ٹائیگر فورس ایک اچھی پیشرفت؛ معاشرتی علوم کے ماہرین کیا کر سکتے ہیں ؟

ہمارے مہربان عمران خان نے پہلے مولویوں کے سامنے گھٹنے جوڑے، پھر تاجر برادری کی دھمکیوں میں آ گئے۔جب سے انہوں نے شریف برادران کے ڈرامہ سے ڈر کر ان کو قید سے رہا کر کے ملک سے باہر جانے دیا ہے، ہر شاطر اور ڈرامہ باز ان کی کمزوری سے فایدہ اٹھا رہا ہے۔ خان صاحب دل کے بہت نرم ہیں۔ کوئی ذرا سی دھمکی دے تو گھبرا جاتے ہیں۔اب انہیں غریبوں کا غم کھا رہا ہے۔ یہ بڑی اچھی بات ہے۔ آ خر کوئی تو غریبوں کا ہمدرد بھی ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ غریبوں کی روزی بچاتے بچاتے وہ ان کو موت کے منہ نہ ڈالدیں۔کیونکہ کورونا تو اس معاملہ میں انصاف کی دیوی کی طرح اندھا ہے۔ نہ امیر دیکھتا ہے اورنہ غریب۔ سب سے چمٹ جاتا ہے۔ایک ایک متاثرہ شخص چار پانچ کو تو آسانی سے جراثیم دے دیتا ہے۔ اسی لیے جب نمازی بھائی مسجد سے کورونا وائرس کا تحفہ لیتا ہے تو سب سے پہلے گھر والوں کو دیتا ہے۔ کہتے ہیں جب بھی کوئی چیز باہر سے لاؤ تو پہلے گھر والوں کو دو۔ پھر عزیز و اقارب کو۔یہی حال ان لوگوں کا ہے جو بازار سے جرثومہ لے آتے ہیں۔ اور جس سے ملتے ہیں اس کو از راہ شفقت تحفہ دیتے جاتے ہیں۔ جب بیماری جڑ پکڑ لیتی ہے تو کھانس کھانس کر اور چھینکوں سے گرد و نواح کے سب لوگوں کو مفت مستفید کرتے ہیں۔اکثر بے چاروں کو تو پتہ بھی نہیں ہوتا کہ وہ کیا کر رہے ہیں؟ اور نہ ہی تحفہ لینے والوں کو پتہ چلتا ہے کہ وہ ان کا شکریہ ادا کر سکیں۔ ایسی بھولی بھالی قوم کو ٹائیگر فورس بھی کیسے سمجھا سکے گی؟ ان کے پاس کونسا سمجھانے کا گُر یا آلہ ہو گا؟ صرف زبانی کلامی تو آج کل کسی کی کون سنتا ہے؟

بہت عرصہ کی بات ہے جب امریکنوں اور عالمی ادارہ صحت کے اصرار پر صوبائی حکومتوں نے، بلکہ دفاقی حکومت نے بھی ،تعلیم صحت کے افسر ضلعی سطح پر تعینات کیے تھے۔ان کو معمولی سی تربیت بھی دی گئی جس میں انہیں آگاہی پھیلانے کے گُر سکھائے گئے۔لیکن سب زبانی جمع خرچ۔ راقم نے سنا ان کے اس کام کے لیے کچھ رقم بھی مختص کی گئی لیکن ان کے بڑے ڈاکٹر افسران وہ رقم اپنے مہمانوں کی چائے سموسوں اور بسکٹوں سے خاطر تواضع کرنے پر خرچ کرتے تھے۔ اور ہیلتھ ایجوکیٹرز اپنی آگاہی کی مہم کے لیے ایک چھوٹا سااشتہاربھی نہیں بنا کر بانٹ سکتے تھے۔اس لیے کہتے ہیں، دروغ بر گردن راوی،مردایجوکیٹر اپنے افسر اعلیٰ کی جوتیاں سیدھی کر کے وقت گذارتے ہیں اور خواتین ایجوکیٹر بچے پالتی ہیں۔ سب سرکار کے خرچے پر۔

