نگاہِ ولّی میں وہ تاثیر دیکھی، بدلتی ہزاروں کی تقدیر دیکھی

یہ واقعہ جو میں تحریر کرنے جا رہا ہوں یہ خود میرے ساتھ پیش آیا جس نے میری دنیا بدل ڈالی۔

اُس وقت میری عُمر تقریباً سولہ سترہ سال کی تھی ، یہ عمر ایسی ہوتی ہے جس میں انسان بڑے بڑے خواب دیکھتا ہے کچھ کر گزرنے کا جذبہ دن رات دل کو بے چین کیئے رہتا ہے، چاہے دنیا اُس کو بُرا کہے یا بھلا ، بندہ اپنے دل کو ہتھیلی پر سجا کر راستے میں بیٹھا رہتا ہے کہ کوئی آئے اور اسے لے جائے کہ یہ کسی کے قدموں پر نچھاور ہونے کے لیے بیقرار ہے، فلمیں دیکھنا اور اپنے آپ کو فلم کا ہیرو سمجھنا ،رات گئے تک دوستوں کے ساتھ آوارہ گردی کرنا وغیرہ وغیرہ،یہی مشاغل ہوتے ہیں جو دل کو بھلے لگتے ہیں۔

ایسی ہی ایک رات کا ذکر ہے کہ ہم چار دوست گھومتے گھامتے بستی نور پورہ کی طرف نکل گئے جو چشتیاں منڈی کے شمال مغرب میں واقع ہے کہ ادھر سے طبلے کی تھاپ کی آواز ہمیں اپنی طرف کھینچ رہی تھی، قریب جا کر دیکھا تو ایک گھر کے کھلے صحن میں قوالی کی محفل ہو رہی تھی،ایک دائرے میں سامعین بیٹھے تھے ٹھیک قوالوں کے سامنے دائرے کے دوسری طرف گدی پر ایک باریش بزرگ تشریف فرما تھے جن کے پیچھے دیوار پر ایک بینر لٹک رہا تھا جس پر لکھا تھا، محفلِ سماع بسلسلہ عالیہ قادریہ، چشتیہ، شکوریہ، جہانگیریہ ،ابواعلائی،نیچے ” پیر عبدالرشیددام برکاتہ“ جلی حروف میں لکھا نظر آ رہا تھا۔

مجھے قوالی سننے کا بچپن سے ہی شوق تھا کہ جب کبھی ریڈیو میں قوالی کا پروگرام ہوتا تو سب کام چھوڑ کر قوالی سننے بیٹھ جاتا اور یہاں تو آمنے سامنے بیٹھ کر سننے کا موقع ملا تھا سو ہم سب دوست بھی دائرے کے پیچھے بیٹھ کر سننے لگے مگر مجھے دائرے میں بیٹھے ہوئے مریدان کا بار بار اُٹھ کر مست ہو کر وجد میں گھومنا اور ادھر اُدھر گرنا پڑنا ڈسٹرب کر رہا تھا قوالی کا ایک بول پڑھنے کے ساتھ ساتھ پورا مجمع اُٹھ کر جھومنا شروع کر دیتا ، پیر صاحب کو بھی گدی پر کھڑے ہو جانا پڑتا۔

ایک دو کلام مشکل سے سنے اور میں نے اپنے دوست نذیر سے کہا ’چلو یار یہ تو پکھنڈ بازی ہے نہ خود آرام سے سنتے ہیں نہ دوسروں کوسننے دیتے ہیں ، بس ڈھول بجتا ہے اور ناچنا شروع کر دیتے ہیں یہ کہہ کر ہم لوگ وہاں سے واپس چلے آئے۔

دوسرے دن صبح میں بستی نور پورہ کے تھوڑا آگے نہر کے کنارے سیر کی غرض سے گیا تو سامنے سے پیر عبدالرشید صاحب قبلہ کو آتے دیکھا ، ایک پل کے لیے میری آنکھیں اُٹھیں مگر آپ سرکار کی نظروں کی تاب نہ لا کر خود بخود جھک گئیں بغیر کوئی بات چیت کیے ہم لوگ اپنے اپنے راستے پر ہو لیے۔

واپس گھر آیا تو دل میں ایک ہلچل مچی تھی ایک عجیب سی بے چینی جس کو لفظوں میں بیان کرنا بہت ہی مشکل ہے ، میں اُسی وقت اپنے سب سے اچھے دوست نذیر کے پاس گیا اُس کو اپنی اس اضطراری کیفیت کے بارے میں بتایا اور ساتھ ہی پیر صاحب قبلہ کے ہاتھ پر بیت ہونے کا ارادہ بھی ظاہر کیا تو وہ ہنس کر کہنے لگا ”یار کیوں مذاق کرتے ہو ابھی رات ہی کو تو تم اُنکے مریدوں کو پاکھنڈی کہہ رہے تھے اور اب اُنہی میں شامل ہونے جا رہے ہو ؟

میں نے ذرا جھینپتے ہوئے کہا ،جو بھی ہو یار مجھے بس تم آج ہی وہاں لے چلو !!

