آج ایک چھوٹے سے وائرس کے باعث دنیا خوف وہراس میں
مبتلا ہے خوف اتنا کہ کرہ ٔ ارض میں مسلسل کئی ماہ سے ہزاروں شہر سنسان ہیں
کاروبار،سکول،کالجز،یونیورسٹیاں،شاپنگ مال بندہیں ہزاروں افراد لقمہ ٔ اجب
بن چکے ہیں یا تو ائیرپورٹس بندہیں جوآپریشنل ہیں وہاں پر مسافروں کی سخت
ترین سکریننگ کی جارہی ہے یہ خوف ایک نئے وائرس کورونا کی باعث پیداہواہے
جس کا ماخذ چین کا وسطی شہر ووہان نامزدکیا گیاہے دنیا ابھی تک پوری طرح یہ
نہیں جان پائی کہ کورونا وائرس‘ اصل میں ہے کیا؟ بہرحال عالمی ادارہ صحت نے
پوری دنیا کو خبردارکر دیاہے دنیا بھرکے 200ممالک میں متاثرین کی تعداد میں
اضافہ ہورہا ہے۔ شبہ ہے کہ یہ وائرس چین کی سمندری حیات کی مارکیٹ سے پھیلا
ہے جہاں آبی حیات کی غیر قانونی تجارت بھی کی جاتی ہے۔ چین اور امریکہ ایک
دوسرے پر الزام لگا رہے ہیں کہ یہ وائرس اس کی وجہ سے پھیلا اب تو یہ بھی
کہاجارہاہے کہ یہ قدرتی وباء نہیں بلکہ حیاتیاتی ہتھیارہے جس کا مقصد دنیا
کی معیشت کو کنٹرول کرناہے اس کی ویکسین کے ذریعے لوگوں میں مائیکرو چپ
لگادی جائے گی بہرحال کوئی حتمی بات نہیں کہی جاسکتی کہکورونا وائرس دراصل
کیا ہے؟ اس سوال کا جواب اتنا آسان نہیں پھربھی عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ
او) کے مطابق کورونا وائرسز ایک سے زائد وائرس کا خاندان ہے جس کی وجہ سے
عام سردی سے لے کر زیادہ سنگین نوعیت کی بیماریوں، جیسے مڈل ایسٹ
ریسپائریٹری سنڈروم (مرس) اور سیویئر ایکیوٹ ریسپائریٹری سنڈروم (سارس)
جیسے امراض کی وجہ بن سکتا ہے۔یہ وائرس عام طور پر جانوروں کے ذریعے
انسانوں میں منتقل ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر سارس کے حوالے سے کہا جاتا ہے
کہ یہ بلیوں کی ایک خاص نسل Civet Cats جسے اردو میں مشک بلاؤ اور گربہ
زباد وغیرہ کے نام سے جانا جاتا ہے یہ چمگاڈر،سانپ،کتے اور اس قسم کے
جانوروں کے سوپ سے انسانوں میں منتقل ہوا جبکہ کچھ لوگوں کا خیال یہ بھی ہے
کہ یہ مرض کے ایک خاص نسل کے اونٹ سے انسانوں میں منتقل ہوا۔اب بھی بہت
سارے کورونا وائرس ایسے ہیں جو جانوروں میں پائے جاتے ہیں لیکن ابھی تک
انسان ان سے متاثر نہیں ہوئے ہیں۔چینی حکام نے 7 جنوری کو اس فیملی کے ایک
کورونا وائرس کی تشخیص کی جسے 2019 nCoV کا نام دیا گیا ہے اور اس کی
انسانوں میں پہلے کبھی تشخیص نہیں ہوئی۔اس وائرس کے بارے میں ابھی زیادہ
کچھ تو نہیں معلوم مگر یہ بات یقینی ہے کہ یہ انسان سے دوسرے انسان میں
