اس وقت کہ جب ہم حالت ِ جنگ میں
ہیں ہمارے ایٹمی اثاثوں کو اٹھانے کے اشارے مل رہے ہیں، امریکی ڈرون حملوں
نے ہماری ناک میں دم کر رکھا ہے حتیٰ کہ اسامہ کے تعاقب میں اس کی فوجیں
پاکستان کے اندر اتر آئی ہیں ہمارے سیاستدان اس موقع کو بھی اپنے سیاسی
مقاصد کے لئے استعمال کررہے ہیں۔ ہر کوئی ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی
کوشش کررہا ہے۔ ایبٹ آباد میں اسامہ آپریشن کے خلاف پارلیمنٹ کے ان کیمرہ
اجلاس کی قرارداد کی سیاہی ابھی خشک نہ ہوئی تھی کہ پاکستان کی سرزمین پر
ایک اور ڈرون حملہ ہوگیا۔اطلاعات کے مطابق شمالی وزیرستان کی تحصیل میر علی
کے علاقے خیسور میں ایک مکان پر امریکی ڈرون نے دو میزائل داغے جس سے
15افراد جاں بحق ہوگئے۔ اس واقعے کے ایک روز بعد نیٹو فورسز کے ہیلی
کاپٹروں نے بھی مرانشاہ کے قریب سرحدی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستانی چیک
پوسٹ پر شیلنگ کی جس سے دو پاکستانی سیکورٹی اہلکار زخمی ہوگئے۔نیٹو فورسز
کی اس بلااشتعال کاروائی پر افواج پاکستان کی طرف سے شدید احتجاج کیا گیا۔
ہمارے سیاستدان اور حکمران جو ایبٹ آباد آپریشن کے حوالے سے پاک فوج اور اس
کی ایجنسیوں پر طرح طرح کی انگلیاں اٹھا رہے تھے،قرارداد کی منظوری کے بعد
بھی امریکی سینہ زوریوں کے آگے بھیگی بلی بنے نظر آتے ہیں۔ حکمران طبقے کی
ہوا تو اسی وقت نکل گئی تھی جب جان کیری نے اسلام آباد میں ان سے ملاقات کر
کے واضح اعلان کیا کہ وہ ” معافی شافی“ مانگنے نہیں بلکہ ”ڈو مور“ کی نئی
چٹ لے کر آئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق اس چٹ پر افغان جنگ کے خاتمے کا نسخہ
تحریر تھا۔ یعنی اگر پاکستان خود ”ڈو مور“ کی پالیسی کو جاری رکھنا چاہتا
ہے تو اسے حقانی نیٹ ورک، ملا عمر اور لشکر طیبہ کے خلاف کاروائی کرنا ہوگی
ورنہ ”ہمیں تو کوئی نہیں روک سکتا“۔
حکمرانوں نے اس ملاقات کے بعد میڈیا کو جو فیڈ کیا اس میں ایبٹ آباد آپریشن
اور پارلیمنٹ کی قرارداد کی خلاف ورزی پر احتجاج یا مذمت کا تو کوئی ذکر نہ
تھا البتہ کیری کی ”نرم دل“ باڈی لینگویج پر غیر ضروری زور ضرور دیا گیا
تھا۔ حکمران جو پارلیمنٹ کے بند کمرہ اجلاس کے بعد یہ دعوے کررہے تھے کہ
”تمام سیاسی جماعتیں، فوج اور عوام پاکستان کی سالمیت اور وقار کے تحفظ کے
لئے ایک صفحے پر ہیں“ ۔دو تین دن کے بعد ہی مسلم لیگ (ن) کے چوہدری نثار نے
اس دعوے کے غبارے سے یہ کہہ کر ہوا نکال دی کہ حکومت بند کمرہ اجلاس کو
اپنے مفادات کے لئے استعمال کررہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومتی اتحاد ،
مسلم لیگ (ن) اور فوج کے درمیان محاذ آرائی پیدا کرنا چاہتا ہے۔ نواز شریف
کا رویہ بھی جارحانہ تھا۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے تو یہاں تک
کہہ دیا کہ متفقہ قرارداد کے بعد ڈرون حملہ پارلیمنٹ اور پاکستانی عوام کے
منہ پر تھپڑ ہے۔ مسلم لیگ (ق) بھی حکومت میں شراکت دار ہونے کی وجہ سے
سیاسی مصلحت کی خاطر چپ سادھے بیٹھی ہے۔ البتہ متحدہ قومی موومنٹ نے ایبٹ
آباد آپریشن کے حوالے سے 17نکات پر مبنی عوامی ریفرنڈم کرایا۔ جو بہت سے
