ہمارے معاشرے میں خواتین کو جنسی طورپر ہراساں کرنااور
اُن کا ریپ ایک عام سی بات ہے۔آئے روزاِس حوالے سے اخبارات کے صفحات بھرے
پڑے ہوتے ہیں۔عورتوں کو جنسی طور پر ہراساں کرنے اور اُن کے ریپ کے پیچھے
اکثر عام لوگ نہیں بلکہ خاص لوگ بگڑے ہوئے رئیس زادے ہی ہوتے ہیں جو اپنی
ازلی کمینگی ،اپنی باغیانہ روش اوراپنی بے غیرتی وبے حسی کے سبب وہ وہ کام
کرجاتے ہیں کہ جس پربحثیت ایک عام شہری ہونے کے ناطے مجھے بتاتے ہوئے شرم
سی آنے لگتی ہے۔ہم کس بے حس اور انسانیت سے عاری معاشرے میں رہ رہے ہیں کہ
جہاں عورت کی کوئی عزت ہی نہیں ہے۔اُسے کھلوناجان کر ہر جاہ اُس کی عزت
وعصمت پر ہاتھ ڈالا جاتاہے اور بجائے اِس کہ ہم اِس پرشرم سار ہوں،ہم
ذراسابھی ندامت محسوس نہیں کرتے۔برائی کو برائی ہی نہیں جانتے۔فعل بدکو
بُراہی خیال نہیں کرتے۔عورتوں کی عزت و عصمت پر ہاتھ ڈالتے تھوڑاسابھی نہیں
گھبراتے۔ ہر ادارے سے خواتین کی کچھ ایسی ہی رپورٹیں آتی ہیں کہ فلاں نے
اُسے ہراساں کیا۔فلاں نے ریپ کیا۔فلاں نے زیادتی کرنے کی کوشش کی۔ سب
اداروں کا تقریبایہی حال ہے۔اب تو سیاست کی راہداریوں میں موجود رہی کچھ
اہم سابق شخصیت کے بارے میں بھی ایسی ہی آوازیں اورشکایات بلند ہونا شروع
ہوگئی ہیں ۔پہلے تو ہمارے معاشرے میں ایک عام حوا کی بیٹیوں سے زیادتی کی
صدائیں گاہے بگاہے سنائی دیتی رہی ہیں جوکسی نہ کسی وڈیرے ،جاگیردار،سرمایہ
دار،وحشی ،ظالم کے ظلم وستم اور زیادتیوں کاشکار ہوکر صدائے احتجاج بلند
کرتی نظر آتی رہیں۔اب کے بارتوایک غیر ملکی خاتون سنتھیارچی کے دس سال بعد
لگائے گئے زیادتی کے الزامات کی گونج اب ملک کے کونے کونے میں سنائی دے
رہی،ہمارے رہبروں،خیرخواہوں کی ساری حقیقت و اصلیت کے پردے چاک کررہی ہے کہ
کون کیا ہے۔سنتھارچی کی باتیں بتااور سمجھا رہی ہیں کہ معاملہ اتنا سادہ
نہیں ہے جتنا سمجھا جارہاہے۔معاملہ اتنا جھوٹ بھی نہیں ہے جتنا بتایا
جارہاہے۔ سنتھیارچی کی ایک پروگرام میں کی گئی باتیں بتا رہی ہیں کہ
سنتھیارچی کے ساتھ کس کس نے اور کیسے کیسے ظلم و ستم کیا۔کون اُسے
چھیڑتارہا اور گلے لگاتا رہا۔کون اُسے اپنی بانہوں کا ہار بنانے کا
خواہشمند رہااور کون اُسے کندھوں سے پکڑکر سہلاتارہا۔کون اُس کی عصمت کو
پہلے گلدستہ پیش کرکے ،پھر مشروب پلاکر لوٹتا رہا اور کیسے قیمتی موبائل کے
گفٹ سامنے لاکر اُس کی قیمت چکاتارہا۔ کون کون اقتدار واختیار پاکر اِس
عورت کی مجبوری و مقہوری اور صنف نازک ہونے کا فائدہ اُٹھاتارہا۔امریکی
خاتون’’ سنتھیارچی‘‘ کے الزامات میں دس سال بعد کتنی حقیقت کتنا افسانہ
توآنے والے دنوں میں معلوم ہوہی جائے گا مگر سنتھیارچی کے اِس جرات مندانہ
اقدام نے ہمارے ناکارہ و بوسیدہ سسٹم کی ساری قلعی کھول کے رکھ دی ہے کہ
یہاں ہم کتنے محفوظ ہیں اور یہ کہ ہمارے رہبر و رہنما ء کتنے اعلیٰ ظرف اور
شاندار حیثیتوں کے مالک۔سنتھیارچی کے بدن کوبقول اُس کے بھنبھوڑنا اور
جھنجھوڑنا سے پتاچل رہاہے کہ ہماری ذہنی و جسمانی استطاعت کتنی کمال کی اور
ہماری سوچ کس اعلیٰ پائے کی۔بڑے افسوس کی بات ہے کہ ہمارے سیاست کے مقام
ایوان وزیر اعظم اور ایوان صدرپر ہمارے سابق کرتا دھرتاؤں کا ملک وقوم کے
افراد کے لیے بے غرض خدمت کا یہ حال ہے تو پھر غرض کے لیے کی گئی خدمت کا
عالم کیاہوگا۔اب جاکر پتاچلاہے کہ ہمارے ملک میں معصوم بچوں اور بچیوں سے
جنسی زیادتی اور اُن کے ریپ کیوں ہورہے ہیں اور یہ سلسلہ رک کیوں نہیں
رہاتو معلوم ہواکہ اِس کی وجہ کوئی اور نہیں،ہمارے ہی خیر خواہوں کے لبادے
میں چھپے اِسی طرح کے سیاست دان ہی اِس کے حقیقی ذمہ دار ہیں جو خیر خواہی
کے روپ میں انسانوں کوتواکثر ڈستے ہی ہیں اُن کی عزتیں بھی پامال کرنے سے
ذرا نہیں چوکتے ہیں۔جس معاشرے میں سیاست دانوں کا یہ چلن ہو ،وہاں عام آدمی
سے کیسا شکوہ۔جہاں قوم کے مسیحا ہی رہزن ٹھہریں،وہاں عصمتوں کے ڈاکوؤں سے
کیسی شکایت۔افسوس ہمارا حال تو بہت ہی خراب ہے باعث شرمندگی،کسی کام کا نہ
۔گناہوں اورذلالتوں سے بھراہوا۔ہمارے معاشرے کے زوال کی وجہ بھی یہی ہے کہ
ہمارے ہاں کیس حل کے لیے نہیں بلکہ ذلیل ہونے کے لیے آتا ہے۔حقائق کو
پرکھنے کے لیے نہیں ،ہاسے پہ ہاسہ نکالنے کے لیے آتاہے اور پھر یہ کہ ہم
ایسے کیسوں کے عادی ہوچکے ہیں۔ہمارے قلوب وارواح پر ایسے کیس بالکل جگہ
نہیں پاتے۔تھوڑی دیر اثر رکھتے پھر چھوڑ جاتے ہیں۔ہمارے معاشرے میں پیدا
شدہ بہت سے کیسوں کی طرح سنتھیارچی کا کیس بھی کچھ ایساہی ہے ۔چند دن خوب
اثر کرے گا،اپنی جگہ بنائے گا،ٹاک شو میں بھرپورچلے گا ،پھر روایتی بے حسی
کی نظر ہوئے باقی کیسوں کی طرح اپنی موت آپ مر جائے گا۔رہے ایسے سیاست دان
تو اُن کے نزدیک رعایاکی کیاحیثیت و اہمیت ،سبھی جانتے ہیں۔ |