انسان مستقبل میں جینا چاہتا ہے اور ماضی سے جان چھڑوانا
لیکن معمولات زندگی اسے باندھ کر رکھتے ہیں۔ پیچھے جا نہیں سکتا آگے بڑھنے
میں مصلحت تو کبھی خوف آڑے آ جاتا ہے۔جینے کے لئے کسی نئے ڈھنگ کی ضرورت
نہیں ہوتی ، بس لسی میں پانی بڑھاتے جاؤ تاوقتکہ چٹیائی ختم نہ ہو
جائے۔انسان بستیوں میں رہتے تھے مگر معاشرتی بد اعمالیوں کے ساتھ۔ جس نے
صحیح راستہ دکھایا اسی کے درپے ہو گئے ، آباؤاجداد کے رسم ورواج اور دین سے
ہٹنے والے نہیں تھے۔ گروہ در گروہ جہالت اور گمراہی کے اندھیروں میں غرق
تھے۔نیکی اور اچھائی کی بات نہ سننے اور نہ ہی ماننے کی روش پر قائم
معاشرتی اقدار پر جمے ہوئے تھے۔وعدوں اور عہدوں سے مکر جانا جن کا معمول
تھا۔ یقین سے خالی اور شکوک سے بھرے ہوئے تھے۔ اپنے مفاد کے لئے دوسروں کا
نقصان کر دینے سے بھی گریز نہ کرتے۔ یقین تھا تو صرف اسی بات کا کہ جو ہے
جتنا ہے فقط انہی کا ہے۔ اللہ اپنی راہ میں خرچ کرنے کی تلقین بھی کرتا ہے
اور حکم بھی دیتا ہے۔پھر اس کے بدلے سات سو گنا لوٹائے جانے کی نوید بھی
دیتا ہے۔لیکن انسان نے کبھی اسے سنجیدہ نہیں لیا۔ کیونکہ وہ تو خسارے میں
رہنے والا ہے۔
زندگی جنگل کے اندر صدیوں جیسی مسافت کی مانند ہے جہاں راستہ بناتی
پگڈنڈیوں پر چلنا پڑتا ہے۔ بوقت ضرورت راستے سے ہٹ کر کہیں سستا لینے کے
لئے پڑاؤ کرنا پڑتا ہے۔ درختوں سے پھل اور میوہ سے بھوک مٹا کر اور بہتے
چشمے سے پانی سے سیر ہونے کے بعد پھر سے سفر کے راستہ پر نکلنا پڑتا ہے۔ آہ
دل سے اور چشم تر کیسے گزرتی ہے ، صرف وہی جان سکتے ہیں جو اس سفر سے گزرے
ہوں۔
یہ ایک کہانی نہیں ایک سچائی ہے۔ جب آہ عرش تک کا سفر لمحوں میں کرتی ہے
اور آنسو پلکوں سے بہنے سے پہلے حکم ربی کے سامنے سر نگوں کرنے والا بے آب
ماہی کی طرح تڑپنے پر اپنی ہتھیلیوں پر آنسوؤں کی شدت تڑپ کو محسوس کر لیتا
ہے۔
چھبیس سال کی عمر میں تین کمسن بچوں کی ماں جب بیوہ ہو نے پر ایمان و توکل
کا تاج پہن لیتی ہے اور اپنے ارد گرد سے نظریں چرا کر نگاہیں آسمان کی طرف
کر لیتی ہے تو رب جلیل کے حکم پر زمین پر چلتا ایک بدکے ہوئے گھوڑے جیسا
انسان چیونٹی کی مانند بے بسی کی تصویر بن جاتا ہے۔
وہ ! اپنے بچوں کے عید کے نئے کپڑوں کی خریداری کے لئے رقم ان کے ماں کے
حوالے کر کے گاڑی میں مسحور کرنے والے گانوں کے بول سنتا اپنی زمینوں کی
طرف رواں دواں تھا کہ کچھ عرصہ قبل اس فانی دنیا سے کوچ کر جانے والا اس کا
