امریکہ کے نامور دانشور تھامس
فرائیڈ مین نے حال ہی میں اپنے آرٹیکل میں لکھا ہے کہ پاکستان کے تمام تر
اہم فیصلے اور پالیسی سازی کے قواعد و ضوابط پاک فوج طے کرتی ہے۔ جو عوام
کو حکمرانی میں حصہ دار بنانے کا سوانگ رچا تی ہے مگر سارے اختیارات
استعمال کرنے کا حق اپنے پاس رکھتی ہے۔ جرنیلی ادوار میں عوام کے لئے بجٹ
کا25 فیصد جبکہ بقیہ75 فیصد فوج خرچ کرتی ہے اور وہ جواز رکھتی ہے کہ ملکی
سلامتی کے لئے ایسا کرنا ناگزیر ہے۔ ہماری بدقسمتی تو یہ ہے کہ آزادی اظہار
کے نام پر بھی ایسے ایسے ڈرامے پیش کئے جاتے ہیں جو نازک معاملات کو
سنوارنے کی بجائے مزید الجھا دیتے ہیں۔ پاکستانی قوم کی اکثریت ان پڑھ ہے۔
انکے گلے میں جاگیرداری زمینداری اور استحصالی نظام کا طوق ہے۔ دکھ تو یہ
ہے کہ میڈیا ہو یا سیاست یہی طبقہ انکے نشانے پر ہوتا ہے اور یہ بھی سچ ہے
کہ مجہول اور ان پڑھ لوگوں کو فسوں کاری سے بیوقوف بنایا جاتا ہے۔ سانحہ
ایبٹ آباد کے بعد پیدا ہونے والی الجھنیں اور پاک امریکہ ریلیشن شپ میں
نازل ہونے والی تلخیوں کے بعد آزاد میڈیا کو تھامس فرائیڈ مین کے پاک فوج
کے لئے ادا کئے جانیوالے الفاظ کی اشاعت سے گریز کرنا چاہیے۔ دنیائے عالم
کی تاریخ گواہ ہے کہ قومیں ادیبوں دانشوروں کے دلوں میں جنم لیتی ہیں اور
پھر اہل علم و دانش کے سایہ شجر دار تلے پروان چڑھتی ہیں مگر بدقسمتی سے
دانشور اور ریسرچ سکالرز اپنے شعبے کے ساتھ انصاف نہیں کرتے۔ سانحہ ایبٹ
آباد پر دانشور افراد کی اکثریت خاموش رہی تاکہ ملکی و غیر ملکی آقاؤں کے
چہروں پر شکنیں نہ آجائیں۔ بنیش و دانش کے رجال کاروں میں سے چند تو ایسے
ہیں جو شیروانیوں اور وردیوں کو سپاس نامے پیش کرتے ہیں تو کچھ صف شکنوں کے
قصیدے پڑھتے ہیں۔ جب تک ادب تاریخ صحافت اور دانش کے پیروکار عوام کی
رہنمائی کا فریضہ انجام دینے میں ناکام رہیں گے تو ہماری کل کسی صورت میں
سیدھی نہیں ہوسکتی۔ گلوبل ورلڈ کے باوجود ہماری عادت بن چکی ہے کہ ہم
امریکہ کو برا بھلا کہہ کر دل کی بھڑاس نکال لیتے ہیں۔ دینی رہنما امریکی
مخاصمت میں تنقید کا بازار گرم کر کے ایک طرف سیاست دانوں کو برا بھلا کہتے
ہیں حکومت وقت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہیں تاکہ انکے قد کاٹھ قامت اور وقار میں
اضافہ ہو۔ ایبٹ آباد میں پاکستان کی قومی سلامتی پامال ہوئی اور اسکے تدارک
کے لئے اسباب کی تلاش کا فیصلہ ہوا تو اپوزیشن رہنماؤں اور مذہبی راجکماروں
نے سیاسی نمبر سکور کرنے کی خاطر اسکی راہ میں رخنہ ڈالنے کے لئے طرح طرح
کی تاویلیں پیش کیں کہ خدا کی امان۔ نواز شریف نے عدالتی کمیشن کے قیام کا
مطالبہ کیا کہ سپریم کورٹ کے ججز پر مشتمل کمیشن واقعہ ایبٹ آباد کی تحقیق
کرے مگر عاصمہ جہانگیر نے اس تجویز کو رد کرتے ہوئے کہا کہ عدلیہ کو
گھسیٹنے کی ضرورت نہیں۔یہ کام سیاسی حکومت کا ہے کہ وہ اپنے فرائض کی
بجاآوری میں کوئی کوتاہی نہ برتے۔ عوام کی اکثریت نہیں جانتی کہ امریکہ اور
پاکستان کے معاملات کس حد تک بگڑ چکے ہیں۔ امریکہ کے ساتھ ہم جو دہرا کھیل
کھیلنے سے فائدے کی بات سمجھ رہے تھے وہ زمانہ گزر گیا۔ امریکی تو ماضی میں
تحفظات رکھتے تھے مگر اب وہ کھل کر اپنے خدشات کی ہاہاکار مچا رہے
ہیں۔پاکستان کو عالمی سطح پر ندامت کا سامنا کرنا پڑا۔ نیویارکر میگزین کے
جان رائٹ نے لگی لپٹی بغیر لکھا ہے کہ پاکستان کو نو دوگیارہ کے بعد 11 ارب
ڈالر کی امداد دی گئی جو درست استعمال نہیں ہوئی لارنس رائٹ نے کرزئی کے
متعلق کہا کہ انہیں شاک تھراپی کی ضرورت ہے امریکہ کی قومی سلامتی کے مشیر
