چین نے بے چین اور نیپال نے بے حال کردیا

 نیپال اور ہندوستان جیسے شیر وشکر ممالک کو دومخالف راستوں پرجاتے دیکھ کر راج کھوسلہ کی فلم دوراستے کا مشہور نغمہ’’جس کا ڈر تھا بے دردی وہی بات ہوگئی ، تو نے کاجل لگایا دن میں رات ہوگئی‘‘یاد آتا ہے ۔ نیپال کے نئے نقشے کی منظوری سے ہندوستان کی وزارت خارجہ میں ایسا سناٹا چھا گیا ہے گویا رات ہوگئی ۔ نیپال کی پارلیمنٹ میں نئے نقشے پر پیش کردہ ترمیمی بل کی منظوریتعجب کی بات نہیں ہے لیکن اس ترمیمی بل پر ووٹنگ کے دوران اپوزیشن نیپالی کانگریس اور جنتا سماج وادی پارٹی کی حمایت کی یقیناً حیرت انگیز ہے۔ یہ اس منظر کی یاد دلاتا ہے جب وزیرداخلہ امیت شاہ نے ایوان پارلیمان میں کشمیر کی دفع 370میں ترمیم کا بل پیش کیا تو حزب اختلاف کے لیے اس کی مخالفت کرنا مشکل ہوگیا ۔ جمہوری سیاسی نظام میں قوم پرستی کی آگ بھڑکا کراسی طرح ضمیر کی آواز کو دبایا جاتا ہے۔ نیپالی کانگریس، راشٹریہ جنتا پارٹی نیپال اور راشٹریہ پرجاتنتر پارٹی وغیرہ کو ہندوستانی نژاد مدھیشیوں کی حمایت حاصل ہے۔ وہ ہندوستان کے ساتھ بہتر تعلقات کی حامی رہی ہیں لیکن غدار کہلانے کے خوف نے انہیں اپنا موقف بدلنے پر مجبور کردیا۔ اس طرح مودی سرکار کو ایک پڑوسی ملک نےاسی زبان میں جواب دے دیا ۔ اس بل پر اب صدر جمہوریہ کی مہر ایک رسمی کارروائی ہے۔

20 مئی کو نیپالی کابینہ نےیہ نیا انتظامی نقشہ جاری کیا تھا جس میں تین ہندوستانی علاقوں لپولیکھ ، کالاپانی اور لمپیادھورا کو نیپال کی سرزمین کا حصہ بتا گیا ۔اس سے پہلے کہ حکومت ہنداس کی پیش رفت کو روکنے میں کامیاب ہوتی تما م تر مخالفت اور ناراضگی کے باوجود نیا نقشہ منظور ہوگیا۔ اس طرح چین کےعلاوہ سرحدی تنازع کی فہرست میں ایک ناخوشگوار اضافہ ہوگیا۔ چین تو خیر ہندوستان سے ۵ گنا بڑی معیشت اور دوگنا بڑی فوج کا مالک ہے اس لیے کسی بھی میدان میں اس کا دو بدو مقابلہ مشکل ہے۔ ہم یہ سوچ سوچ کر خوش تو ہوسکتے ہیں کہ اس کے جاپان اور امریکہ سے خراب تعلقات ہیں لیکن ہزاروں میل سے آکر چین کے خلاف وہ ہماری عملی مدد نہیں کرسکتے۔ اس کے برعکس چین کی شئے پر ہمارا حقیر فقیر پڑوسی نیپال اب ہمیں آنکھ دکھانے لگا ہے ۔ نیپالی وزیر اعظم کے پی شرما اولی کا ایوانِ پارلیمان میںیہاعلان کہ 'نیپال اپنی زمین کا ایک انچ حصہ بھی نہیں چھوڑے گا‘ کسی دھمکی سے کم نہیں ہے۔

