کُرونا وائرس کے انتشار کے سبب شاید پہلی مرتبہ اس طرح
دنیا بھر میں مساجد اور دیگر مذہبی مقامات ایک طویل عرصے تک معمول کے خلاف
بند رہے، جو بعض شرطوں کے ساتھ دھیرے دھیرے کھلنے لگے ہیں۔اللہ تعالیٰ جلد
اس بلا و وبا کا مکمل خاتمہ فرمائے اور ہم سب کی مکمل حفاظت فرمائے۔
(آمین)
جن مقامات پر مسجدوں میں با جماعت نماز کی مشروط اجازت دی گئی ہے، وہاں کئی
ہدایات بھی جاری کی گئی ہیں۔ من جملہ ان کے یہ بھی ہے کہ نمازی وضو اپنے
گھر سے کر کے آئیں اور اجتماع کا وقفہ کم سے کم ہو۔ اس ہدایت پر ضرور عمل
کریں، تاکہ مسجدوں کی بحالی میں کوئی رکاوٹ نہ آئے، بلکہ بہتر یہ ہے کہ
ہمیشہ ہی وضو اپنے گھر سے کر کے آنے اور فرضوں سے پہلے اور بعد کی سنن و
نفل نمازیں اپنے گھر میں ادا کرنے کا معمول بنایا جائے۔ شریعت میں یہی اصل
اور پسندیدہ ہے اور اس کی بہت فضیلت احادیثِ شریفہ میں وارد ہوئی ہے۔
گھر سے وضو کرکے مسجد آنا
جس کے لیے ممکن ہو وہ ہمیشہ ہی اپنے گھر سے وضو کرکے مسجد میں آئے۔فی
زماننا مسجدوں میں وضو اور استنجا خانے بنانے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ
آبادی اور شہروں میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ بہت سے لوگ اپنے مکانات سے دور
دراز مقامات پر معاش کی تلاش میں رہنے لگے۔ ایسے حضرات اور مسافروںکے پیشِ
نظر مسجد سے متصل بشری تقاضوں کو پورا کرنے والی سہولیات فراہم کی جانے
لگیں۔ ورنہ حقیقت وہی ہے جو فقیہ الامت حضرت مفتی محمود حسن گنگوہیؒ نے
تحریر فرمائی ہے کہ حضرت نبی اکرمﷺ کے مبارک وقت میںمسجدمیں نالی،لوٹا،
حوض، کنواں، نل، پانی، غسل خانہ،کھڑکی،پنکھا،بجلی وغیرہ کسی چیزکاانتظام
نہیںتھا۔ مسجدکی چھت بھی ایسی تھی کہ دھوپ بھی، بارش بھی اس میںکوآتی
تھی۔غرض بہت سادہ جگہ تھی،اس پردری اورچٹائی بھی نہیںتھی،یہ سب چیزیں
آہستہ آہستہ مسجدسے متعلق کی جاتی رہی ہیں؛حتی کہ بعض علاقوں میںمہمان
خانہ بھی مسجدسے متعلق ہوتاہے، وہاںبسترے رہتے ہیں،امام اورمؤذن کے رہنے
کے لیے کمرہ بھی ہوتاہے، بعض جگہ مدرسہ بھی ہوتاہے،جس میںبچے تعلیم پاتے
ہیں، بعض جگہ پیشاب خانہ اوربیت الخلا بھی نمازیوں کی سہولت کے لیے ہو تا
ہے،خاص کر بڑے شہروںمیں،جہاںبہ کثرت باہرکے آدمی زیادہ آتے ہوں، اگرضرورت
رفع کرنے کی جگہ وہاں نہ ہوتوان کوبڑی دشواری ہوتی ہے،اگرباہر کے آدمی
زیادہ نہ آتے ہوں بلکہ عامۃًمقامی آدمی نمازپڑھتے ہوں،جن کواللہ نے گھر
دیا ہے اور وہاں سب ضرورت کی چیزیں موجودہیں، توپھرمحض شان وشوکت دکھانے کے
لیے ایسی چیزیں مسجدسے متعلق جگہ میں نہ بنائی جائیں۔[فتاویٰ محمودیہ]یہ
بھی ذہن نشین رہے کہ مسجد میں آکر وقف کے پانی سے وضو کرنے میں بڑے احتیاط
کی ضرورت ہے،اس لیے کہ مسجد اور مدرسے کے وقف پانی سے (اعضاے وضو کو) تین
بار سے زیادہ دھونا حرام ہے۔[احسن الفتاویٰ]
ہرقدم پر ایک نیکی اور ایک گناہ کی معافی
