دلیری بمقابلہ دیدہ دلیری

جو خطروں کے آگے ڈٹ جاتے ہیں دلیر وہی کہلاتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم پاکستانی کسی بھی اعتبار سے دنیا کی کسی بھی قوم سے کم نہیں، بلکہ یہ کہنا درست ہو گا کہ کچھ چیزوں میں ہمارا واقعی کوئی ثانی نہیں۔ دلیری ہی کو لے لیجیۓ، جہاں ایک طرف ہماری افواج ملک کے دفاع میں اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا لوہا منوا رہی ہیں وہیں ایک زندہ دل قوم کی حیثیت سے ہم عوامبھی اپنی روزمرہ کی زندگی میں دلیری کی نت نئی مثالیں قائم کر کے دنیا میں اپنا نام روشن کر رہے ہیں۔چلیں مسلح افواج کا تو کام ہی دفاع ہے جہاں دلیری شرط ہے، لیکن ہم عوام الناس کی بڑھتی ہوئی دلیری نہ صرف غور طلب بلکہیقیناً داد کی مستحق ہے۔

اب کورونا ہی کو لے لیجیۓ، چھوٹے موٹے خطرات جیسے بیماریاں، وبائیں، یا سازشیں وغیرہ ہمارا کیا بگاڑ سکتی ہیں، پھر بھی کچھ دیدہ دلیر عناصر ہمیں اس طرح کی چیزوں سے ڈرا کر ہماری دلیری پر
سوالیہ نشان چھوڑنا چاہتے ہیں۔

بھئی ہم نے کب کہا کہ دنیا بھرمیں خوف کی لہر نہیں دوڑرہی اور بڑی بڑی معیشتیں تباہی کی طرف نہیں بڑھ رہیں، ہزاروں افراد روزانہ کی بنیاد پرموت کے گھاٹ بھی اتر رہے ہوں گےاور یقیناً یہ بات عملاً ثابت ہو گئی ہے کہ دنیا کی بہترین طبّی سہولیات کے حامل ممالک بھی محض احتیاطی تدابیر ہی کے ذریعے کورونا جیسی وبا کو شکست دینے میں کامیاب ہو رہے ہیں تب بھی ہم پاکستانی عوام کے مسائل ان تمام تر حقائق سے زیادہ سنگینہیں۔ اب آپ ہی بتائیںکورونا تو جانے پاکستان سے کب جائے، کیا ہمدعوتیں کرنا اور کھانا چھوڑ دیں؟بھلا بازار میں دھکے کھائےبنا بھی کوئی عید ہوتی ہے؟ماسک کون پہنے، لوگ سمجھیں گے کورونا سے ڈر گیا، گرمی بھی بہت لگتی ہے ماسک پہن کر۔ دکان بند کرنے کا ٹائم بھلے ہی ہو گیا ہو، جب تک پولیس کا ڈنڈا نظر نہیں آئےدکان کیوں بند کریں؟بخار، کھانسی، سر اور جسم میں درد ہے تو کیا ہوا، ہم حکیم لقمان کی اولاد ہیں، اپنی نبض خود ہی دیکھ لی ہے، کورونا نہیں موسمی بخار ہے اس لیے احتیاط کی کوئی ضرورت نہیں، دفتر بھی جانا ہے اور بازار بھی ۔ اور یہ تو ویسے بھی سازش ہے، ٹیسٹ کرایا تو پازیٹو ہی آنا ہے۔

چونکہ ہم کسی بھی صورتحال سے ڈرنے والے نہیں اس لیے ہونا تو یہ چاہیے کہ ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دیا جائے لیکن ان دیدہ دلیر ڈاکٹروں کو کون سمجھائےجو اپنے پیاروں کو چھوڑ کر رات دن اپنی جان ہتھیلی پر لیے کورونا نامی 'سازش' کے شکار افراد کا علاج کر رہے ہیں، ان دیدہ دلیر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کون سمجھائے جو سخت گرمی میں بھی رات دن سٹرکوں، گلیوں، محلوں میں اپنی ڈیوٹیاںسر انجام دے رہے ہیں۔اور حد تو یہ ہے کہ حکومت بھی عجیب دیدہ دلیری کا مظاہرہ کر رہی ہے، احکامات جاری کر کے سمجھتی ہے کہ ہم عوام اپنی حفاظت کے پیشِنظر قانون پر عمل بھی خود ہی کر لیں گے!بھلا ہم کسی مغربی ملک میں رہ رہے ہیں جو قانون پر عمل بھی کر لیں۔ ہم تو وہ قوم ہیں جو باہمی مفاد کے لیے سنگین سے سنگین صورتحال میں بھی 'بیچ' کا راستہ نکال لیتے ہیں، چاہے اس میں جھوٹ اور دھوکا ہو یا رشوت۔ اصل میں جھوٹ کو ہماری لغت میں مجبوری کہا جاتا ہے اور رہی بات رشوت کی تو پاکستان میں تبصرہ کرنے والوں سے لیکر تنقید کرنے والوں تک اکثر کا غصہ رشوت لینے والے پرہی ہوتا ہے، تو دینے والے ہونے کی حیثیت سے ہمیں کس کا ڈر اور کیسی فکر۔

ایسا ہر گز نہیں کہ ہم دلیر صرف اپنا سوچتے ہیں، ہمیں اس مزدور طبقے کا بھی پورا خیال ہے جن کے پاس اس لاکڈائونکی وجہ سے روٹی کمانے کا ذریعہ یا تو رہا نہیں یا محدود ہو گیا ہے۔لاکڈائوناور احتیاطی تدبیروں کی دھجیاں اڑا کر آخر ہم ان ہی سے تو یکجہتی کا اظہار کر رہے ہیں، لیکن پھر بھی یہ دیدہ دلیر سوچ کے مالک ہم پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ اگر واقعی اس وبا کی روک تھام کے لیے جاری کیے جانے والے احکامات پر پہلے ہی دن سے عمل کر لیا جاتا تو نہ صرف اس وبا پر جلد قابو پالیا جاتا بلکہ اس غریب مزدور پیشہ طبقے کا بھی جلد بھلا ہو جاتا جو اب اس نیم لاکڈائون کی وجہ سے ایک غیر یقینی صورتحال کا شکار ہے۔

الزامات، گلے شکوے، سیاسی دکانداروں کی چمکتی دکانیں، اپنے آپ بنے موسمی تجزیہ نگاروں اور چیختے چنگھاڑتے حقائق سمیتہم دلیر عوام اور دیدہ دلیر ڈاکٹروں، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور حکومت کا یہ مقابلہ زور و شور سے جاری ہے، حکومتی اعداد وشمار کے مطابق اب تک ملک بھر میں کم و بیش۱۸۱۰۸۸ کیسزز رپورٹ ہو چکے ہیں جبکہ مرنے والوں کی تعداد ۳۵۹۰تک جا پہنچی ہے، بات لگتی تو سنجیدہ ہے، لیکن ہم عوام بھی تو عادت سے مجبور ہیں نہ، احتیاط سے کام لیں گے تو زیادہ سے زیادہ عقل مند ہی کہلائیں گے، دلیر نہیں!
 

Shakeb Sultan
About the Author: Shakeb Sultan Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.