نیپال سے موجودہ تنازع کی شروعات اس وقت ہوئی جب وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے۸ مئی کو حقیقی کنٹرول لائن پر واقع لیپو لیکھ کے قریب سے ہو کر گزرنے والی اتراکھنڈ، کیلاش مانسرور سڑک کا افتتاح کیا۔کیلاش مانسرور کے شیوا مندر میں ہر سالہندو عقیدت مند جاتے ہیں۔ ان کی آسانی کےلیے یہ سڑک بنائی گئی تھی مگر نیپال نےاس پرسخت ناراضی کا اظہار کیا تھا۔ویسے جموں کشمیر کی دفع 370 کے خاتمہ کے بعد جب حکومت ہند نے لداخ کا نقشہ شائع کیا تھا تو اس وقت بھی نیپال نے کالا پانی کو لے کر اعتراض جتایا تھا ۔ لیپو لیکھ وہ علاقہ ہے جہاں ہندوستان ، نیپال اور چین کی سرحدیں ملتی ہیں۔ مذکورہ واقعہ کے بعد نیپال کی وزارت خارجہ نے کٹھمنڈو میں بھارت کے سفیر کو اپنے دفتر میں طلب کر کے سخت احتجاج کیا اور تنبیہ کی کہ ”بھارت نیپال کے اندر اس طرح کی کسی بھی سرگرمی سے گریز کرے۔"حالانکہ 1962کے چین جنگ کے بعدہندوستان کی فوجیں وہاں تعینات ہیں اور اپنی بلندی کے سبب وہ فوجی اہمیت کا حامل ہے۔حکومت ہند نے کسی بھی نیپالی علاقے میں مداخلت کیمگر ہندوستانی فوج کےسربراہ جنرل ایم ایم نروانے نےیہ کہہ دیا کہ'اس بات کا کافی امکان ہے کہ نیپال ایسا کسی کے اشارے پر کررہا ہو۔‘ وہ کوئی اور چین ہے لیکن جنرل صاحب نے نام لینے سے احتراز فرمایا۔

نیپال ایک زمانے تک دنیا کا واحد ہند وراشٹررہا ہے۔ اس کے ہندوستان کے ساتھ نہایت قریبی اور تاریخی رشتے تھے لیکن مودی جی کی رعونت نے اپنے پرانے دوست کو دشمن بنادیا ہے۔ان پڑوسیوں کے تعلقات میں تلخی سن 2015 میں آئی جب نیپال میں نئے آئین کے نفاذ کے خلاف حکومت ہند کی شئے پر ہندوستانی نژاد مدھیشی برادری نے سرحدکے قریب جام سڑککردی تھی۔ اس کے سبب نیپال کو کافی اقتصادی پریشانی اٹھانی پڑی اور وہ چینیوں کی پناہ میں جانے پر مجبور ہوگیا ۔ مودی جی نے یہ بھی نہیں سوچا کہ اب وہاں ہندوستان نواز نیپال کانگریس نہیں بلکہ اشتراکیوں کا اقتدار قائم ہے۔ اس وقت جو تعلقات بگڑے تو بگڑتےچلے گئے۔ حکومت ہند چین کے ساتھ تو سرحدی تنازع پر گفتگو کی قائل ہے لیکن نیپال کو کمزور سمجھ کر نظر انداز کیا جاتا ہے۔ اس مسئلہ کو اگر پہلے ہی بات چیت سلجھا لیا گیا ہوتا تونیپال کے نئے نقشے کو ایوان پارلیمان میں منظور کروانے کی نوبت نہیں آتی ۔کشمیر کی طرح اب یہ نیپال کا داخلی معاملہ بن گیا ہے اور کسی اور کو اس پر اعتراض کرنے کا حق نہیں رہا۔

نیپال سے متصل اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی ادیتیہ ناتھ کو اس بات سے لا علم ہیں کہ انہیں عالمی معاملات میں دخل اندازی کا اختیار نہیں ہے۔ وہ جس طرح اپنے صوبے کے معاملات میں اوٹ پٹانگ بیانات دیتے رہتے ہیں ایسا کسی خود مختار ملک کے ساتھ نہیں کرسکتے۔ انہوں نے نیپال پر یہ غیر ذمہ دارانہ بیان دے دیا کہ وہ اپنا نیا نقشہ بنانے سے قبل اس کے اثرات پر غور کرے اور تبت والی غلطی نہ دوہرائے۔ اسدھمکی آمیز بیان پر وزیر اعظم اولی نے یوگی کو ایسی زبردست پھٹکار لگائی کہ ہوش ٹھکانے آگئے۔ اس طرح کی تحقیر کا ماضی میں کا تصور بھی ممکن نہیں تھا ۔ اس قومی رسوائی اور بے وزنی کے لیے صرف اور صرف بی جے پی کی مرکزی اور صوبائی رہنماوں کی اکڑ ذمہ دار ہے۔ ٰ پڑوسیوں کے تئیں اگر احترام کا رویہ اختیار کیا جاتا تو یہ نوبت نہیں آتی۔ اب تو یہ حال ہے کہ ایک طرف چین ہمیں بے چین کررہا ہے اور دوسری جانب نیپال براحال کرنے پر تلا ہواہے۔

ہندوستانی تجزیہ کار نیپال کے رویہ کی یہ توجیہہ کرتے ہیں کہ وہاں وزیر اعظم چین کو خوش کرنے کے لیے ایسا کررہے ہیں۔ یہی الزام وزیر اعظم مودی پر لگتا ہے کہ وہ امریکہ کو خوش کرنے کے لیے چین کو ناراض کررہے ہیں ۔ اولی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی داخلی ناکامیوں کی جانب سے دھیان ہٹانے کے لیے قوم پرستی کو ہوا دے رہے ہیں لیکن یہ سبق تو انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی سے ہی سیکھا ہے۔ مودی جی اور ان کی جماعت اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے دن رات پاکستان کا راگ الاپتی ہے لیکن یہی لوگ ان کو حق بہ جانب ٹھہراتے ہیں ۔اولی اگر اس اسکول کے ادنیٰ طالب علم ہیں تو مودی پرنسپل ہے ۔ نیپال کی عوام اور انتظامیہ کے اندر ہندوستان کے تئیں جو غم و غصہ ہے اس کا اندازہ پچھلے تین ماہ میں وقوع پذیر ہونے والے دو واقعات سے کیا جاسکتا ہے۔

بہار کے ضلع سیتا مڑھی میں نیپال سرحد پرلال بندی جانکی نگری کے کچھ ہندوستانی باشندوں کی جمعہ 12جون کو نیپالی مسلح پولیس کے ساتھ جھڑپ ہوگئی۔ اس کہا سنی میں نیپال پولیس نے فائرنگ کرکے چار ہندوستانیوں کو پہلے تو زخمی کردیا۔اس میں ایک کی موت ہوگئی اور دو کی حالت نازک ہے۔ نیپال پولیس کے حوصلوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے ساتھ ایک دیہاتی کو گرفتار کرکے بھی لے گئے۔ اس طرح کا ایک واقعہ تین ماہ قبل 10 مارچ کو نیپال کے كچن پور اور اترپردیش میں لکھیم پور کھیری کی سرحد پر ہواتھا جبکہ ہندوستانی حفاظتی دستے (ایس ایس بی) کی فائرنگ میں نیپالی نوجوان کے مارے جانے پر ماحول کشیدہ ہوگیا۔ اس پر احتجاج کرتے ہوئے نیپال کے سینکڑوں لوگوں کی بھیڑ نے بینر لے کر ہندستان مخالف نعرے لگائے۔ مشتعل ہجوم نے نیپال میں ہندوستانی سرحد سے ملحق كیلالي، گوري پھنٹا، كچن پور علاقوں میں ہندستانی شہریوں کی دکانوں میں توڑ پھوڑ کی اور درجنوں گاڑیوں کو نذرِ آتش کیا۔ بھیرهوا میں ہندستانی ٹرکوں پر پتھراؤ کے ساتھ بڑھنی اور کرشنا نگر میں بھی ایس ایس بی کی مخالفت میں مظاہرہ کیا گیا۔

لکھیم پور کھیری سانحہ کے بعد سرحد کی دونوں جانب کے افسران کی ملاقات ہوئی اورامن وقانون برقرار رکھنے پر اتفاق ہوا ہے۔دہلی میں وزارت خارجہ کے ترجمان نے بتایا کہ ایس ایس بی نےفائرنگ کی تحقیقات شروع کی ہے۔ ہندوستانی سرکار نے سفارتی ذریعہ نیپال حکومت کومتوفی کے لاش کی پوسٹ مارٹم اور فارنسک رپورٹیں دینے کی درخواست کی مگر سیتا مڑھی سانحہ کے بعد ایسا کچھ نہیں ہوا۔ نہ تو عوام نے احتجاج کیا اور نہ حکومت ہند نے اس کی جانب توجہ کرنے کی زحمت کی۔ یہ واقعات ہند نیپال تعلقات کے خرابی کی علامت ہیں ۔ فسطائی بھکت چین کے حوالے سے بار بار یہ کہتے ہیں کہ آج کے اور 1962 کے ہندوستان میں بہت بڑا فرق ہے لیکن یہی بات نیپال کے تعلق سے بھی کہی جاسکتی ہے کہ آج کا نیپال بھی بہت بدل گیاہے۔ گزرے زمانے کے زعفرانی نیپال میں سے پیلا پن غائب ہوچکا ہے اور اب وہ سرخ بھبھوکا نظر آتا ہے۔ہندو فسطائیوں کے ساتھ یہ عجب ستم ظریفی ہے کہ جس وقت وہ ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے خواب دیکھ رہے تھے ان کے خلاف ایک سابق ہندو راشٹر میدان میں آگیا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہندوستان کےنیپال اور چین کی سرحدوں پر الجھ جانے سے سب سے بڑا فائدہ پاکستان کا ہوا ہے۔ مودی جی کی بدولت عمران خان کے اچھے دن آگئے ہیں ۔

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1453324 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.