پاؤں کی زنجیر

یہ ہمارا روزمرہ کا مشاہدہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایسے لا تعداد کردار موجود ہوتے ہیں جن کا کام محض نعرہ زنی کرنا اور بڑھکیں مارنا ہوا کر تا ہے ۔وہ اپنے فن میں یدِ طولی رکھتے ہیں لہذا ان کی نعرہ زنی سے عوام بوجھ محسوس نہیں کرتے بلکہ اکثرو بیشتر اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔وہ چشمِ زدن میں آسمان سے تارے توڑ کر لانے کے فن سے آشنا ہوتے ہیں اور آنکھ جھپکنے سے قبل تختِ بلقیس حاضر کر دینے کی قدرت سے بھی مالا مال ہوتے ہیں ۔دنیا ککا کوئی ایسا معرکہ نہیں ہوتا جسے وہ سر کرنے کی قدرت نہ رکھتے ہیں۔وہ گفتار کے ایسے جید غازی ہوتے ہیں جہاں پر کردار کے غازی بے وقعت قرار پاتے ہیں۔آپ کسی موضوع کو چھیڑ کر دیکھیں وہ اس پر اپنی دسترس کی مہر لگانے میں لمحہ بھر کی دیر نہیں کریں گے۔ان کی چرب زبانی،لاف نی اور دروغ گوئی کے چہار عالم میں ڈنکے بج رہے ہوں گے لیکن وہ پھر بھی شرمسار ہونے کی بجائے بڑھکیں مانے کے شغل کو مزید متنوع بنانے کی سعی میں جٹے نظر آئیں گے۔شائد انھیں لاف زنی میں دلی سکون میسر آتا ہے اسی لئے وہ اس سے تائب نہیں ہوتے۔یہ ایک نفسیاتی کیفیت ہوتی ہے جس سے بجز موت چھٹکارا ممکن نہیں ہوتا۔مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ ایک دفعہ کسی میلے میں ہنگامہ بپا ہو گیا اور چاروں طرف افرا ترفری پھیل گئی۔اس ہڑبونگ میں میرا ایک مہربان دوست جو اپنی متلون مزاجی کی وجہ سے بڑا مشہور تھا کھڑا ہو کر اپنے مخا لفین کو للکارنے لگا۔میرے مہربان دوست کے ہاتھ میں کلہاڑی تھی جسے وہ فضا میں بلند کر کے کہے جا رہا تھا کہ میں گولیاں چلا دوں گا اور سب کو بھون کر رکھ دوں گا حالانکہ نہ تو کلہاڑی سے گولی چلائی جا سکتی ہے اور نہ ہی کسی کو بھونا جا سکتا ہے لیکن وہ اسی پر بضد تھا ۔یہ خود نمائی کی ایک کیفیت ہے جو اکثر ان افراد کا ہتھیار ہو تا ہے جو کوتاہ قد ہوتے ہیں۔ایسا کرنا بڑے لوگوں کا شعار نہیں ہوتاکیونکہ وہ گفتار کا نہیں عمل کا پیکر ہوتے ہیں۔،۔

سیاست میں نعروں کی بڑی اہمیت ہوتی ہے لہذا نعرے بلند کرنا کوئی انوکھی بات نہیں ہوتی ۔عوام کو اپنی جانب راغب کرنے کے لئے قائدین نئے نئے نعرے ایجاد کرتے ہیں۔نعروں کی جاذبیت عوام کو اپنی جانب متوجہ کرتی ہے اور اس مخصوص جماعت کی مقبولیت کی بنیاد بنتی ہے جس کے نعرے زیادہ جاذبِ نظر ہوتے ہی ۔ نعرہ جتنا دلکش ہوگا عوام میں اس جماعت کی مقبولیت اتنی زیادہ ہو گی۔۱۹۷۰؁ کی دہائی میں ذولفقار علی بھٹو نے روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا تو دنیا اس نعرے پر ٹوٹ پڑی۔ذولفقار علی بھٹو کی طلسماتی شخصیت اور اس پر دلکش نعرے نے عوام کو اپنا اسیر کر لیا ۔ان کا نعرہ عوام کے دلوں میں کھب گیاجس کی وجہ سے پی پی پی مغربی پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھری۔ذولفقار علی بھٹو کے کارناموں کی ایک طویل فہرست ہے جس میں سرِ فہرست اقتدار کے ایوانوں تک عوامی رسائی کو ممکن بنانا تھا ۔ لوگوں کے لئے بیرونِ ملک روزگار کے مواقع پیدا کرنا ان کے روٹی کپڑا اور مکان کے نعرے کی صدائے باز گشت تھی۔لاکھوں لوگوں کو روزگار کے لئے مڈل ایسٹ بھیجنا ان کا سب سے بڑ ا کارنا مہ تھا۔ان کی حکومت میں ایک ا یسا خوشخال طبقہ وجود میں آیا جس نے پاکستان معشیت کی مضبوطی کی بنیاد رکھی اور زرِ مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کاموجب بنا۔اربوں روپے کے زرِ مبادلہ سے ملکی معیشت کو مضبوط کرنے اور روزگار کے مسائل کو کم کرنے میں مدد ملی۔ ۱۹۷۳؁ کا آئین ،اسلامی سر براہی کانفرنس کا انعقاد ،پاکستان سٹیل مل کا قیام ،اور ایٹمی توانائی کا حصول وہ چند کارہائے نمایاں ہیں جن کی بناء پر عوام آج بھی ذولفقار علی بھٹو سے محبت کرتے ہیں۔ ان کی ذات عوامی محبت کی ایک ایسی لازوال داستان ہے جس کے ہر ایک پنے (صفحہ )پر وفاؤں کی کہکشاں بکھری پڑی ہے۔ایسی محبت نہ دیکھی نہ سنی نہ کہیں پر پڑی۔جب کچھ لوگ کسی دوسرے انسان کے لئے خود سوزی جیسے انتہائی فعل کا ارتکاب کر لیں تو پھر محبت کی آفاقیت کو تسلیم کئے بناء چارہ کار نہیں ہوتا ۔ سیاست محض نعروں کا نام نہیں ہوتا بلکہ کبھی کبھی اپنے کہے ہوئے الفاظ کی حقانیت کی خاطر خونِ جگر بھی دینا پڑتا ہے۔دنیا ہر سیاست دان کو اس کے الفاظ اور ان الفاظ پر عملداری کے فیصلوں سے پرکھتی ہے۔سبز باغ دکھانا قائد کا منصب نہیں ہوتا اور نہ ہی قائد کا منصب اپنے عوام کو بیوقوف بنانا ہو تا ہے۔قائد کا کام قوم کے لئے ہدف کا تعین کرنا اور پھر اس ہدف کے حصول میں اپنی صلاحیتوں کو وقف کر دینا ہو تا ہے ۔ قائدِ اعظم محمد علی جناح نے یہی کیا تھا۔۲۳ مارچ ۱۹۴۰؁ کو ایک علیحدہ ملک کے قیام کا ہدف اتنا بڑا ہدف تھا جس کا حصول اس وقت ناممکن نظر آتا تھا لیکن انھوں نے اپنی لگن،محنت، دیانت،فراست اور جہدِ مسلسل سے اسے ممکن بنا کر دکھایا تھا ۔۱۴ اگست ۱۹۴۷؁ کے سورج کی چمک قائد کی عظیم قیادت کو تسلیم کرنے اور ان کی عظمت کو گواہی دینے کے لئے کافی ہے۔

