صدر کی تقریر کے چند نکات تھے انہوں نے جس طرح اپنی
عوام کے سامنے حالات حاضرہ کی تصویر پیش کی ہے اسکی جتنی بھی تعریف کی جائے
کم ہے۔.......۔اس تقریر کا ہر ہر لفظ ہم پاکستانیوں کے لئے بھی رہنمائی کا
باعث ہے ۔اس منحوس وائرس کی تباہ کاریوں سے بچنے کا ایک ہی حل ہے کہ ہر حال
میں ہم احتیاط ملحوظ رکھیں خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں ۔غیرضروری
طورپر گھر سے باہر نکلنے کا ارادہ ترک کردیں ۔جتنے آپ اپنے گھر میں محفوظ
ہیں اتنے ہی گھر سے باہر غیر محفوظ ہیں ۔کاش ہم یہ بات دل سے تسلیم کرلیں ۔اپنے
اور اپنے بیوی بچوں کے لئے حکومتی ہدایات پر عمل کرکے پاکستان کو نیوزی
لینڈ کی طرح کورونا وائرس سے محفوظ بنائیں ۔
|