ہمسایہ اور دوست اس کی آنکھوں کے سامنے اپنی شکل کا تصور چھوڑ جاتا۔ اچھے
انسان کا یاد آنا کوئی نئی بات نہیں تھی۔ وہ اکثر مرحوم کا ذکر اچھے الفاظ
میں کرتا۔ لیکن آج تصور ایسا تھا جیسے کوئی بے چینی میں اسے جھنجھوڑ رہا
ہو۔سارا دن وہ زمینوں میں اِدھر سے اُدھر بلا وجہ چلتا رہا ۔ بے سکونی نے
اسے بری طرح نڈھال کر دیا ۔ ایک ہی چہرہ مسلسل کئی گھنٹوں سے اسے پریشانی
کے عالم میں جہاں جہاں اس کی نظر پڑتی محسوس ہوتا۔
ایک خیال نے اسے رنجیدہ کر دیا کہ میں نے اپنے بچوں کے لئے عید کے نئے
کپڑوں کا اہتمام کیا اور اس کے ہمسائے میں تین معصوم بچے عید کے دن کیا نئے
کپڑے پہن پائیں گے۔ شام کو گھر واپس لوٹتے ہی اس نے اپنی بیگم کے ہاتھ میں
کچھ رقم دے کر کہا کہ ان کے گھر جاؤ اور انہیں کہو کہ وہ بچوں کے لئے کپڑے
خرید لیں۔
جس وقت ایک چہرہ جہاں جہاں وہ رخ کرتا اس کے سامنے اپنے ہونے کا احساس دلا
رہا تھا۔ اسی دن مرحوم کی معصوم سی بڑی بیٹی بازار میں اپنی ماں سے ایک سوٹ
خریدنے کی فرمائش کر رہی تھی۔ جسے خریدنے کی ایک بیوہ ماں کی سکت نہیں تھی۔
معصوم بچی رونے لگی اور ماں دل گرفتہ ہوئی ۔ اپنی مخلوق سے ستر ماؤں سے
زیادہ محبت کرنے والےخالق کائنات نےعرش سے ایک خیال کے ذریعے ذمہ داری کا
احساس پیدا کیا۔ بظاہر بچے ننھیال ددھیال کی آنکھ کا تارا تھے اور حقیقت تو
تب آشکار ہوتی اگر اس پر سے پردہ کبھی اٹھا ہوتا۔ چھبیس برس کی عمر میں
بیوگی کا لبادہ اوڑھنے والی ایک باوقار ، با حیا اور باکردار عورت نے اپنا
حال اللہ کے علاوہ کبھی کسی کو نہ دکھایا۔
اللہ تبارک تعالی نے ایک ایسے انسان کو ان کے لئے بے چین کر دیا جو فالج
اور الزائمر کی بیماری میں مبتلا اپنے بوڑھے باپ کی خدمت میں ایسے مگن تھا
کہ اسے دنیا میں کوئی خاص رغبت نہیں تھی۔ وہ روح اور جسم کے باہمی تعلق کی
گتھیاں سلجھانے میں مصروف عمل تھا۔ اپنی ناک کو خاک آلود ہونے سے بچانے کے
لئے اور فرمان رب کریم کی طرف سے والدین کی خدمت میں کسی کمی،کوتاہی سے
بچنے کی تگ و دو میں مصروف عمل تھا۔
تب اسے اس احساس نے آ گھیرا کہ گھر کی دیوار کے دوسری طرف یتیم بچوں کے
آنسوؤں کا بوجھ وہ روز قیامت کیسے اٹھائے گا۔ تین بچوں کی بیوہ ماں صرف
اللہ تبارک تعالی سے مدد کی طلبگار تھی۔
نہ جانے اس کی دعا میں کتنا درد تھا کہ وہ ہمیشہ بے چین ہو جاتا ، زندگی
جینا مشکل ہو جاتا ۔ اپنی شریک حیات سے کہتا کہ انہیں پوچھو مسئلہ کیا ہے۔
