صبیحہ خانم ایک عہد تھیں

آج صبیحہ خانم کے انتقال کی خبر ملی۔ دکھ ہوا۔ انتقال کے وقت ان کی عمر چوراسی برس تھی۔ اﷲ تعالی مغفرت فرمائے اور درجات بلند کرے۔ آمین!

صبیحہ خانم کے شوہر سنتوش کمار کا چھپن سال کی عمر میں اڑتیس سال قبل انتقال ہو چکا ہے۔ سنتوش کمار اور دلیپ کمار کو ہم بہت عرصے تک ہندو سمجھتے رہے اور ہم اس بات پر دکھی بھی رہے کہ ایک اچھی خاصی مسلمان عورت نے نہ جانے کس مجبوری میں غیر مذہب میں شادی کر لی۔ یہ عقدہ تو بعد میں کھلا کہ سنتوش کمار اصل میں سید موسی رضا ہیں کہ بہت زمانے سے بائیں بازو کے سادات کے یہی لچھن رہے ہیں۔ دلیپ کمار کے متعلق بھی پتہ چلا کہ اندر سے یوسف خان ہیں اور فقط اسی وجہ سے کبھی مہارت سے ڈانس نہیں کر پائے۔ اب تو الٹا زمانہ آگیا ہے کہ جب تک نام میں خان نہ لگے ہیرو ہٹ ہی نہیں ہوتا ہے لیکن آج تک کسی ہندو اداکار نے پھر بھی اپنے نام کے ساتھ خان لگانے کی ہمت نہیں کی ہے کیونکہ امکان یہی ہے کہ لوگ ہنس پڑیں گے۔

ہم صبیحہ خانم کی فلمیں اور بعد میں ڈرامے دیکھتے دیکھتے جوان ہوئے۔ صبیحہ خانم کا نام سن کر ہمارے ذہن میں تو صرف غرارہ آتا ہے۔ اس زمانے میں کرونا نہ ہونے کے باوجود بھی ہیروئن ہیرو سے ہر صورت چھ فٹ کا سماجی فاصلہ برقرار رکھتی تھی۔ ہیروئن چند مصنوعی پتوں کے پیچھے ہوتی تھی اور کاغذ کا چمکتا چاند اس کے پیچھے ہوتا تھا۔ ایسے میں وہ اپنی جگہ پر کھڑے کھڑے ہل لیتی تھی جسے ڈانس کا نام دیا جاتا تھا۔ سمجھ نہیں آتی تھی کہ ڈانس میں ہیروئن ہلی ہے یا ہوا سے غرارہ ہلا ہے کیونکہ زیادہ ہیجانیت دکھانا مقصود ہوتا تو ڈائریکٹر فلم بندی کے وقت کمپریسر چلوا دیتا تھا۔

صبیحہ خانم نے زیادہ تر کام سنتوش کمار کے ساتھ ہی کیا تاکہ گھر کی بات گھر میں رہ جائے۔ پھر بھی فلم میں احتیاط کا یہ عالم تھا کہ ہیرو ہیروئن دونوں نظریں نیچی کرکے بات کیا کرتے تھے۔ زیبا نے بھی شادی کے بعد زیادہ کام محمد علی کے ساتھ کیا۔ وحید مراد کے ساتھ کام کرنے پر روبن گھوش اور محمد علی دونوں کو اعتراض تھا کیونکہ ان کی اداکاری کے دوران پتہ نہیں چلتا تھا کہ وہ کب اداکاری کرتے کرتے سیریس ہو جاتے ہیں اور لپک جھپک کرتے ہوئے چاکلیٹ ہیرو کی نیت میں کب فتور آ جاتا ہے؟ ہاتھیوں کی اس لڑائی میں فلم اسٹار ندیم کا فائدہ ہوگیا۔ ان کے ساتھ بیگمات کی اداکاری پر نہ روبن گھوش کو اعتراض تھا اور نہ محمد علی کو۔ خیر یہ پرانے زمانے کی باتیں ہیں۔ اب تو غیرت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے اور امیتابھ بچن کے گھر سے بھی۔

