سرحدی تنازع پر ماہرین کا یہ دعویٰ کررہےہیں کہچین کے دس
سے بارہ ہزار فوجی تقریباً ساٹھ کلومیٹر ہندوستان کےاندرآچکے ہیں۔ حکومت
چونکہ اس کی ترید نہیں کررہی ہے اس لیے ان پر یقین کرنا عوام کی مجبوری ہے۔
اس سنگین صورتحال کے درمیان ایک چینی کمپنی کو دہلی سے میرٹھ کے بیچ ساڑھے
پانچ کلومیٹر طویل سرنگ کا ٹھیکہ ایک دے دیا جانا چین کے معاملے میں سنگھ
پریوار کے مہا کنفیوژن کاجیتا جاگتا ثبوت ہے۔ایک طرف پردھان سیوک خود
انحصاری کا راگ الاپتے ہیں۔ دوسری جانب سودیشی جاگرن منچ چینی اشیاء کے
بائیکاٹ کا نعرہ لگاتا ہے اور تیسری طرف چینی کمپنی شنگھائی ٹنل انجنیرنگ
کارپوریشن کو بارہ ہزار سولہ کروڈ کا ٹھیکے سے نواز د دیا جاتا ہے۔ ایسا
بھی نہیں ہے کہ اس کام میں ہندوستانی کمپنیوں کو مہارت حاصل نہیں ہے،
کیونکہ جن ۵ لوگوں نے ٹینڈر بھرے تھے ان میں سے ۳ ہندوستانی کمپنیاں تھیں ۔
چینی ٹنل کارپوریشن اور امبانی کی ایل اینڈ ٹی کے درمیان صرف ۳۵ کروڈ کا
فرق تھا ۔ اس کے علاوہ ٹاٹا پروجکٹس اور افکون بھی میدان میں تھے ۔ کوئی
غیرت مند حکومت ہوتی تو چینی کمپنی کے ٹنڈر کو مسترد کرکے ان کی حکومت کو
خبردار کرتی کہ ہم ان کی در اندازی سے ناراض ہیں لیکن یہ ٹھیکہ دے کر ہم نے
یہ پیغام دیا کہ ایسی بات نہیں ۔‘ سب چنگا سی‘۔
چین کے معاملے میں موجودہ سرکار کی حالت ’کہا بھی نہ جائے اور سہا بھی نہ
جائے‘ والےمریض کی سی ہوگئی ہے۔ اس کی کچھ مثالیں ملاحظہ فرمائیں ۔ بی جے
پی ترجمان اور سابق مرکزی وزیر راجیو پرتاپ روڈی آج تک چینل کے ایک مباحثے
میں کانگریس کے ترجمان رندیپ سنگھ سورجیوال سے اس لیے ناراض ہوگئے کہانہوں
نے چین کو غنڈہ کہہ دیا ۔بی جے پی رہنما اس سے قبل چین کے بارے میں نہ جانے
کیا کیا کہتے رہے ہیں۔ پاکستان کا نام آتے ہی اینکرس سمیت یہ سارے بھکت
آپے سے باہر ہوجاتے ہیں ایسے میں اگر کسی نے چین کی غنڈہ گردی پر لب کشائی
کردی تو ناراض ہوکر راہِ فرار اختیار کرلینا کہاں کی بہادری ہے؟ چین میں
جاکرلال آنکھ دکھانے والوں کو اپنے ملک کے اندر چین کو غنڈہ قرار دینے پر
پسینے چھوٹ جانا اور ان کا میدان چھوڑ کر بھاگ جانا بے حد شرمناک ہے۔
وزیر قانون شیو شنکر پرشاد بھیروڈی کے بہار سے آتے ہیں ۔ انہیں چین کے
معاملے میں راہل گاندھی پر دو اعتراضات ہیں۔ اول تو یہ ہے کہ راہل نے اس
نازک مسئلہ پر سوال اٹھانے کے لیے ٹوئیٹر جیسے عوامی پلیٹ فارم کا استعمال
کیوں کیا ؟ اس معاملے میں اگر راہل کے ذریعہٹوئیٹر کا استعمال غلط ہے تو
وزیر دفاع کا انہیں ٹوئیٹر ہی پر ترکی بہ ترکی جواب دینا کیسے درست ہوگیا؟
راہل گاندھی نے لکھا تھا ’’سب کو معلوم ہے سیما کی حقیقت لیکن - دل کے خوش
رکھنے کو شاہ ید یہ خیال اچھا ہے‘‘۔ اس کے جواب میں راج ناتھ سنگھ نے