صحت عامہ کا کام ہمارے ملک میں زیادہ مقبول نہیں ہے۔ اب کوڑے کرکٹ کی مثال ہی لے لیں ۔ یہ ڈھیر اس لیے نہیں اٹھائے جاتے کہ ان کو اٹھانے میں کوئی اوپر کی آمدنی نہیں ہوتی۔ خالی خولی سوکھی تنخواہ پر تو نائب قاصد بھی کام نہیں کرتا۔ وہ بھی سائیلین سے کچھ نہ کچھ وصول کر ہی لیتا ہے۔لیکن صفائی کرنے والے جنہیں خاکروب بھی کہتے ہیں، وہ اس اوپر کی آمدنی حاصل کرنے کے لیے اپنے افسروں کے گھروں میں کام کرتے ہیں۔ تو سڑکوں سے کوڑا اٹھانے کا وقت ہی نہیں ملتا۔کراچی میں تو سنا ہے کہ چینی کمپنیاں ٹھیکے پر بلوائی جاتی ہیں۔ اور ٹھیکے سے جو کمیشن ملتا ہے اس سے بڑے افسران اور سیاستدانوں کا کچھ گذارہ ہو جاتا ہے۔اب میونسپلٹی کے ملازموں سے کوڑا اٹھوانے کا کتنے نفلوں کا ثواب ہو گا؟ اسی لیے کراچی ہی کیا، ہر شہر اور قصبہ کے رہائیشیوں کو چاہیے کہ یہ کام نجی کمپنیوں سے کروائیں۔ ان کو تھوڑے پیسے زیادہ دینے پڑیں گے لیکن کام تو ہو جائے گا۔ اب یہی مسئلہ تعلیم صحت کا بھی ہے۔ ہیلتھ ایجوکیٹرز کو سرکاری فرائیض پورا کرنے میں اوپر کی آمدنی صفر ہوتی ہے، تو ان کو کتے نے نہیں کاٹا کہ وہ مفت میں لوگوں کو آگاہی پھیلاتے پھریں۔ جوتھوڑی سی تنخواہ ملتی ہے اس سے تو ان کا ایک ہفتہ کا راشن بھی نہیں پورا ہوتا۔ اگر مہینے میں ایک دو بار ڈیوٹی ٹریول نہ کرنا ہو تو مہینہ بالکل ہی سوکھا گذر جاتا ہے۔یہ بات طے شدہ ہے کہ جس سرکاری ملازمت میں اوپر کی آمدنی نہ ہو اس پر لعنت، اور اس میں کام کرنے والے پر حیرت۔

ان حالات میں ہمارے بھولے بھالے وزیر اعظم نے کیا شاندار سکیم نکالی ہے کہ مکملاً رضا کار تنظیم بنا ڈالی ہے۔دس لاکھ رضا کا ر، اکثر بے کار نو جوان گھر گھر جاکر لوگوں کو سمجھائیں گے کہ کورونا وائرس کیسے پھلتا ہے اور کیوں ناسک پہننا ضروری ہے؟ اور سوشل ڈسٹینسنگ کس چڑیا کا نام ہے؟ اور یہ کرنے سے لوگ خود بھی کورونا سے بچ سکتے ہیں اور دوسروں کو بھی بچا سکتے ہیں۔جب ملک میں کڑوڑوں نو جوان گھر میں بیٹھے روٹیاں توڑ رہے ہوں تو انہیں ایسے مواقع مل جائیں تو کتنا اچھا ہے۔ وہ بُرے کام کرنے جیسے عورتوں کے پرس چھیننے ، ڈاکہ زنی،اور موبائل چوری کرنے جیسی حرکات کا تو نہیں سوچیں گے؟ لیکن اب کچھ زیادہ دیر نہیں لگے گی کہ خبریں پھیلنا شروع ہونگی کہ کس طرح ٹائیگر فورس کے نوجوان نے غریب گھرانے والوں کو دھمکی دے کر پیسے بٹور لیے۔ یا ان کو خوب منافع لیکر ماسک بیچنا شروع کر دیے۔ وغیرہ۔ اس کی وجہ ظاہر ہے۔کہ پاکستان میں سرکار سے جڑا کوئی شخص اوپر کی آمدنی کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ٹایگر فورس کی نیت پر شبہ کرنا تو زیادتی ہو گی۔ وہ بے چارے تو صرف قومی بھلائی کے لیے میدان میں اترے ہیں، لیکن یا د رکھنا چاہیے کہ وہ بھی گوشت پوست کے انسان ہیں۔ ان کی ضروریات ہیں۔ ان پر معاشرہ کا دباؤ بھی ہو گا۔ بہت جلدی یار لوگ ان کو سمجھا دیں گے کہ وہ اپنی رضاکارآنہ حیثیت سے کیسے فایدہ اٹھا سکتے ہیں۔میں معافی چاہتا ہوں۔ پاکستان کے حالات دیکھتے دیکھتے بہت قنوطی بن گیا ہوں۔