کافی بعد میں فلموں میں مجرے کا رواج آیا کہ کہانی میں کبھی ہیرو بگڑ جاتے تھے اور کبھی ابا یا پھر ولن کی بد کرداری عیاں کرنا مقصود ہوتا تھا۔ اس میں بھی ڈانس کرنے والی خاتون گلے تک کی قمیض اور چوڑی دار پاجامہ پہنتی تھیں۔ اور تماش بین قسم کے تماش بین انتظار کرتے رہتے تھے کہ کب ڈانسر جذباتی ہو کر لٹو کی طرح گول گھومنا شروع کرتی ہے۔ ہمارے ایک چچا نے مدھو بالا کی ایک فلم گیارہ دفعہ محض اس لئے دیکھی کہ فلم میں محترمہ کا دوپٹہ زمین پر گر جاتا ہے جسے بے چاری اٹھانے کے لئے جھکتی ہے۔ صرف اس بنا پر ساری زندگی خاندان میں رنگین مزاج سمجھے جاتے رہے کہ مرحوم مہینے دو مہینے میں ایک فلم دیکھ لیا کرتے تھے اور خصوصا مدھو بالا کی کوئی فلم کبھی قضا نہیں کرتے تھے۔ ان کی بیگم تو اس بنیاد پر باقاعدہ انہیں بازاری عورتوں کے رسیا ہونے کا طعنہ دیتی تھیں اور آنجہانی ہونے کے بعد یہی گمان کرتی رہیں کہ اس بد کردار آدمی کی بخشش تو نہ ہوئی ہوگی۔ یہ سوچ کر اکثر جمعرات کے جمعرات ان کے نام کی فاتحہ پڑھتی رہتی تھیں۔ ایک گونہ اطمینان بھی تھا کہ مرحوم جہنم میں ہوں گے جہاں حوریں تو نہ ہوں گی۔ البتہ اس بات کا انہیں قلق رہتا تھا کہ وہی بازاری عورتیں جن پر مرحوم ساری عمر فدا رہے جہنم میں بھی ان کے ساتھ ہوں گی۔ جب زیادہ غصہ آتا تو جمعرات کی فاتحہ متروک ہوجاتی کہ مرحوم ہر صورت پانچوں گھی اور سر کڑاہی میں دئیے بیٹھے ہیں۔

خاص سین کے عادی فلم بین بے صبری سے سین کا انتظار کرتے بلکہ کئی تو اسی سین کی خاطر ہی پوری فلم دیکھتے تھے۔ ایسے موقع پر سیٹیاں بجتی تھیں اور آہیں بھری جاتی تھیں۔ اس آہ و بکا (آہ میاں کی اور بک بک بیگم کی) میں شریف خواتین (اپنے اپنے) شوہروں کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیتی تھیں کہ یہ سب دیکھنے سے دیدوں کا پانی مر جاتا ہے۔ دیدے پھٹ جاتے ہیں اور انسان مستقل بے حیا ہو جاتا ہے۔ جن کی ایسے سین سے تسلی نہ ہوتی تھی وہ مخصوص سنیما ہال میں بہ اہتمام انگریزی فلم دیکھنے جاتے تھے۔ یہ خالص مردانہ قسم کے فلم ہال ہوا کرتے تھے کیونکہ ان فلم ہالوں میں خواتین کا جانا خالی از خطر نہ تھا۔ یہ فلم زیادہ تر وہ لوگ دیکھتے تھے جن کا انگریزی سے کوئی سروکار نہیں ہوتا تھا۔ اس لئے ان فلموں کا اردو اخبارات میں جب اشتہار دیا جاتا تو قوسین میں مزید وضاحت کر دی جاتی کہ صرف بالغان کے لئے یا پھر یہ کہ اصل فلم انٹرول کے بعد شروع ہوگی۔ بعض اوقات پبلک کے اصرار پر اور مقامی تھانیدار کے تعاون سے آخری شو میں کبھی کبھی ٹوٹے (بطرز طوطے) بھی چلا دیتے تھے جس سے فلم بینوں کے اگلے پچھلے سارے پیسے وصول ہو جاتے تھے۔ چونکہ یہ فلم بین انگریزی سے نا بلد تھے اس لئے ان فلموں کے ناموں کا ترجمہ بھی عام تھا تاکہ فلم اور فلم بین دونوں کے قماش کو سمجھنے میں آسانی ہو مثلا ڈاکو حسینہ، البیلی حسینہ، رات کی رانی؛ ہوس کے پجاری وغیرہ وغیرہ۔ فلمی اشتہار میں الفاظ ملا کر لکھنے کا نا جانے کیوں عام رواج تھا۔ ہم تو اسے کوڈ ورڈز میں مخصوص پیغام سمجھتے تھے۔ مثلا آج شب کو یوں لکھتے تھے: آجشبکو اور مجھ سمیت زیادہ تر لوگ اسے آجش بکو پڑھتے تھے۔

