امریکہ نے افغانستان پر حملہ
کرنے سے پہلے پاکستان حکومت سے تعاون کرنے کا کہا اور ساتھ یہ دھمکی بھی دی
کہ اگر تعا ون نہ کیا گیا تو پاکستان کو پتھروں کے زمانے میں دھکیل دیں گے۔
ہمارے صدر اور فوج کے سربراہ اتنے ڈر گئے کہ فوراًساتھ دینے کا اعلان کر
دیا۔ ان کے ساتھ دینے کی وجہ سے آج پاکستان اربوں روپے کے علاوہ اپنے
شہریوں اور بہادر افواج کے نوجوانوں کی سیکڑوں کی تعداد میں قربانیاں دینے
کے باوجود بھی آج بھی ملامت اور دباؤ کا شکار ہےاور اس کی کارکردگی اور
کاروائیوں پر شک و شبہ کیا جا رہا ہے۔
آج ملک میں لوڈ شیڈنگ کا جو حال ہے وہ پتھروں کے زمانے سے بھی خراب اور بد
تر صورت حال کو ظاہر کر رہا ہے۔ ملک کے زیا دہ حصوں میں بہت زیدہ لوڈ شیڈنگ
ہے ہمارے علاقے میا نوالی میں ہر چار گھنٹوں بعد بجلی آتی ہے اور ایک گھنٹے
کے لئے آتی ہے اور پھر چار گھنٹے کے لئے غائب۔ رات کا سکون ہے اور نہ دن
میں آرام۔ لوگ مختلف بیماریوں اور نفسیاتی مسائل کا شکار ہو رہے ہیں کیونکہ
رات کو نیند پوری نہیں ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ صنعتوں اور فیکٹر یوں کی بندش
کی وجہ سے ہزاروں لوگ بے روز گار ہوئے۔ ذاتی کاروبار والے سارا سارا دن
ہاتھ پر ہاتھ رکھے بجلی کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔
مشرف صاحب اس وقت اگر بزدلی اور کم ہمتی کا مظاہرہ نہ کرتے اور امریکہ کا
ساتھ نہ دیتے تو وہ کچھ بھی نہ کر پاتے۔ قوموں کو مٹانا اور ختم کرنا آسان
نہیں ہوتا ہے۔ جا پان کی مثال آپ کے سامنے ہے کون کہتا تھا کہ ایٹمی حملوں
کے بعد ایک دن دنیا میں اہم مقام حاصل کر لے گا۔ پاکستان تو پھر بھی اللہ
تعالیٰ کے فضل و کرم کا نتیجہ ہے اور اسی کے فضل و کرم کی وجہ سے قائم و
دائم ہے ورنہ ہمارے حکمرانوں اور کرتے دھرتوں نے اس کو ختم کرنے کی کوئی
کسر نہیں چھوڑی اور شروع سے سوائے جناب قائد اعظم کے ہر کسی نے قومی اور
اجتماعی مفادات کو نظر انداز کر کے صرف اور صرف ذاتی اور انفرادی مفادات کو
ترجیح دی۔ اگر مشرف صاحب اس وقت ساتھ نہ دیتے تو قوم ایک ہو جاتی۔ اور ملک
و قوم کی خاطر سب کچھ داؤ پر لگا دیتی مگر ملک و قوم پر کوئی آنچ نہ آنے
دیتی۔ مگر مشرف صاحب نے ملک و قوم کو داؤ پر لگا کر اپنے اور اپنے دوست نما
دشمنوں کے مفادات کا تحفظ کیا۔ اگر ایسا نہ کرتے تو آج حالات کچھ اور ہوتے۔
شاید ملک کی تقدیر بدل جاتی، کشکول ٹوٹ چکا ہوتا، پاکستان دنیا میں ایک
باعزت اور اہم مقام حاصل کر لیتا، عوام میں محبت، بھائی چارہ، اخوت،
رواداری اور ایثار وقربانی کے جذبات پیدا ہو جاتے، پاکستان اپنے پاؤں پر
کھڑا ہونے کے قابل ہو جاتا، دوست اور دشمنوں میں فرق واضح ہو جاتا یعنی
دوست دشمن کی پہچان ہو جاتی کہ کون دوست ہے اور کون دشمن ہے اور سب سے بڑی
بات یہ ہو جاتی کہ ہمارا ملک اور قوم حقیقی آزادی حاصل کر لیتی۔ کیونکہ
کہنے کو تو ہم آزاد ہیں ہمارا ملک آزاد اور خود مختیار ہے لیکن حقیقت میں
ایسا نہیں ہے اس بارے زیادہ کیا لکھوں ہمارا ہر بڑا کام، حکومتی کام، اشیاء
کی قیمتوں میں تبدیلی، حکومتوں کا بننا اور ٹوتنا، افواج کے سربراہوں کی
تعنیاتی کے علاوہ سرحدوں کی کھلم کھلی خلاف ورزی جیسے عناصر آزاد نہ ہونے
کا ثبوت ہیں۔ کسی نے کیا خوب کہا۔
لہو برسا، بہے آنسو، کٹے رشتے، کٹے رہرو
ابھی تک نہ مکمل ہے مگر تحریک آزادی
مگر یہ سب کچھ تو تب ہوتا کہ ہمارے حکمرانوں، افواج اور عوام میں عزت۔ ہمت
اور حوصلہ ہونے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ پر مکمل اور پختہ یقین بھی ہوتا۔
میرے خیال میں تو مشرف صاحب نے ملک و قوم کی آزادی، خود مختاری، بقاء، ترقی
اور خوشحالی کے لئے ملنے والےایک اہم موقع کو ضائع کر دیا۔ آپ کا کیا خیال
ہے ضرور آگاہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ملک کا حامی و ناصر ہو اور اس کی
حفاظت کے ساتھ ساتھ ترقی اور خوشحالی کے اسباب بھی پیدا کرے اور ایسے مخلص
اور ایما ندار حکمران لائے جو ملک و قوم کی حقیقی آزادی، خود مختاری اور
ترقی و خوشحالی کے لئے کام کریں۔ آمین ثمہ آمین |