مجھے یقین ہے کہ خان صاحب نے ان امکانات پر غور کیا ہو گا او رانکے سد باب کا بھی سوچا ہو گا۔ مثلاً کہ ٹائیگروں کو اچھی کر کردگی پر کسی نہ کسی ترغیب کا بتایا گیا ہو گا، مثلاً اگر وہ کبھی سرکاری نوکری کے لیے عرضی دیں گے تو انہیں کتنے براؤنی پوائینٹ ملیں گے ۔ ان کو آمد ورفت کے لیے کتنا جیب خرچ دیا جائے گا۔اور کونسا حسن کارکردگی کا سرٹیفیکیٹ ملے گا، وغیرہ۔ اگر خان صاحب نے ان پہلووں پر غور نہیں کیا تو ہماری نا چیز کی رائے میں ضرور سوچنا چاہیے۔ پیشتر اس کے کہ رضا کارصاحبان خود اپنے لیے کوئی راہ نکالیں۔

پاکستان ابھی کورونا کے ابتدائی دور سے گذر رہا ہے۔ اگر پاکستان میں امریکہ والا حال ہوتو آبادی کے تناسب سے بارہ لاکھ ستاون ہزار کیسیز ہو سکتے ہیں اور اگر اموات کی شرح دو فیصد ہو تو یہ اموات پچیس ہزار پانچ سو سے بھی بڑھ سکتی ہیں۔ جو ابھی دو ہزار سے بھی کم ہیں۔لیکن یہ اتنی بھی خوفناک صورت حال نہیں ہو گی، کہ پریشانی ہو۔ کیونکہ کم از کم کاروبار تو چل رہے ہونگے۔ لوگ بھوکے تو نہیں مریں گے۔ ویسے بھی جینا مرنا تو اﷲ کے ہاتھ میں ہے۔ نا کوئی اپنے وقت سے پہلے مرے گا اور نہ بعد میں، اس لیے یہ بحث ہی بے کار ہے۔

راقم کو ایک خیال رہ رہ کر آتا ہے، کہ طب کے ماہرین دبا کر تحقیق کر رہے ہیں، لیکن جو ماہرین معاشرتی علوم ہیں وہ معلوم نہیں کیا کر رہے ہیں؟ کیا ان کو قابل تحقیق کچھ نظر نہیں آتا؟ پاکستان میں دو سو یونیورسٹیز ہیں اور تقریباًان سب میں معاشرتی علوم پڑھائے جاتے ہیں، اور پی ایچ ڈی پروفیسر صاحبان ہی یہ علوم پڑھاتے ہیں۔ اور پی ایچ ڈی ہو نے کا مطلب اگر ہم صحیح سمجھتے ہیں تو وہ یہ ہے کہ اس ڈگری کے حامل کو معاشرتی تحقیق کا سائینٹفک طریقہ بخوبی آتا ہے ایسے کہ وہ طلباء کو اس کی تربیت دینے کے پورے اہل ہوتے ہیں۔لیکن یہ سینکڑوں پی ایچ ڈی اب تک کیوں امریکہ اور انڈیا کی درسی کتابیں پڑھا رہے ہیں؟ اور پاکستانیوں کو پاکستانی معاشرتی تحقیق پر مبنی درسی کتابیں کیوں نہیں پڑھاتے؟

یہ سوال ہمارے ذہن میں ا س لیے پیدا ہو رہے ہیں کہ آج کل جو ہمارے عوا م کا حال ہے کہ باوجود حکومت کے اعلانات کے، میڈیا پر بار بار پیغامات دیکھنے کے، ان کے سر پر جوں تک نہیں رینگتی اور وہ SOP کا بالکل خیال نہیں رکھتے۔ نہ ماسک پہنتے ہیں اور نہ سماجی فاصلہ رکھتے ہیں۔ اور صابن سے ہاتھ دھونے کا کوئی پتہ نہیں۔اس کی کیا وجہ ہے؟ کیا لا علمی ہے؟ کیا محض بے اعتنائی ہے؟ عقل و شعور کی کمی ہے؟ حکام پر بے اعتباری ہے؟ معاملے کی سنگینی کا احساس نہیں ہے؟ یا طبعیت باغیانہ ہے؟ کوئی نفسیاتی مسئلہ ہے؟ یا سماجی دباؤ ہے؟ کیا ہے؟ یہاں فلوریڈا میں دیکھتا ہوں کہ جس سٹور کے باہر لکھا ہے کہ ماسک پہن کر اندر آئیں تو مجال ہے کوئی بغیر ماسک کے دوکان میں گھُس جائے۔پاکستان سے جو وڈیو آتی ہیں تو بازار کھچا کھچ بھرے اور لوگ بغیر ماسک کے ایسے گھوم رہے ہوتے ہیں کہ وباء کا خطرہ ٹل گیا ہے اور ویسے بھی شاید سمجھتے ہیں کہ ماسک پہننا مردانگی کی توہین ہے۔