کانگریس کے انتخابی نشان ہاتھ کو نشانہ بناتے ہوئے ٹوئٹ کیا کہ ’’ہاتھ‘‘میں
درد ہو تو دوا کیجئے، ’ہاتھ‘ ہی جب درد ہو تو کیا کیجئے۔‘‘ راجناتھ سنگھ کے
علاوہ نائب وزیر داخلہ نے بھی راہل کے ٹویٹ جواب دیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے
کہ اگر اس بین الاقوامی مسئلہ پر راہل گاندھی نے بے احتیاطی کی ہے تو ان
لوگوں نے خود کو قابو میں کیوں نہیں رکھا؟
شیوشنکر پرشاد کا دوسرا اعتراض یہ ہے کہ راہل گاندھی نے ائیر اسٹرائیک پر
ثبوت کیوں مانگا تھا؟ اس کی وجہ یہ تھی کہ عالمی ذرائع ابلاغ اس حملے کی
تردید کررہا تھا۔ اس کا منہ بند کرنے کے لیے سرکاری دعویٰ اور قومی میڈیا
کا شور شرابہ کافی نہیں تھا بلکہ ثبوت کی ضرورت تھی۔ حکومت ہندثبوت دینے کے
بجائے الٹا راہل کو کٹہرے میں کھڑا کر رہی ہے ۔ وزیر قانون تو راہل گاندھی
کا جواب نہیں دے سکے مگر لداخ سے بھارتیہ جنتا پارٹی کے رکن پارلیمان جام
یانگ زیرینگ نامگیال نے اس کا منہ توڑ جواب دیا۔ وہ جواب بھی چونکہ ٹوئیٹر
پر دیا گیا تھا اس لیے روی شنکر پرشاد کے مطابق راہل والی غلطی نامگیال سے
بھی سرزد ہوئی۔ انہوں نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا ”ہاں! چین نے درج ذیل معلومات
کے مطابق بھارت کے علاقوں پر قبضہ کیا ہے۔ اس کے بعد وہ انہوں نے کانگریس
کے دور میں ہونے والی چینی دراندازی کی تفصیل بیان کردی ۔
نامگیا ل نے لکھا : 1962میں اکسائی چن (37244مربع کلومیٹر)، متحدہ ترقی
پسند اتحاد حکومت میں 2008کے اندر چومار علاقے میں ٹیا پانگ ناک اور چابزی
وادی (250میٹر)۔ یو پی اے حکومت کے دوران 2008میں زورآور قلعہ کو تباہ کیا
گیا اور 2012میں پی ایل اے کا آبزرونگ پوائنٹ قائم کیا گیا۔ا س کے علاوہ
13گھر وں پر مشتمل چینی کالونی بنائی گئی۔یو پی اے حکومت میں 2008-09 میں
ڈیمزوک اور ڈونگتی کے درمیان بھارت نے ڈوم چیلی (قدیم تجارتی پوائنٹ) گنوا
دیا۔“نامگیا ل نے اس کے ساتھ ہی ایک نقشہ بھی شیئر کیا ہے جس میں 2012 تک
کی کانگریس کی حکومت کے دوران بھارتی علاقوں پر چینی فوج کے قبضے کو دکھایا
اور لکھا ”میں امید کرتا ہوں کہ راہول گاندھی اور کانگریس حقائق پر مبنی
میرے جواب سے متفق ہوں گے اور امید ہے کہ وہ پھر گمراہ کرنے کی کوشش نہیں
کریں گے“۔
جام یانگ زیرینگ نامگیال کا یہ مفصل جواب قابلِ تعریف ہے لیکن اس سے پتہ
چلتا ہے چین کا ہندوستانی علاقوں پر قبضہ کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ یہ
ہوتا رہا ہے اور اسے ٹھنڈے پیٹوں حکومت ہند نے برداشت کیا ہے ۔نامگیال کو
پتہ ہونا چاہیے کہ سرکار کانگریس کی یا بی جے پی کی نہیں ہوتی بلکہ
ہندوستان کی حکومت ہوتی ہے۔ اس موقع پر وزیر داخلہ کا یہ بیان قابلِ توجہ
ہوجاتا ہے کہ اِس دوران حزب اختلاف نے کیا کیا؟ نامگیال نے جو رام کتھا مع
ثبوت سنائی اس عرصے میں بی جے پی ملک کے اندرحزب اختلاف کے طور پر موجود
تھی۔ ایسے میں امیت شاہ والا سوال بی جے پی سے بھی پوچھا جاسکتا ہے کہ جب
چین مسلسل دراندازی کررہا تھا تو وہ کیا کررہی تھی ؟ کیا کانگریس پارٹی نے
انہیں سرحد پر جاکر چینیوں کے ساتھ لڑنے سے روک دیا تھا؟ اس سوال کا جواب
اگر یہ ہے کہ بیچارہ حزب اختلاف پوچھنے کے علاوہ کیا کرسکتا ہے تو پھر اب
راہل پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے ۔
جام یانگ زیرینگ نامگیال حالانکہ نوجوان ہیں اور ان کا تعلق سنگھی شاکھا سے
نہیں اس کے باوجود انہوں نے وہی رویہ اختیار کیا جو برسوں سے زعفرانی ٹولے
کا امتیاز رہا ہے۔ یہ لوگ چین کا معاملہ آتے ہی 1962کی جنگ کو یاد کرتے اس
کو کانگریس کی یا پنڈت نہرو کی شکست قرار دیتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ وہ
ایک فرد یا جماعت کا نہیں ملک کا معاملہ تھا ۔ اس وقت کم از کم مقابلہ تو
کیا گیا تھا لیکن ڈوکلام میں اور اب تو اس جرأت کا مظاہرہ بھی نہیں کیا
گیا۔ اس کے علاوہ 1967 میں اندرا گاندھی کے زمانے میں اور 1987 میں جب
راجیو گاندھی وزیر اعظم تھے تو ہندوستانی فوجوں نے چینی جارحیت کا اچھا
مقابلہ کیا۔ حکومت وقت یہ توکہہ سکتی کہ جب ان کی جماعت اپوزیشن میں تھی
کچھ نہیں کرسکی لیکن اقتدار میں آنے کے بعد حالت بدل جاتی ہے۔ حکومت کے
پاس سارے وسائل اور اختیارات ہوتے ہیں اس لیے وہ جوابدہ ہوتی ہے۔ یہ تو
نہیں ہوسکتا کہ ہر دو صورت میں اپنی کارکردگی بتانے کے بجائے حزب اختلاف سے
ہی یہ پوچھا جائے کہ اس نے کیا کیا؟
ہمارے ملک کا ایک المیہ یہ ہے کہ یہاں پر سنگھ پریوار کے علاوہ نہ جانے
کتنی خود ساختہ دیش بھکت ہندو سینائیں پھل پھول رہی تھی ۔ ان کے ہتھیار بند
تربیت کی تصاویر شائع ہوتی رہتی ہیں۔ ان کے پاس اسلحہ وغیرہ پکڑا بھی جاتا
ہے۔ یہ لوگ وقتاً فوقتاً اشتعال انگیز بیانات دیتے رہتے ہیں اور اپنے ہی
سماج کے غریب اور مسکین لوگوں کو مظالم کا نشانہ بناتے رہتے ہیں لیکن جب
چین حملہ کرتا ہے تو دم ُ دبا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ پاکستان کے خلاف جس طرح کے
بیانات یہ لوگ وقت بے وقت دیتے رہتے ہیں چین کے خلاف وہ اس کی ہمت بھی نہیں
جٹا پاتے ۔ چین کا معاملہ یہ ہے کہ وہ ہندوستانی سرکار کی مانند پٹرول کا
بھاو ابتداء میں ۴ روپیہ بڑھا دیتی ہے اور آگے چل کر ایک روپیہ کم کرکے
عوام کو خوش کردیتی ہے۔ چین کو ایک وقت میں جتنا آگے آنا ہوتا ہے اس سے
زیادہ آجاتا ہے اور پھر کچھ دور پیچھے لوٹ کر ہمیں خوش کردیتا ہے لیکن پھر
اس مقام پر کبھی نہیں جاتا جہاں پر پہلے تھا ۔ اس علاقہ کو واپس لینے میں
جس طرح نہرو اور اندرا گاندھی ناکام ہیں اسی طرح اٹل اور مودی بھی کامیاب
نہیں ہو سکے۔
|