حضرت نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جماعت کے ساتھ نماز، گھر اور بازار میں
پڑھی جانے والی نماز سے پچیس درجے زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔جب کوئی شخص اچھی
طرح وضو کرکے مسجد میں صرف نماز ہی کے ارادے سے آئے تو مسجد میں پہنچنے تک
وہ جو قدم بھی اٹھاتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے ہر قدم پر اُس کا ایک درجہ
بلند کرتا ہے اور ایک گناہ مٹا دیتا ہے۔عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ،
عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، قَالَ: صَلَاةُ الْجَمِيعِ تَزِيدُ
عَلَى صَلَاتِهِ فِي بَيْتِهِ، وَصَلَاتِهِ فِي سُوقِهِ خَمْسًا
وَعِشْرِينَ دَرَجَةً، فَإِنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا تَوَضَّأَ
فَأَحْسَنَ وَأَتَى الْمَسْجِدَ لَا يُرِيدُ إِلَّا الصَّلَاةَ،
لَمْ يَخْطُ خَطْوَةً إِلَّا رَفَعَهُ اللَّهُ بِهَا دَرَجَةً
وَحَطَّ عَنْهُ خَطِيئَةً حَتَّى يَدْخُلَ الْمَسْجِدَ، الخ.[بخاری، مسلم ]
ہرقدم پر دس نیکیوں کا ثواب
حضرت عُقبہ بن عامر جُہنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، حضرت نبی کریمﷺ نے
فرمایا:جب کوئی شخص وضو کرکے نماز کی نیت سے مسجد جائے تو نامۂ اعمال
لکھنے والے فرشتے اُس کے ہر اُس قدم پر جو وہ مسجد کی جانب اُٹھاتا ہے ، دس
نیکیاں لکھتے ہیں ، اور نماز کے اِرادے سے بیٹھنے والا بھی نماز میں کھڑے
ہونے والے کی طرح ہے، وہ اپنے گھر سے نکلنے سے لے کر واپس لوٹنے تک
نمازپڑھنے والوں میں لکھا جاتا ہے۔عن ابی عشانۃ انہ سمع عقبۃ بن عامر
الجھنی یحدث، عن رسول اللہ ﷺ انہ قال: إِذَا تَطَهَّرَ الرَّجُلُ ثُمَّ
مَرَّ إِلَى الْمَسْجِدِ يَرْعَى الصَّلَاةَ كَتَبَ لَهُ كَاتِبَاهُ
بِكُلِّ خُطْوَةٍ يَخْطُوهَا إِلَى الْمَسْجِدِ عَشْرَ حَسَنَاتٍ،
وَالْقَاعِدُ يَرْعَى الصَّلَاةَ كَالْقَانِتِ وَيُكْتَبُ مِنَ
الْمُصَلِّينَ مِنْ حِينَ يَخْرُجُ مِنْ بَيْتِهِ حَتَّى يَرْجِعَ۔[السنن
الکبریٰ للبیہقی]
اللہ تعالیٰ کی طرف سے اکرام
حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جو شخص وضو کرتا ہے اور خوب اچھی طرح
وضو کرتا ہےاور پھر نماز کے لیے مسجد آتا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کا
زائر(مہمان) ہوتا ہے، اور جس کی زیارت کی جائے اس پر یہ حق ہے کہ وہ اپنے
زائر (زیارت کے لیے آنے والے) کا اکرام کرے۔عَنْ سَلْمَانَ ، قَالَ : مَنْ
تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ الْوُضُوئَ، ثُمَّ أَتَی الْمَسْجِدَ لِیُصَلِّیَ
فِیہِ کَانَ زَائِرًا للہِ ، وَحَقٌّ عَلَی الْمَزُورِ أَنْ یُکْرِمَ
زَائِرَہُ۔ [مصنف ابن ابی شیبۃ]
وضو کرکے مسجد آنے والا نماز میں ہوتا ہے
حضرت ابو ثمامہ قماحؒ کہتے ہیں کہ مقام بلاط میں مَیں حضرت کعب رضی اللہ
عنہ سے ملا، میں نے اپنی انگلیوں کو ایک دوسری میں داخل کیا تو انھوں نے