ہمیشہ سب اچھا کہہ کر بات ٹالنے کی کوشش ہوتی لیکن اللہ تبارک تعالی اپنے
نیک بندوں کی مدد میں کبھی تاخیر نہیں کرتا۔ سکون کھو جانے اور بے چینی بڑھ
جانے پر وہ کہتا کہ اگر سب اچھا ہے تو اسے سکون کیوں میسر نہیں۔ آخر کار وہ
مسئلہ حل ہونے کے بعد اسے سکون میسر آتا۔
اللہ تبارک تعالی کی طرف سے ملنے والی مدد کو ایک بیوہ ماں احسان سمجھ کر
انا و خودداری کی چادر کو اور مضبوطی سے اوڑھ لیتی۔ زندگی کے شب و روز
گزرتے گزرتے بچے جوانی کی دہلیز تک آ پہنچے۔ بچوں کی شادیوں کے موقع پر
انتہائی پریشانی کے عالم میں ایک ماں کی اللہ سے نہ جانے کیسے التجائے دعا
ہوتی کہ اُس پر چھائےبے سکونی اور بے چینی کے بادل چھٹنے کا نام ہی نہ لیتے
تھے۔ بار بار پوچھنے پر سب اچھا ہے ، شادی کی تیاری بھی ٹھیک ہے کہہ کر بات
ختم کرنے کی کوشش کی جاتی لیکن اللہ تو سب جانتا ہے جو ظاہر ہے اور جو دلوں
میں ہے۔ نہ چین تھا اور نہ ہی سکون اُسے، وہی "سب اچھا ہے" کا جواب اسے
مطمئن نہ کرپاتا جب تک کہ پریشانی کا موجب مسئلہ حل نہ ہو جاتا۔ پریشانیاں
باقاعدگی سےآتی رہیں اور اللہ تبارک تعالی کے حکم سے دور ہوتی رہیں۔ وقت کی
بے رحم موجوں سے لڑتے لڑتے آج اس گھر میں خوشیوں سے بھرپور زندگی ہے۔ لیکن
اللہ تبارک تعالی سے ان کا تعلق آج بھی ویسا ہی ہے۔ جب بھی انہیں کوئی
مسئلہ درپیش ہوتا ہے تو اللہ تبارک تعالی کی طرف سے مدد پہنچ جاتی ہے۔ چند
دن سے زیادہ پریشانی میں اللہ کی پاک ذات مبتلا نہیں ہونے دیتی۔
بظاہر یہ ایک تخیل سے بُنی گئی کہانی کا سکرپٹ دکھائی دے گا۔ لیکن اللہ
تبارک تعالی اپنے نیک بندوں کا خیال کیسے کرتا ہے اور اُن کی مدد کے لئے
کسی انسان کو چن لیتا ہے اور اسے اس کام پر ایسے لگا دیتا ہے کہ وہ خود
حیران رہ جاتے ہیں۔ عام لوگ قصے کہانیوں کو حقیقت کا رنگ دینے کے اتنے عادی
ہوتے ہیں کہ اللہ تبارک تعالی کے قائم کردہ خودکار نظام کی حقیقت کو تسلیم
کرنے میں حیل و حجت اور شک و شبہ کے درمیان کہیں اٹک جاتے ہیں۔ وہ ہر بات
کا عقلی جواز تلاش کرتے ہیں۔ اس سچی کہانی کو جانچنے اور ماننے کے لئے عقل
سے زیادہ توکل کی ضرورت ہے۔ عقل کے بھروسے پر زندگی جینے والے اور توکل پا
کر زندگی جینے والے الگ الگ ہوتے ہیں۔ عقل کے ترازو پر ہر بات رکھنے والوں
کے لئے اس تحریر میں کچھ نہیں ہے کیونکہ یہ کوئی منطق اور جواز فراہم نہیں
کرتی۔ بلکہ یقین محکم ہے ایمان والوں کے لئے۔
|