سوال یہ ہے کہ اگر ہماری یونیورسٹیز کے معاشرتی علوم کے اساتذہ آبادی کے ان رویوں کا مطالعہ نہیں کریں گے تو حکام اعلیٰ کو SOP پر عمل کروانے میں کیسے مدد ملے گی؟عوام کی اقدار، ان کے نفسیاتی رحجانات، دیگر خیالات اور توہمات کے بارے میں جانے بغیر اندھے کی لاٹھی چلاتے رہیں گے کہ شاید کسی کو لگ جائے تو وہ انسان بن جائے۔یہ مطالعہ کتنا مشکل ہے؟ اگر یہ نہیں ہو رہا ہے تو ہمارا مشورہ ہے کہ ایک لیڈر یونیورسٹی جیسے قاید اعظم یونیورسٹی اسلام آباد، پنجاب یونیورسٹی لاہور اور یا کراچی یونیورسٹی میں سے کوئی ایک پیشقدمی کرے اور ہر صوبہ سے کم از کم ایک یونیورسٹی کے ساتھ مل کر مشترکہ تحقیق کا منصوبہ بنائے۔ اور اس پر عمل درآمد کرے۔یہ جائزہ سالوں میں نہیں، ایک دو مہینوں میں مکمل کیا جا سکتا ہے۔ اگر ضرورت پڑے تو ٹائیگر فورس کو بطور انٹرویور کے شریک کیا جا سکتا ہے۔یا معاشرتی علوم کے طلباء کو جو رضاکارانہ خدمات دینا چاہیں یا کورس کے لازمی حصے کے حصول کی خاطر شامل ہونا چاہیں۔ اگر کوئی یونیورسٹی اس کام کو قومی ضرورت سمجھ کر نہیں کرنا چاہے تو دفاقی حکومت کو اس جائزہ کے ٹنڈر جاری کرنے چاہییں، تا کہ پیسوں کے لالچ میں یونیورسٹیاں جاگ جائیں۔

اور جہاں تک ٹائیگر فورس کا تعلق ہے ان کو آگاہی پھیلانے کے طریقوں پر تربیت دینی چاہیے، اس کے لیے ہر ضلع میں خوابیدہ ہیلتھ ایجوکیٹرز یا کاؤنسلرزکو استعمال کرنا چاہیے۔ کیونکہ یہ کام اتنا آسان نہیں جتنا کہ حکومت سمجھتی ہے۔ٹائیگرزکے ہاتھ میں بانٹنے کے لیے معلوماتی کتابچے یا ایک صفحہ کے دستی اشتہارہو نے چاہییں۔ اس کے علاوہ اگر میگافون ہوں تو وہ گنجان آبادیوں میں عوام کو متوجہ کر کے اپنا پیغام دے سکتے ہیں۔یا کسی ڈھول بجانے والے کے ساتھ مل کر یہی کام کر سکتے ہیں۔ اور پیغام میں ماسک پہننے اور سماجی فاصلہ کی وجہ پر پوری معلومات دینی چاہییں۔ اور عمل نہ کرنے کے نقصانات کو واضح طور پر سمجھانا چاہیے۔

راقم کو امید ہے کہ حکومت نے پہلے ہی ان ہدایات پر عمل کا سوچا ہو گا۔ ہمارے مشوروں کی ان کو ضرورت نہیں ہو گی۔صرف معاشرتی تحقیق کے بارے میں غالباً حکومت نہیں سوچ رہی ہے۔یہ بہت ضروری ہے۔ اس کے بہت سے فواید ہو سکتے ہیں۔یہاں یہ ذکر کرنا بھی سود مند ہو گا کہ امریکہ میں نفسیات کے علم کا ماخذ در اصل فوج کی ضروریات سے ہوا تھا، کیونکہ فوجی قایدین سپاہیوں کی نفسیات سمجھنا چاہتے تھے جسکی روشنی میں وہ فوجیوں کی تربیت کا منصوبہ بناتے تھے۔اور اس طرح جب بہت تحقیق کی گئی تو نفسیات کا علم ظہور پذیر ہوا۔پاکستان کو اپنے عوام کی نفسیاتی اور شعوری صلاحیتوں کا اندازہ لگانا ہے تو اسے اپنی تحقیق خود کرنی پڑے گی اور امریکی درسی کتابوں سے صرف تحقیق کا طریق کار سیکھا جا سکتا ہے، ان کی تحقیق کے نتایج ہمارے لیے بیکار بلکہ گمراہ کن بھی ہو سکتے ہیں۔
 

Javed Sajjad Ahmed
About the Author: Javed Sajjad Ahmed Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.