کسی بھی طلاق یافتہ یا رنڈوے شخص کودوسری شادی کے لیے
کنواری لڑکی کا رشتہ مل جانا کوئی اتنی بڑی بات نہیں ہے ایسی مثالیں عام مل
جاتی ہیں مگر کسی بیوہ یا مطلقہ لڑکی کے لیے کسی کنوارے بر کا میسر آ جانے
کا تو تصور بھی محال ہے ۔ ایسی مثال بہت کم ملتی ہے مگر چند کیس ذاتی طور
سے ہمارے علم میں ہیں کہ کسی لڑکی کے عقد ثانی کے لیے اسے کنوارے لڑکے کا
رشتہ مل گیا ۔
ہماری ایک فرسٹ کزن کی شادی اُس کے فرسٹ کزن سے ہوئی ۔ لڑکی اس لڑکے کے ایک
جسمانی نقص کی وجہ سے اس رشتے سے سخت ناخوش تھی مگر والدین اور خاندان کے
بزرگوں نے اسے سمجھا بجھا کر اس رشتے پر رضامند کر لیا کہ گھر کا لڑکا ہے
نیک ،کماؤ اور ذمہ دار ہے تمہیں بہت خوش رکھے گا ۔ شادی کے کچھ ہی عرصے بعد
دونوں کے درمیان ناچاقی اور سسرالی ماحول میں تلخی و کشیدگی کی خبریں عام
ہونے لگیں ۔ اور انہی حالات میں ایک بیٹا بھی ہو گیا مگر صورتحال میں بہتری
نہیں آئی ۔ اصل میں ہؤا یہ تھا کہ شادی کے بعد لڑکے اور اس کے گھر والوں
خصوصاً اس کی ماں بہنوں کے علم میں یہ بات آ گئی تھی کہ لڑکی کو یہ رشتہ
پسند نہیں تھا اور اسے زبردستی راضی کیا گیا تھا ۔ تو قدرتی طور پر ان کے
دلوں میں بغض و کدورت نے گھر کر لیا تھا اور لڑکا اگر کچھ بہتر تھا بھی تو
انہوں نے اسے بدتر بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ لہٰذا اب لڑکی کی طرف
سے نبھاؤ اور سمجھوتے کی کوششوں کے باوجود انہیں اس کی بات بات میں کیڑے
پڑے ہوئے نظر آنے لگے اور وہ اسے سخت ذہنی و نفسیاتی تشدد کا نشانہ بنانے
لگیں ۔ پھر نوبت جسمانی تشدد تک بھی آن پہنچی اب مفاہمت کی تمام کوششیں
ناکام ہو گئیں ۔ وہ سب بڑے اور بزرگ اپنے فیصلے پر سخت نادم تھے جنہوں نے
لڑکی کی ناپسندیدگی کے باوجود اسے اس رشتے کو قبول کرنے پر آمادہ کیا تھا ۔
نبھاؤ کی مزید کوئی گنجائش نظر نا آنے پر دونوں کے درمیان طلاق کرا دی گئی
اور بچہ لڑکی کی تحویل میں دے دیا گیا ۔
لڑکی خوبصورت بھی تھی اور نوجوان بھی اور ایک بچے کی ماں ہونے کے باوجود اس
بات کا پتہ نہیں چلتا تھا اور خاندان بھی معتبر و معزز تھا لہٰذا سنگل
مردوں کے رشتے آنا شروع ہو گئے اور حیرت انگیز طور پر ایک بہت اچھے خوشحال
گھرانے کے پڑھے لکھے بہت معقول صورت برسر روزگار کنوارے لڑکے کا بھی رشتہ آ
گیا ۔ اور خوب تحقیق و چھان پھٹک کے بعد کوئی شبہ نہیں پایا گیا تو ہاں کر
دی گئی اور شادی بہت دھوم دھام سے تمام مروجہ رسومات کے ساتھ انجام پائی
کیونکہ لڑکے کے گھر والوں کا مؤقف تھا کہ لڑکی کی دوسری شادی ہے ہمارے بیٹے
کی تو پہلی ہے ہم تو اپنے سب ارمان پورے کریں گے ۔ بچے کے متعلق طے کیا گیا
تھا کہ وہ اپنی ننھیال میں رہے گا اور عین رخصتی کے وقت ایک عجیب واقعہ ہؤا
جس کی نظیر نہیں ملتی ۔ دولہے نے کہا کہ بچہ بھی اپنی ماں کے ساتھ ہی رخصت
ہو گا ۔اسے سب نے سمجھایا کہ ابھی تم دلہن لے جاؤ بچہ بعد میں آ جائے گا ۔
مگر وہ نہیں مانا اور کہا کہ بچہ اور ماں دونوں ساتھ ہی جائیں گے اگر بچہ
نہیں جائے گا تو پھر اس کی ماں بھی میرے ساتھ نہیں جائے گی اسے بھی رکھ لیں
۔ اور خود ایک طرف ہو کے کھڑا ہو گیا ناچار اس کی بات مانتے ہی بنی اور اس
عظیم نوجوان نے مروت رواداری اور اعلا ظرفی کی جو عظیم مثال قائم کی اس کے
لیے وہ والدین بھی قابل تحسین ہیں جنہوں نے اس کی تربیت کی اور اس کے لیے
ایک بچے کی ماں کا انتخاب کرنے کو کوئی عیب نہیں جانا ۔ پھر اس نے اس بچے
کو اپنی سگی اولاد کی طرح پالا خود ہماری کزن سے اس کی دو بیٹیاں ہوئیں مگر
اس نے کبھی بچوں کے درمیان کوئی فرق نہیں رکھا ۔ اس لڑکی کو خود اپنے خون
کے رشتوں سے جو دکھ ملے تھے ان سب کا غیروں میں جا کر ازالہ ہو گیا جب تک
اس کے شوہر جیسے عظیم و اعلا ظرف لوگ دنیا میں باقی ہیں یہ دنیا کبھی ختم
نہیں ہو سکتی ۔
|