ڈاکٹر بی آر امبیڈکر نے آئین ساز اسمبلی کے اختتامی تقریر
میں کہا تھا، "میں سمجھتا ہوں کہ کوئی آئین جتنا بھی اچھا ہو، برا ثابت
ہوسکتا ہے ، اگر اس پر عمل کرنے والے لوگ برے ہیں۔اور آئین برا ہوتو وہ
اچھا ثابت ہوسکتا ہے اگر اس کی پیروی کرنے والے لوگ اچھے ہوں ۔ "
ہم خیال کرتے ہیں کہ بابا صاحب کے ان الفاظ کو بار بار پڑھنے اور سمجھنے کی
ضرورت ہے،
جمہوریت کیا ہے؟ اسے کس طرح دیکھا جانا چاہیے؟
آزادی کا بے حد آسان اور سیدھا سا مطلب ہے، ڈیموکریسی کے دور میں لوگوں کا
حکومت پر یقین ہونا لیکن اگر اسی جمہوریت میں لوگوں کی آواز دبا دی جائے تو
اسے قتل و غارت سمجھا جائے گا-
گزشتہ دنوں دنیا نے بھارت میں سی اے اے ، این آر سی کے خلاف ایک بہت بڑی
اور عملی تحریک کا مشاہدہ کیا ، جس کی حرارت ابھی تک سرد نہیں ہوئی ہے۔
شہریت ترمیمی قانون کو لیکر چھڑی اس بحث نے پوری دنیا کے لوگوں کو جو
مساوات ، جمہوریت اور انصاف پر یقین رکھنے والے ہیں انہیں ہندوستانی تحریک
کی طرف راغب کیا، اگر ہم ہندوستان کے تناظر میں شہریت ترمیمی قانون کے بارے
میں بات کریں تو ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 5 آرٹیکل 11 قوانین پر بناۓ گۓ
ہیں، آرٹیکل 5 سے 10 شہریت کے لئے اہلیت کی وضاحت کرتی ہے ، اور آرٹیکل 11
پارلیمنٹ کو شہریت کے معاملات میں قانون سازی کرنے کا اختیار دیتا ہے۔
اسی حق کو استعمال کرتے ہوئے ، بی جے پی نے اقتدار میں اپنی دوسری اننگز
شروع کرتے ہی شہریت ترمیمی قانون پاس کیا، پڑوسی ممالک پاکستان ، افغانستان
، بنگلہ دیش کے لوگوں کو ہندوستانی شہریت دینے کے لئے نیا قانون بنایا گیا!
لیکن مسلمانوں کو اس دائرے سے خارج کرکےاس قانون کومتنازعہ بنا دیا گیا۔ ،
مطلب یہ کہ پڑوسی ملک کے تمام مذاہب کے لوگ اگر وہ مسلمان نہیں ہیں
ہندوستانی شہریت حاصل کرسکتے ہیں،یہ واضح کرتا ہے کہ اس طرح سے یہ قانون
براہ راست ہندوستان کے سیکولر ڈھانچے پرحملہ ہے ،
یہ مساوات کے حق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ متنازعہ این آر سی کو اس قانون کے
ساتھ لاکر ، حکومت نے نہ صرف مسلم معاشرے میں دوسرے درجے کا شہری ہونے کے
احساس کو فروغ دیا بلکہ مخصوص برادری کے ذہنوں میں اگر وہ این آر سی سے
خارج ہوجاتے تو ان کے مستقبل کے بارے میں بھی خوف پیدا کیا اگر وہ این آر
سی سے باہر ہو گئے تو انہیں ملک سے نکال کر ڈیٹینشن سینٹر بھیج دیا جائے
گا،
پورے ہندوستان میں سی اے اے کے خلاف اتنی بڑی تحریک کی بنیاد تیار کی
گئی،یہ تحریک صرف خاص برادری کے خوف سے نہیں اٹھی بلکہ مساوات،انصاف ،
بھائی چارہ اور آئین پر یقین رکھنے والوں کی آوازوں نے اسے مزید مضبوط کیا،
یہ آئین کو بچانے کے لئے ایک لڑائی تھی ، جہاں شہریت ترمیمی قانون کے ذریعے
مساوات کا حق چھین کر آئین کو لہو لہان کیا جارہا ہے،
اس تحریک میں، شاہین باغ ، دہلی کی خواتین احتجاج کی ایک طاقتور آواز بن
گئیں، اور شاہین باغ کے طرز پر ملک میں جگہ جگہ کئ شاہین باغ بن گۓ، جہاں
مسلم خواتین نے احتجاج اور انقلاب کا پرچم اٹھایا۔ مسلم خواتین نے ایک ایسی