ٹام ڈنیلن نے اعلان کیا ہے کہ اوبامہ اس سال پاکستان کا دورہ نہیں کرسکتے۔
جان کیری بھی دھمکیوں کے انبار لیکر پاکستان یاترا پر ہیں۔ موجودہ حالات کے
تناظر میں دو پالیسیاں اپنائی جاسکتی ہیں کہ یا تو ہم امریکی آہنی دیوار سے
سر ٹکرا کر پاش پاش ہوجائیں یا پھر حکمت اور دانش کا دامن پکڑ کر دفاعی
معاشی اور ایٹمی قوت کو انکے قہر سے بچا لیں۔ خود داری خود حمیتی اور
باغیرتی قوموں کا طرہ امتیاز کہلاتی ہیں مگر بعض اوقات یہی گلے کا پھندا بن
جاتے ہیں۔ مغربی ترکش اور امریکی میڈیا میں چند روز قبل سرکوزی فرنچ صدر کے
دورہ ترکی کی گونج سنائی دیتی رہی ہے۔ سرکوزی ترکی کے دورے پر پہنچے تو
استقبال کے لئے انقرہ کے مئیر صالح جگ موجود تھے۔ سرکوزی نے اپنے منہ میں
چیونگم رکھی ہوئی تھی جو سفارتی آداب کے خلاف ہے۔ سرکوزی ادائے بے نیازی سے
چیونگم چبائے جا رہے تھے اور ساتھ ہی وہ میر گوجک سے گفتگو بھی کررہے تھے۔
ترکش مئیر لال پیلا ہوگیا اور سرکوزی کو سبق سکھانے کا گر تلاش کرنے لگا۔
گوجک نے سرکوزی سے بدلہ لینے کے لئے نرالا و بانکا طریقہ استعمال
کیا۔سرکوزی کو رخصت کرتے وقت صالح کوجگ نے منہ میں چیونگ ڈال لی۔ وہ ایک
طرف چیونگم کو چبا کر غبارے بناتے رہے اور ساتھ ہی سرکوزی سے گپ شپ کرنے
لگے۔ سرکوزی جو جی20 کا چیر مین ہے خاصا رنجیدہ تھا۔ ٹی وی چینلز پر براہ
راست دیکھا گیا کہ جب سرکوزی جہاز پر سوار ہورہے تھے تبٍ مئیر کے منہ سے
چیونگم کے غبارے فضا میں تیر رہے تھے۔ ترک صدر عبداللہ گل ماضی میں پیرس کے
دورے پر گئے تو استقبالیہ تقریب میں سرکوزی نے چیونگم چباتے ہوئے سفارتی
آداب کی بے حرمتی کی تھی۔ مئیر سے مہمان صدر کے ساتھ بیہودگی کی وجہ دریافت
کی گئی تو وہ بولے قومی غیرت کا تقاضا تھا جسے سرکوزی ہمیشہ یاد رکھیں گے۔
مئیر صاحب کی قومی غیرت نے ترکی کی یورپی یونین میں شمولیت کی سرتوڑ کوششوں
پر پانی پھیر دیا۔ مئیر اور سرکوزی کی ترکی میں ہونے والی انوکھی ملاقات کے
بعد برسلز میں یورپی یونین کا اجلاس تھا جس میں سرکوزی نے ترکی کے خلاف
آتشیں زبان اور زہرناک روئیے کا انداز اپنایا اور ایک دفعہ پھر ترکی کی
یورپی یونین کا معاملہ لٹک گیا۔ ریمنڈ ڈیوس کیس کے دوران امریکہ پر حرف
لعنت بھیجنے والے سیاسی اور اسلامی جماعتوں کے قائدین نے کہا مقتولین کے
ورثا معافی نہ دیں ہم انکی حفاظت اور کفالت کا ذمہ لیتے ہیں مگر نتیجہ صفر
نکلا۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے مسئلے پر اسی گروہ نے حکومت پاکستان پر تعن و
تشنع کے چابک مارے کہ امریکہ کی پاک کیمونٹی فنڈز جمع کر کے عافیہ کا مقدمہ
لڑے گی مگر صرف دس ہزار ڈالر کا چندہ اکٹھا ہوا۔ پانچ لاکھ پاکستانی اگر فی
کس10 ڈالر عطیہ کرتے تو نصف ملین ڈالر اکٹھے ہوجاتے۔ عافیہ کے حق میں دھواں
دار تقریریں کرنے والے عملی میدان میں فش فش ٹائیں ٹائیں ہوگئے۔. حکومت
پاکستان نے سترہ کروڑ کی رقم عافیہ کیس کے لئے مختص کی۔ موجودہ عالمی حالات
کے تناظر میں ہمیں جذباتیت سے گریز کی پالیسی اپنانا ہوگی اس وقت حکمت سے
کام چلانا ہی قومی مفاد کا تقاضا ہے۔ جذباتیت ریاستوں کو عالمی تنہائی کا
نشانہ بناتی ہے جبکہ حکمت مکالمے کو آگے بڑھا کر ڈائیلاگ سے متنازعہ مسائل
حل کرنے کا پیش خیمہ بنتی ہے۔ سقراط نے اصولوں کی خاطر زہر نوش کی مگر
گیلیلیو نے ایک طرف زندگی بچائی تو دوسری جانب بنی نوع انسانیت کی فلاح کے
لئے سائنسی ایجادات کا کارنامہ سرانجام دیا۔ حکومت پاکستان سیاسی قیادت
دینی کمیونٹی اور قوم کو امریکہ کے معاملے میں حکمت اور جنگ گریز پالیسی پر
عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔ |