یکم جولائی 2020ءکی صبح کی خبروں میں ایک مشہور ِزمانہ آن لائن گیم" پب جی" کے بارے میں کچھ اسطرح خبر آئی کہ پولیس کے مطابق عازی روڑ پنجاب سوسائٹی لاہور کے رہائشی 18 سالہ نوجوان شہریار نے ”پب جی“ گیم۔۔۔۔ اس کے کھیلنے کا طریقہ کار یہ ہے کہ اس گیم میں 100 آدمی کارٹون کی شکل میں حصہ لیتے ہیں اور وہ 100 آدمی ہوائی جہاز۔۔۔۔ جیت پر اس کو" وِنر وِنر چکن ڈینر "کے خطاب سے نوازا جاتا ہے۔ یہ اصطلاح 1930ءکی دہائی کے عظیم ڈیپریشن کے دوران بیک-ایلی جوئے بازوں۔۔۔۔۔۔ |
|
|
" پب جی آن لائن گیم ۔وِنر وِنر چکن ڈِنر" کے منفی اثرات تحریر :عارف جمیل [email protected]
یکم جولائی 2020ءکی صبح کی خبروں میں ایک مشہور ِزمانہ آن لائن گیم" پب جی" کے بارے میں کچھ اسطرح خبر آئی کہ پولیس کے مطابق عازی روڑ پنجاب سوسائٹی لاہور کے رہائشی 18 سالہ نوجوان شہریار نے ”پب جی“ گیم کھیلنے سے منع کرنے پر خود کشی کرلی، لاش کو ایدھی ایمبولینس کے ذریعے مردہ خانے منتقل کردیا گیا ۔ واضح رہے کہ ”پب جی“ نوجوانوں اور بچوں میں کافی مقبول آن لائن گیم ہے جسے پاکستان سمیت دنیا بھر میں جنون کی حد تک کھیلا جاتا ہے جب کہ پڑوسی ملک بھارت میں بھی اس گیم کی وجہ سے اموات ہوچکی ہیں۔ موجودہ دور میں ہمارے درمیان ایک موبائل گیم بہت زیادہ مشہور و معروف ہے، جس کا نام " پب جی" ہے۔ اس کے کھیلنے کا طریقہ کار یہ ہے کہ اس گیم میں 100 آدمی کارٹون کی شکل میں حصہ لیتے ہیں اور وہ 100 آدمی ہوائی جہاز کے ذریعہ ایک مخصوص جگہ پر پیراشوٹ کے ذریعہ اُترتے ہیں۔ نقشہ میں جگہ جگہ گھر بنے ہوئے ہیں، ان گھرو ں میں الگ الگ قسم کے ہتھیار ملتے ہیں اور ان ہتھیاروں کے ذریعہ اس گیم میں ایک بندہ دوسرے بندے کو اپنی چالاکی اور عقل سے ہتھیاروں کے ذریعہ مارتا ہے اور وقت کے ساتھ گیم کے اندر سے ایک بجلی کے کرنٹ کا گھیرا آتا ہے جو بچے ہوئے کارٹون یا افراد کو ایک دوسرے سے نزدیک کرتا رہتا ہے۔تا کہ لوگ ایک دوسرے کے سامنے آئیں اور ایک دوسرے کے کارٹون کو مارکر جیت حاصل کرلیں ۔ آخر میں جو 100 میں سے ایک آدمی بچتا ہے وہ جیت حاصل کرتا ہے۔اس جیت پر اس کو" وِنر وِنر چکن ڈینر "کے خطاب سے نوازا جاتا ہے۔ یہ اصطلاح 1930ءکی دہائی کے عظیم ڈیپریشن کے دوران بیک-ایلی جوئے بازوں کی طرف سے سامنے آئی تھی۔ یہ مایوس کن جواری" چکن ڈنر" جیتنے کی اُمید میں جو کچھ بھی کرتے تھے اس پر شرط لگاتے تھے۔ لہذا آج بھی "پب جی" گیم جیتنے والا بندہ اُن جواریوں کی طرح بہت خوشی محسوس کرتا ہے۔ اس کے کھیلنے میں نہ کوئی دینی اور نہ ہی کوئی دنیوی فائدہ ہے، مثلاً جسمانی ورزش وغیرہ، یہ محض لہو لعب اور وقت گزاری کے لیے کھیلا جاتا ہے، جو ”لایعنی“ کام ہے، اور اس کو کھیلنے والے عام طور پر اس قدر عادی ہوجاتے ہیں کہ پھر انہیں اس کا نشہ سا ہوجاتا ہے، اور ایسا انہماک ہوتا ہے کہ وہ کئی دینی بلکہ دنیوی امور سے بھی غافل ہوجاتے ہیں۔ مشاہدہ یہ سامنے آیا ہے کہ جو لوگ اس گیم کو بار بار کھیلتے ہیں، ان کا ذہن منفی ہونے لگتا ہے اور گیم کی طرح وہ واقعی دنیا میں بھی ماردھاڑ وغیرہ کے کام سوچتے ہیں۔جس کے بہت سے واقعات وقوع پذیر ماضی میں بھی ہو چکے ہیں اور یہ آج کا تازہ ترین واقعہ بھی ہے۔ اگر سوال کیا جائے ایسی گیمز کو کیسے کھیلنے سے روکا جائے تو اس کیلئے کھیلنے والوں کے وہ جہاںدیدہ ہم عُمر دوست زیادہ بہتر طور پراُنھیں سمجھا سکتے ہیں جن سے اُنکو دِلی لگاﺅ ہو تا ہے اور قدرتً حقیقی دوست ہر ایک کا ہوتا ہے جو اثر رکھتا ہے۔
|