آواز اٹھائی جس کی گونج پوری دنیا میں سنائی دی،اور حکومت کے ذریعہ لائے
جانے والے اس امتیازی قانون کی وجہ پڑوسی ممالک کی مذمت کے ساتھ ساتھ پوری
دنیا میں ہندوستان کی شبیہہ خراب ہوئی، یہ تاریخی تحریک خواتین کی ایک
مضبوط آواز کے طور پر ابھری
"پوری دنیا میں مساوات اور جمہوریت پر یقین رکھنے والے افراد نے ہندوستان
کے تحریک کارکنوں کی حمایت کی"
لیکن یہ بدقسمتی کی بات تھی کہ کورونا کی وبا نے اس تحریک کی اٹھنے والی
آوازوں کو ساکت کر دیا اور پوری دنیا کی طرح ، بھارت نے بھی اس تباہی سے
نمٹنے کے لئے گھر بندی کا سہارا لیا ، اس کا نتیجہ 3 ماہ پولیس کے مظالم ،
سرکاری جبر وتشدد کو جھیلنے والی اس تحریک کی آواز ٹھنڈی ہوگئی،
لیکن یاد رکھیں کہ ہماری حکومت موقع، تباہی میں بدلنے کی ہنر رکھتی ہے ،
اور اسی ہنر کو آزماتے ہوئے حکومت اس وبا سے نمٹنے کے بجائے انتہائی شرمناک
انداز میں سی اے اے کی تحریک میں سرگرم رہے مظاہرین کو ایک ایک کرکے گرفتار
کرنا شروع کردیا ۔ خاص طور پر مسلم کارکنوں کو گرفتار کرکے حکومت نے غیر
انسانی سلوک کی تمام حدیں عبور کرتے ہوئے دہلی جامعہ سے تعلق رکھنے والی
طالبہ صفورا زرگر کو بطور ملزم گرفتار کر لیا ، خیال رہے کہ صفورا 6 ماہ کی
حاملہ ہے،اس حکم میں نہ صرف صفورا بلکہ سی اے اے کی اس تحریک میں ، ڈاکٹر
کفیل ، شرجیل امام ، خالد سیفی ، میران حیدر ، آصف تنہا ، گلفشاں ، اے ایم
یو کیبنٹ ممبر فرحان زبیری ، اے ایم یو کے سابق طالب علم عامر منٹو وغیرہ
پر بھی مختلف طریقوں سے الزام عائد کرکے گرفتار کیا گیا،
یہ سارے لوگ ہندوستان کے سیکولر امیج کے تحفظ کے لئے لڑ رہے تھے ، تمام لوگ
آئین کی جنگ لڑ رہے تھے۔ جمہوریت میں ہونے کے ناطے ہونا تو یہ چاہیے تھا ان
لوگوں کا احترام کیا جائے جو نظریاتی اختلاف رائے رکھتے ہیں اور ناانصافی
کے خلاف بھرپور جدوجہد کرتے ہیں ، لیکن ایسا ہوا نہیں، سرکاری مشینری نے
بھی مجرموں کی طرح ان کا شکار کیا اور جمہوریت کے لیے احتجاج کرنے والوں کی
آوازوں کو کچل دیا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ تباہی کے اس دور میں حکومت کو
اس وبا سے نمٹنے پر پوری توجہ دینی چاہئے تھی اور سی اے اے جیسے قانون کے
ایکٹ کو مسترد کرنا چاہئے تھا یا اس کے تحت اقلیتوں کا اعتماد حاصل کرنا
چاہئے تھا،
لیکن ہوا اس کے برعکس!
کیا ہم صفورا زرگر آنے والے بچے کا سامنا کرسکیں گے؟ کیا ہم صفورا کے بچے
کے ساتھ آنے والی نسل کو یہ سمجھا سکیں گے کہ جمہوریت کیا ہے اور اس کا اصل
معنی کیا ہے ؟؟؟
ہماری حکومت نے مظلوم کی آواز کو ظلم کے ساتھ کچل دیا ، جمہوریت کا مذاق
بنا ڈالا، ہمیں کس لائق چھوڑا؟ ہم اپنی آنے والی نسل کو دینے کے لئے
جمہوریت کی صحت مند مثالیں کہاں سے لائیں گے یا ہم ان جیلوں میں ان کا دورہ
کریں گے؟ جہاں ان سارے کارکنوں کو سڑایا جا رہا ہے؟
آج کے دور میں ، بی آر امبیڈکر کے الفاظ ایک بار پھر یاد کیجئے اور ان
سوالوں کے جواب تلاش کیجئے اس سے پہلے بہت دیر ہو جائے .......
|