اور شام کو ہم لوگ مٹھائی کا ڈبہ اور ایک رومال لے کر حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ سرکار نے خوشدلی سے مجھے بیت فرمایا اور ذکر کی تعلیم اور نماز کی پابندی کے ساتھ ساتھ یہ بھی فرما یا ، بھئی ایسے ہی لوگوں نے پیروں کو بدنام کر رکھا ہے کوئی کہتا ہے ان کے پاس جانے سے دولت ملتی ہے کوئی اولاد کے لیے آتا ہے مگر ہمارے پاس جو بھی آتا ہے اُسے ہم وہ راستہ بتا دیتے ہیں جس پر چل کر اللہ اور اُسکے رسولﷺ کی پہچان ہو سکے ، اب اس میں بھی بہت ساری منزلیں ہیں جیسے پہلی جماعت میں حروفوں کی پہچان پھر اچھی طرح درجہ بدرجہ پڑھائی کرنے پر آخر میں ڈگری ملتی ہے جس کے لیے بہت کڑے امتحان سے گزرنا پڑتا ہے۔

دوسری دفعہ جب محفلِ سماع ہوئی تو میں بھی بے اختیار ہو کر وجد میں ناچ رہا تھا اور بے خود ہو کر کبھی ادھر گر رہا تھا کبھی ادھر، اللہ پاک کا کرم ہے کہ کوئی بھی مشکل یا پریشانی میں ایسی رہنمائی ہوتی ہے کہ تصور سے دل میں ایک سکون کی لہر سی محسوس ہوتی ہے، چار سال ہوئے سرکار کو دنیا سے پردہ فرمائے ہوئے ،آپ کا مزار پُر انوار اسلامیہ کالونی، بہاولپور میں مرجع فیض خاص ِ عام ہے۔

کافی عرصہ پہلے کا دوسرا واقعہ کچھ یوں ہے کہ ہمارے حضرت قبلہ کی حیات مُبارکہ میں آپ کی تقلید میں ہر سالانہ محفل کے موقع پر سب پیر بھائی مل کر دادا حضرت قبلہ احمد میاں کی حاضری کے لیے رحیم یار خاں بستی رحمان پورہ میں جایا کرتے تھے جہاں کوئٹہ سے بھی کچھ بھائی لوگ آیا کرتے تھے، اس دفعہ اُن کے ساتھ ایک انگریز کو دیکھ کر سب بھائی لوگ حیران تھے جو کوئٹہ والوں کے ساتھ آئے تھے،اُن کے بارے میں اتنا معلوم ہوا کہ وہ ٹرین میں تھرڈ کلاس کے ڈبے میں میں سفر کر رہے تھے جس پر بھائی صاحب حیران ہوئے کہ غیر ملکی تو ہوائی جہاز یا اپر کلاس میں سفر کرتے ہیں یہ صاحب غریبوں کے ساتھ کیوں بیٹھے ہیں، پوچھنے پر اُس انگریز نے اپنا نام ڈیوڈ بتاتے ہوئے کہا ، میں تھرڈ کلاس میں اس لیے سفر کر رہا ہوں کہ میرا گوہر مقصود اسی کلاس میں سفر کرنے والوں میں سے حاصل ہو گا، پھر خود ہی ، تفصیل بتاتے ہوئے کہنے لگے کہ میں ایک پادری کا بیٹا ہوں اور بہت گہرے مطالعے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ روح کی بے چینی جو ہر وقت راہِ حق کی تلاش میں بھٹکتی رہتی ہے اُ س کی منزل کا پتہ کسی روحانی پیشوا سے ہی مل سکے گا لہٰذا میں ایران میں بھی کچھ دن گڑار کر آیا ہوں اب پاکستان سے ہوتا ہوا ہندوستان تک جاﺅں گا، مجھے ایک ایسے روحانی پیشوا کی تلاش ہے جو میری روح کو تسکین کی دولت سے مالا مال کردے۔ ہمارے پیر بھائی صاحب جو انگریزی بولنے پر قادر تھے اُنہوں نے مسٹر ڈیوڈ کو اپنے ساتھ آنے کی دعوت اس اُمید پر دی کہ شاید آپ کو میرے ساتھ ہمارے مر شد کامل کے پاس وہ سکون نصیب ہو جائے جس کی تلاش میں آپ ملکوں ملکوں بھٹک رہے ہیں،۔اور ہم سب نے دیکھا، جب وہ ہمارے دادا مرشد سیدنا حضرت احمد میاں کے سامنے دو زانو ہو کر بیٹھا تو اُس کی حالت کچھ ایسی ہی تھی جیسے برسوں بعد کسی راہی کو منزل کا پتہ مل گیا ہو ۔

ہمارے حضرت قبلہ نے اُس سے انگریزی میں بڑی روانی سے گُفتگو فرمائی اُس کے ہر سوال کا جواب بڑی خوشدلی سے مُسکرا تے ہوئے دیا، جس سے اُس کے قلب پر ایسا اثر ہوا کہ اُس نے اُسی دن مسلمان ہونے کی خواہش کا جب اظہار کیا تو حضرت قبلہ نے فرمایا بھئی اچھی طرح سوچ سمجھ لو آج کی رات ، اور دوسرے دن آپ سرکار نے اُسے کلمہ طیبہ پڑھا کر مسلمان کرنے کے بعد اپنے مریدوں میں شامل کر لیا اُس کا اسلامی نام عمر ِفاروق ہمارے دادا حضرت قبلہ نے تجویز فرمایا ۔ ” نگاہ، مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں “ علامہ اقبال
H.A.Latif
About the Author: H.A.Latif Read More Articles by H.A.Latif: 58 Articles with 84232 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.