ہمارے ہاں پاکستان تحریکِ انصاف کے قائد عمران خان نے ۲۰۱۸؁ کے الیکشن میں عوام سے کچھ وعدے وعید کئے تھے ۔ عوام نے عمران خان کی شخصیت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ان کے وعدوں پر اعتبار کیا اور اپنے مقدس ووٹ سے ان کی جماعت کو اقتدار کی مسند سے سرفراز کیا ۔ عوام جامد معاشرے میں ایک مثبت تبدیلی کے خواہش مند تھے ۔وہ اپنی آنکھوں میں نئے معاشرے ، نئے پیمانوں اور نئے سانچوں کے خوا ب سجائے ہوئے تھے لیکن ان کے ساتھ جو کھلواڑ کیا گیا وہ بیان سے با ہر ہے۔دوسال کا عرصہ گزربنے والا ہے لیکن بد قسمتی سے عمران خان کے وعدوں میں سے کوئی ایک وعدہ بھی پو را نہیں ہوا۔۔ایک کروڑ نوکریاں ،پچاس لاکھ گھر ، آئی ایم ایف پر لعنت،بیرونی قرضوں سے اجتناب ،وزیرِ اعظم ہاؤس میں یونیورسٹی کا قیام،پروٹوکول کو الوداع کہنا،گورنر ہاؤ سز کو خالی کرنا ، ایجو کیشن مفت ،صحت مفت،،اڑھائی کروڑ بچوں کو سکولوں میں بھیجنا،میڈیا کی آزادی،جنوبی صوبہ کا قیام،کشکول توڑنا، دیامر باشا دیم کی تعمیر ،بیرونِ ملک سے ۲۰۰ ارب ڈالر واپس منگوانا ،خسارہ زدہ اداروں کو پٹری پر لانا،آٹھ ہزار ارب ٹیکس اکٹھا کرنا اور انصاف سب کے لئے یکساں جیسے دلکش نعرے شامل تھے۔میں نے اپنی زندگی میں وعدوں کو اتنا بے تو قیر ہوتے ہوئے نہیں دیکھا۔ حکومت کی ساری توانائیاں اپنے مخالفین کا ناطقہ بند کرنے پرصرف ہو رہی ہیں جبکہ ان کے اپنے وزیر اور دوست قانون کی گرفت سے آزاد ہیں۔احتساب سے کسی کو کوئی اختلاف نہیں لیکن اس میں حکومتی وزراء کو بھی تو کٹہرے میں کھڑا کرنا ضروری ہے تا کہ انصاف کا بول با لا ہو سکے۔دوستوں کو تو خصوصی طیارے سے بیرونِ ملک بھیج دیا جا تا ہے تا کہ دوست قانون کی گرفت سے محفوظ ہو جائیں اور حکومت کی رخصتی کے امکانات بھی معدوم ہو جائیں۔جہانگیر ترین کس کی ایماء پر بیرونِ ملک گئے ہیں ، انھیں باہر جانے کی اجازت کس نے مرحمت فرمائی ہے؟ َ وہ کس کے طیارے میں گئے ہیں کیونکہ ان کا ذ اتی طیارہ تو طویل سفر کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتا۔ کاش عمران خان مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کے علاوہ اپنی جماعت کی کالی بھیڑوں کو بھی قانون کے کٹہرے میں کھڑا کریں تا کہ قانون و انصاف پر عوام کا اعتماد بحال ہو سکے ۔مصلحت کوشی، اقرباء پروری اور اقتدار کی مجبوریاں جب تک عمران خان کے پاؤں کی زنجیر بنی رہیں گی انصاف کا سور ج کبھی طلوع نہیں ہو سکے گا۔ریاست انتقام سے نہیں بلکہ انصاف سے مستحکم ہوتی ہے۔،۔
 

Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 629 Articles with 516564 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.