منتقل ہوتا ہے، اس کی علامات کی خاص نشانی یہ ہے کہ کورونا وائرس کی علامات
میں مریضوں کو سانس لینے میں دشواری، بخار، کھانسی اور نظام تنفس سے جڑی
دیگر بیماریاں شامل ہیں۔ اس وائرس کی شدید نوعیت کے باعث گردے فیل ہوسکتے
ہیں، نمونیا اور یہاں تک کے موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔یہ کتنا خطرناک ہوسکتا
ہے؟ ماہرین کے مطابق کورونا وائرس اتنا خطرناک نہیں جتنا کہ اس وائرس کی
ایک اور قسم سارس ہے جس سے 3-2002 کے دوران دنیا بھر میں تقریباً 800 افراد
جاں بحق ہوئے تھے اور یہ وائرس بھی چین سے پھیلا تھا تھائی لینڈ میں 4 جبکہ
جنوبی کوریا، تائیوان، جاپان اور امریکا میں بھی سینکڑوں کیس رپورٹ کئے
گئے۔ جن لوگوں میں یہ وائرس پایا گیا ان کا تعلق یا تو ووہان سے تھا یا
ماضی قریب میں ووہان میں موجود تھے۔وائرس کو پھیلنے سے روکنے کیلئے کیا کیا
جارہا ہے؟ چین نے الزام لگایاہے کہ یہ وائرس ایک حیاتیاتی ہتھیار کے طورپر
امریکہ نے کچھ اپنے اتحادی ممالک کی مشاورت سے چین کی معیشت کو نقصان
پہچانے کے لئے چھوڑا ہے اس بھیانک وائرس کو اﷲ کا عذاب بھی قراردیا جارہاہے
اس وقت یہ وباء پوری دنیا میں پھیل رہی ہے چین کے
بعداٹلی،ایران،امریکہ،برطانیہ،فرانس،اسپین جیسے ممالک اس سے شدید متاثرہوئے
ہیں کورونا وائرس سے اب تلک5 لاکھ سے زائد افرادلقمہ ٔ اجل بن چکے ہیں
پاکستان،بھارت، ایران میں ان گنت افراداس سے متاثر ہوئے ہیں جبکہ ہلاک ہونے
والوں کی تعداد بھی ہزاروں میں خود امریکی حکومت نے خبردارکیا ہے کہ
ہلاکتیں 2 لاکھ سے تجاوزکرسکتی ہیں پاکستان میں اب تلک نصف درجن سے زائد
ڈاکٹر اور پیرا میڈیکل سٹاف سمیت3000افراد کے لگ پھگ جاں بحق ہوچکے ہیں اور
ان کی تعدادمیں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آرہاہے ایک بارپھر ملک کے بڑے شہروں
میں سماک لاک ڈاؤن کردیاگیا ہے اس لئے ہر شہری کو احتیاطی تدابیر
اختیارکرناہوں گی کیونکہ اس وائرس کی اب تک کوئی ویکسین تیار نہیں کی جاسکی
ہے ا ور ساتھ ہی لوگوں کو باور کرایا گیاہے کہ وہ کسی خاص مقصد کے بغیر
وہاں سے کہیں نہیں جاسکتے۔ عالمی ادارہ صحت نے اسے عالمی سطح پر عوامی صحت
کا مسئلہ قرار دے دیا ہے اس کی روک تھام کیلئے مزید اقدامات کیے جائیں گے۔
عالمی ادارہ صحت کی سفارشات کے مطابق لوگوں کو بار بار صابن سے ہاتھ دھونے
چاہئیں اور ماسک کا استعمال کرنا چاہیئے اور بیماری کی صورت میں ڈاکٹر کے
مشورے سے ادویات استعمال کرنی چاہیئے۔ شہریوں میں ملاقاتوں میں احتیاط
ناگزیرہے فی الحال احتیاط ہی اس سے بچاؤکا واحد حل ہے۔
|