میرے ہاتھ پر زور سے مارا اور فرمایا کہ ہمیں نماز میں انگلیاں چٹخانے سے
منع کیا گیا ہے! میں نے عرض کیا: اللہ تعالیٰ آپ پر رحم فرمائے! آپ کیا
مجھے نماز میں دیکھ رہے ہیں ؟ انھوں نے کہا: جو شخص وضو کرکے نماز کے ارادے
سے نکلتا ہے، وہ نماز میں ہوتا ہے۔عن أبی ثُمَامَۃَ الْقَمَّاحِ ، قَالَ:
لَقِیت کَعْبًا وَأَنَا بِالْبَلاَطِ قَدْ أَدْخَلْت بَعْضَ أَصَابِعِی
فِی بَعْضٍ ، فَضَرَبَ یَدِی ضَرْبًا شَدِیدًا ، وَقَالَ : نُھِینَا أَنْ
نُشَبِّکَ بَیْنَ أَصَابِعِنا فِی الصَّلاَۃ ، قَالَ : قُلْتُ لَہُ :
یَرْحَمُک اللہُ تَرَانِی فِی صَلاَۃٍ ؟ فَقَالَ : مَنْ تَوَضَّأَ
فَعَمَدَ إلَی الْمَسْجِدِ ، فَھُوَ فِی صَلاَۃٍ۔[مصنف ابن ابی شیبۃ]
فرضوں کے علاوہ نمازیں گھروں میں پڑھے
تراویح کی علاوہ سنت و نفل نمازیں- خواہ فرض سے پہلے اور بعد کی سنتیں ہوں-
اعلیٰ و افضل یہ ہے کہ اپنے مکان میں پڑھی جائیں، لیکن عام حالات میں اگر
سنتِ مؤکدہ فوت ہونے کا احتمال ہو تو مسجد میں پڑھنے کی گنجائش ہے۔اس
سلسلے میں متعدد احادیث وارد ہوئی ہیں۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم اپنے
اپنے گھروں میں نماز پڑھا کرو،اس لیے کہ فرض کے سوا دوسری نمازیں وہ بہتر
ہیں جو گھر میں پڑھی جائیں۔ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : فَعَلَيْكُمْ
بِالصَّلَاةِ فِي بُيُوتِكُمْ، فَإِنَّ خَيْرَ صَلَاةِ الْمَرْءِ فِي
بَيْتِهِ إِلَّا الصَّلَاةَ الْمَكْتُوبَةَ. [بخاری، اخرجہ مسلم]حضرت ابن
عمر ؆ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:کچھ نماز (فرضوں کے علاوہ)
اپنے گھروں میں ادا کیا کرو اور اپنے گھروں کو قبریں نہ بناؤ۔ عَنِ ابْنِ
عُمَرَ ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، قَالَ:اجْعَلُوا فِي
بُيُوتِكُمْ مِنْ صَلَاتِكُمْ، وَلَا تَتَّخِذُوهَا قُبُورًا.[بخاری،
اخرجہ مسلم]حضرت زید بن ثابت سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: فرض کے
علاوہ (سنن و نوافل) گھر میں پڑھنا،میری اس مسجد (نبوی) میں پڑھنے سے افضل
ہے۔ عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ،
قَالَ: صَلَاةُ الْمَرْءِ فِي بَيْتِهِ أَفْضَلُ مِنْ صَلَاتِهِ
فِي مَسْجِدِي هَذَا إِلَّا الْمَكْتُوبَةَ.[ابوداود]
فتاویٰ شامی میں ہے: فی الدر المختار: و الافضل فی النفل غیر التراویح
المنزل الا لخوف شغل عنھا، والاصح افضلیۃ ما کان اخشع و اخلص۔ وقال الشامی:
و حیث کان ھذا افضل یراعی ما لم یلزم منہ خوف شغل عنھا لو ذھب لبیتہ، او
کان فی بیتہ ما یشغل بالہ و یقلل خشوعہ فیصلیھا حینئذ فی المسجد۔ [شامی]اس
سے بھی معلوم ہوا کہ سنن و نوافل گھر میں پڑھنا افضل ہے، جب کہ کوئی عارض
نہ ہو، اور فی زماننا تو مسجد میں پڑھنے میں عارض ہے۔ ٭ (مضمون نگار الفلاح
اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا کے ڈیرکٹر ہیں)
|