لوگوں کے لئے اس لحاظ سے حیران کن ہے کہ حکومت کا حصہ ہوتے ہوئے ایم کیو
ایم براہِ راست حکومت پر دباﺅ ڈالنے کی بجائے لوگوں کے پاس جانا کیوں پسند
کیا۔ مگر سب جانتے ہیں کہ اس نے بھی اس موقع پر اپنے نمبر بنانے کے چکر میں
عوامی ریفرنڈم کو ترجیح دی جس کی حیثیت خالی فائر کے سوا کچھ نہیں۔ جہاں تک
جماعت اسلامی کا تعلق ہے تو انہوں نے روایتی طور پر اسی موقف پر ڈٹی ہوئی
ہے کہ امریکہ پاکستان سے معافی مانگے۔مگر اس کی طرف سے بھی وہ زور اور شور
نہیں نہ ہی دھرنا کا دھمکی دی گئی ہے۔
ایبٹ آباد میں امریکہ کے اسامہ ہنٹ مشن کی تکمیل کے بعد یہی سیاستدان فوج
اور آئی ایس آئی کے خلاف آواز بلند کررہے تھے۔ ان قومی اداروں پر کیچڑ
اچھال رہے تھے اور انہیں بے خبر رہنے کے طعنے دے رہے تھے مگر جب آرمی چیف
جنرل اشفاق پرویز کیانی، آئی ایس آئی چیف جنرل پاشا اور ائر چیف راﺅ قمر
سلیمان نے اپنی غلطیوں کے اعتراف اور حقائق کے لئے پارلیمنٹ کا ان کیمرہ
اجلاس منعقد کیا تو اطلاعات کے مطابق وہاں بہت سے سیاستدانوں کے بھی پول
کھل گئے جو پاکستان میں خاص مقاصد کے پروان اور تکمیل کے لئے غیرملکیوں سے
رقمیں بٹورتے رہے۔ اجلاس خاصا گرما گرم تھا۔ عسکری اسٹیبلشمنٹ جسے پاکستان
میں طاقت کا مرکز خیال کیا جاتا ہے کو بہت جلی کٹی سننا پڑیں۔ بہرحال اجلاس
کے اختتام پر جب مشترکہ قرارداد سامنے آئی تو قوم کو امید ہو چلی تھی کہ اب
واقعی سب ایک صفحے پر ہیں اور اب امریکہ نے پاکستان کی سا لمیت کو للکارا
تو سیاستدان، فوج اور عوام اٹھ کھڑے ہوں گے۔ مگر جان کیری کے دورہ پاکستان
کی خبر سن کر حکومتی اہلکاروں میں ہلچل مچ گئی کہ اگر انہوں نے ہماری
قرارداد کے بارے میں پوچھ لیا تو کیا جواب دیں گے۔ جان کیری کے چہرے کے
تاثرات بتا رہے تھے کہ وہ مطمئن تھے۔ وہ مطمئن کیوں نہ ہوتے حکومت نے انہیں
بتا دیا ہوگا کہ ان کی قرارداد محض لوگوں کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے لئے
تھی اس کی عملاََ کوئی حیثیت نہیں۔ شاید انہوں نے وکی لیکس کی اس خبر کا
حوالہ بھی دیا ہوگا جس میں یوسف رضا گیلانی نے ڈرون حملوں پر اپنے احتجاج
پر امریکہ کو وضاحت پیش کی تھی کہ وہ تو ویسے ہی عوام کے ردعمل اور جذبات
کو ٹھنڈا کرنے کیلئے تھے آپ جناب ڈرون حملے جاری رکھیں۔ یہ ہے ہماری اصل
حالت۔ جب اپنے ہی چوروں سے مل جائے تو خیر کی توقع کس سے کی جائے۔
اس صورتحال میں فوج پر انگلی اٹھانے والے سیاستدان اپنے گریبانوں میں
جھانکیں کہ پارلیمنٹ کی وقعت ختم کرنے میں ان کا اپنا سب سے بڑا کردارہے۔
ائر چیف نے برملا کہا ہے کہ وہ ایک اشارے پر امریکی ڈرون گرا سکتے ہیں مگر
امریکہ کے ڈرون حملے اور نیٹو ہیلی کاپٹرز کی سرحدی خلاف ورزی نے پارلیمنٹ
کی قرارداد کا جو حشر کیا ہے اس کے بعد فوج اور آئی ایس آئی کے کردار اور
کارکردگی پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا۔ یعنی حکمرانوں اور سیاستدانوں کی
اپنی کمزوریاں اور ذاتی مفادات ہی اصل میں ہماری سالمیت، وقار، غیرت اور
حرمت کے لئے خطرہ ہیں۔ افواج پاکستان، انٹیلی جنس ادارے، پولیس اور قومی
سلامتی کے دوسرے ادارے تو ان کے تابع ہیں۔ اگر وہی کوئی فیصلہ نہیں کرسکتے
تو اس میں ان اداروں کا کیا قصور؟ |