ذوق کے اعتبار سے ان انگریزی فلموں سے قریب ترین کوئی شئے ہوتی تھی تو وہ پشتو فلمیں ہوا کرتی تھیں جنہیں بعض اہل زبان بھی دیکھنے کا شوق رکھتے تھے۔ یہ فلمیں آدمی کو گرمیوں میں ٹھنڈا رکھتی تھیں اور سردیوں میں گرم۔ اہل زبان ہر دو موسم میں ہیٹ پہن کر اور مفلر لگا کر ایسی فلمیں دیکھنے جاتے تھے تاکہ پکڑے جانے کی صورت میں منہ چھپا سکیں اور کوئی جاننے والا شناخت نہ کر سکے تاہم ان مواقع پر اکٹر کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے کی نوبت آجاتی تھی۔ کبھی چھاپہ پڑ جاتا تھا تو پریس فوٹو گرافرز کے سامنے عزت سادات بچانے میں یہی مفلر ممد و معاون ہوتا تھا۔

پھر فلموں میں مجرمانہ حملے کا ایسا رواج پڑا کہ فلمیں اس کے بفیر نامکمل سمجھی جانے لگیں۔ ہمارے یہاں اسلم پرویز صاحب پنج وقتہ نمازی تھے۔ پہلے ہیرو آتے تھے اور بوڑھے ہونے کے بعد ولن آنے لگے اس کام میں وہ ایسی مہارت رکھتے تھے کہ ہیروئن کو خراش بھی نہیں آتی تھی اور وہ اپنا ہاتھ دکھا جاتے تھے۔ سین کے فورا بعد جب شبنم ہانپتے ہوئے نظر آتی تھی تو اس دمے کے دورے نما ایکٹنگ پر فلم بین سمجھ جاتے تھے کہ اسلم پرویز صاحب اپنا ہنر دکھا گئے ہیں۔ سین کے فورا بعد اسلم پرویز کی ہیرو کے ہاتھوں ٹھیک ٹھاک ٹھکائی ہوتی تھی یہاں تک کہ پولیس ''گرفتار کرلو اسے'' کا نعرہ بلند کرتے ہوئے انٹری دے دیتی تھی۔ فلم دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ اسلم پرویز اپنا کام تسلی سے ختم کرکے منہ پوچھتے ہوئے شیطانی مسکراہٹ کے ساتھ اٹھیں تو ہیرو اپنی کاروائی کا آغاز کرے۔ ٹھکائی کے بعد ہیرو ہیروئن کو یقین دلاتا تھا کہ فکر کرنے کی کوئی بات نہیں ہے۔ نہا دھو کر سب کچھ پھر ویسا ہی ہو جائے گا۔ شادی میں تم سے ہی کروں گا۔ ہفتے کی رات کو پی ٹی وی پر فلم دکھاتے تھے تو ہم اسلم پرویز کو دیکھتے ہی چوکنا ہو جاتے تھے اور ان کی مخصوص ہنسی سنتے ہی ہمارا چھوٹا بھائی پیچھے سے نعرہ مارتا تھا کہ حضرات ٹی وی بند کرنے کا وقت ہوا چاہتا ہے اور ہم دو منٹ کے لئے ٹی وی بند کر دیتے تھے۔ اﷲ معاف کرے جتنے ریپ اسلم پرویز نے کئے ہیں اس پر بھی اوپر معاف کر دئیے جائیں تو اوپر والے کے غفور الرحیم ہونے میں کیا کلام رہ جائے گا؟ اکثر سنسر بورڈ اتنی سختی کا مظاہرہ کرتی تھی کہ خصوصا انگریزی فلم تو اندازے اور خیالات کی نا پختگی سے ہی سمجھ میں آتی تھی۔

صبیحہ خانم کے دور میں فلموں میں ولن کیا ہیرو کے دست درازی کے سین کو بھی معیوب سمجھا جاتا تھا۔ ہیروئن کی مایوں کا سین چل رہا ہے۔ اچانک سین ختم ہوتا ہے اور ہیروئن دوڑتی ہوئی آتی ہے اور اسٹوڈیو کے کنویں میں چھلانگ لگا دیتی ہے۔ فلم بین ہکا بکا رہ جاتے تھے کہ یہ پل بھر میں کیا ماجرا ہو گیا۔ وہ تو اسی وقت ہیرو شیروانی پہنے اور پگڑی لگائے ہوئے گھوڑے کو سرپٹ دوڑاتا ہوا اچانک ولایت سے واپس آجاتا ہے اور ہیروئن کی جان بچانے کی بجائے ولن کی کٹ لگانا شروع کرتا ہے تو ناظرین کو اصل ماجرے کا اندازہ ہوتا تھا۔ اس کے بعد وقت مزید وقت بچ جاتا تو ہیرو ایک غمگین گانا گا کر پہاڑی سے چھلانگ لگا دیتا تھا ورنہ بصورت دیگر اسی وقت ایک ٹھوکر لگنے سے گر کر مر جاتا ہے۔ فلم کے گانے اور فائٹ سین تو آسانی سے فلم بند ہو جاتے تھے۔ اصل جھگڑا دی اینڈ کے لیے ہوتا تھا۔ ہیرو چاہتا تھا کہ آخری سین میں وہ مر کر امر ہو جائے۔ نگار ایوارڈ کے لئے بھی نامزد ہوجائے اور لڑکیاں اس کے غم میں روتی ہوئی فلم ہال سے باہر نکلیں۔ لیکن ڈائریکٹر فلاپ ہونے کا رسک نہیں لینا چاہتا تھا اورہیپی اینڈنگ چاہتا تھا۔ جیت اس کی ہوتی جس کی سائیڈ پر ہیروئن ہوتی تھی۔

اس زمانے میں فلمی شاعر کو کوئی اور موضوع نہیں ملتا تھا تو وہ تانگے پر گانا بنا دیتا تھا جیسا کہ آج کل کار میں بیٹھ کر ہیرو ہیروئن گانا گا لیتے ہیں جسے بچے دیکھ لیں تو وقت سے پہلے بالغ ہو جاتے ہیں اور اکٹر ان مناظر کو ذہن میں رکھ کر اور تفصیلات کو سنسر کرکے امتحان میں آجائے تو ''موٹر کار پر سیر'' پر مضمون بھی لکھ لیتے ہیں۔ آج کے زمانے کے بچے پرانی فلمیں دیکھ کر سخت بور ہوتے ہیں کیونکہ پاکیزہ محبت کا کیپسول اب نہیں بکتا ہے اور یہ زمانہ تو ہے بھی آئٹم سونگ کا جس میں کبھی منی بدنام ہوجاتی ہے تو کبھی ماڈرن انارکلی ڈسکو کا رخ کر لیتی ہے۔ اعتراض اس پر ہمیں فقط یہ ہے کہ وہ کرتوتوں سے منی تو بالکل نہیں لگتی ہے بلکہ اچھی خاصی کھیلی کھائی لگتی ہے۔ اس لئے ہمیں اس بات پر بھی یقین نہیں ہے کہ اس کے بدنام ہونے میں فقط ایک ظالم کا ہاتھ ہے۔ البتہ پرانی انارکلی بھی مشورے کے مطابق اگر ڈسکو کا رخ کر لیتی تو اس کی جان بچ جاتی کیونکہ انارکلی اور شیخو دونوں کو یقین تھا کہ ابا نہیں مانیں گے بلکہ شیخو کو تو یہ بھی شبہ تھا کہ اگر ابا مانے بھی تو فقط اپنے لئے مانیں گے۔

ہمیں والد صاحب نے فلم ہال میں جا کر فلموں سے منہ کالا کرنے سے سختی سے منع کر رکھا تھا۔ ایک مرتبہ ایک دوست کے اصرار پر چپکے سے فلم دیکھنے گئے تو شبنم کا ڈانس دیکھ کر ہی ہم مدہوش ہو گئے اور یہ مدہوشی کئی دنوں تک جاری و طاری رہی۔ اس کے بعد ہم نے فلموں سے جب بھی منہ کالا کیا عموما اکیلے ہی کیا۔

وی سی آر کا زمانہ آیا تو اپنی مرضی کی فلمیں بلا سنسر دیکھنے کی آزادی پبلک کو نصیب ہوئی تاہم اس میں ہر وقت چھاپہ پڑنے کا خطرہ رہتا تھا اور چھاپہ پڑنے کی صورت میں لڑکے ٹوپی پہنتے ہوئے اور انشاء جی اٹھو اب پھوٹ چلو گاتے ہوئے بھاگ نکلتے تھے۔ پھر ڈش اینٹینا کا زمانہ آیا جس میں گھر کی ساری پتیلیاں اینٹینا پر لٹکی رہتی تھیں اور خاص سین جب دھندلا کر دیا جاتا تو لوگ سیاہ چشمہ لگا کر یا ململ کی قمیض کے ذریعے اسے دیکھنے کی کوشش کرتے تھے۔

صبیحہ خانم کے انتقال کی خبر سنی تو پہلی بات یہی ہمارے ذہن میں آئی کہ کیا ابھی تک زندہ تھیں کیونکہ بہت عرصے سے خبروں میں ناپید تھیں۔ یہ سوال ہمارے ذہن میں اس لئے بھی آیا کہ ان کے شوہر نامدار تو اڑتیس سال قبل ہی انتقال کر چکے تھے۔ اسی طرح اﷲ تعالی حیات رکھے محمد علی کے انتقال کے بعد زیبا بیگم بھی طویل عرصے سے تائب زندگی گزار رہی ہیں۔ ویسے ہی ہمارے ذہن میں یہ شیطانی خیال آیا کہ عورتیں اکٹر بیوہ ہو جاتی ہیں لیکن مرد شاذ ہی رنڈوے ہوتے ہیں۔ شاید یہ لفظ ہی اتنا برا ہے کہ غیرت مند مرد مرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ مرد تو بے چارے ساٹھ سال کی عمر میں ریٹائر ہوتے ہیں۔ اﷲ اﷲ کرتے ہوئے اکسٹھ برس کی عمر میں حج کرتے ہیں اور تریسٹھ سال کی عمر میں نماز کے لئے جاتے ہوئے انتقال کر۔جاتے ہیں۔ عورتیں آج کل ہر چیز میں برابری کا نعرہ لگا رہیں ہیں لیکن نہ جانے کیوں اس معاملے میں اﷲ میاں نے برابری نہیں رکھی ہے۔ ہندو تو پرانے زمانے میں ستی کرکے حساب برابر کر دیتے تھے۔ اب ستی کا رواج تو نہیں رہا لیکن ستانے کا رواج ابھی بھی باقی ہے جس کی بنا پر مرد حضرات جلد سورگ باشی ہو جاتے ہیں۔

پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ خواتین کی طویل عمر کا راز یہ ہے کہ آن کی کوئی بیوی نہیں ہوتی ہے اور بیوی سے بیوہ ہونے کی لئے ایک یائے تانیث ہی تو ہٹانا ہوتا ہے اور پھر عورتیں ما شا اﷲ مستقل بیمار بھی نہیں پڑتی ہیں۔ ہمارے یہاں ذیابیطس اور بلڈ پریشر کا مردانہ بیماریوں میں شمار ہوتا ہے اور پروسٹیٹ کا مردانہ کمزوریوں میں۔ ایس صورت حال میں مرد جلدی نہ مریں تو اور کیا کریں؟ اور ویسے بھی اﷲ بخشے سنتوش کمار کی ایک نہیں دو دو بیویاں تھیں#

 

Iqbal Hashmi
About the Author: Iqbal Hashmi Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.