جنت میں کیا خوب منظر ہوگا ۔ ہر سو خوشی کا سماں ہوگا ۔
’’صبح منور شام منور ، روشن تیرا نام منور ، سید منور سید منور‘‘ کے نعروں
کے درمیان جنت کے دروازے پر مولانا مودودی ، قاضی حسین احمد ، میاں طفیل
محمد ، ڈاکٹر وسیم اختر ، نعمت اﷲ خان اور ان کے دیگر رفقائے کار نے سید
منور حسن کا استقبال کیاہوگا ۔ قاضی حسین احمد نے اپنے مخصوص انداز میں
منور حسن کو بانہوں میں لے کر ماتھا چوما ہوگا ۔ اور باقیوں نے بھی انہیں
بھرپور انداز میں خوش آمدید کہا ہوگا ۔ ایسا شاندار استقبال دیکھ کر فرشتے
بھی عش عش کر اٹھے ہوں گے ۔ یقینا اپنے ہم عصروں سے ملکر سید منور حسن کی
روح بھی خوش ہو گئی ہوگی ۔ جنت میں علماء کرام اور باقی ساتھیوں کی
ہمسائیگی میسر آنے پر منور حسن نے اطمینان کا سانس لیا ہوگا ۔
بلکہ یہ اطمینان تو دنیا میں ہی ان کا وطیرہ تھا ۔ وہ ایسی مطمئن نفس تھے
جو یقینا جنت میں داخل ہونے کیلئے ہی بنائی گئی تھی ۔ اسی لئے انہوں نے
مختصر زادِ راہ کے ساتھ ایک درویش کی سی زندگی گزاری ۔ ان کا دل عشق رسولؐ
سے لبریز تھا ۔ کم گو تھے ، لیکن بات کی تو غلبہ اسلام کی بات کی ۔ وہ علم
و عمل کے میزان میں ایسے کھرے شخص تھے جو ، تھے تو ایک سیاستدان ، لیکن
سیاست کی بجائے زیادہ تر دین کی بات کرتے تھے ۔ ایک سیاستدان ہوتے ہوئے بھی
جدوجہد کی تو ’’کرسی‘‘ کی بجائے اقامت الیٰ اﷲ اور غلبہ اسلام کیلئے کی ۔
کبھی اپنا نظریہ نہیں بھولے ۔ ایک بااصول زندگی گزاری ۔ ان کی گفتگو کی ہر
کڑی رجوع الیٰ اﷲ پر آ کر ملتی تھی ۔
میری جب بھی منور حسن سے ملاقات ہوئی ، دنیا داری سے بے نیاز پایا ۔ نماز
کا وقت ہوتا تو اذان عموماً مسجد میں سنا کرتے ۔ گھر ہوتے یا دفتر ، موذن
کے بعد منور حسن ہی مسجد میں جانے والے پہلے شخص ہوا کرتے تھے ۔ متقی ،
پرہیز گاری ، تکبیر اولیٰ ، سادگی ، عاجزی اور انکساری کا ایسا نمونہ تھے
کہ کردار اور گفتار میں ، صحیح معنوں میں اﷲ کی برہان تھے ۔ انہیں دیکھ کر
قرون اولیٰ کی یاد تازہ ہوتی تھی ۔ خوداحتسابی کے ایسے قائل تھے کہ اپنی
بیٹی کی شادی میں موصول ہونے والی سلامیاں بھی جماعت اسلامی کے بیت المال
میں یہ کہہ کر جمع کروا دی کہ یہ تحائف لوگوں نے جماعت کے امیر کی حیثیت سے
دئیے ہیں لہذا ان کی بیٹی پر ان پر کوئی حق نہیں ۔ منور حسن بائیں بازو سے
تعلق رکھتے تھے لیکن پھر دائیں بازو کی طرف ایسے مائل ہوئے کہ آخری دم تک
اسی کو ہی پکڑے رکھا ۔
منور حسن کتنوں کے ہی مرشد تھے ۔ کئیوں نے ان ہی سے جینا سیکھا ۔ کتنے ہی
مایوس لوگوں میں ا ن کی وجہ سے امید پیدا ہوئی ۔ ہمیشہ حق بات ہی کہی ، اور
پھر ہر قسم کے پریشر اور تنقید کے باوجود اس پر ڈٹے رہے ۔ وہ اپنے دو ٹوک
موقف کی وجہ سے جماعت کے اندر اور جماعت کے باہر ، دونوں ہی طبقات میں وہ
حق گوئی و بیباکی کی عمدہ مثال تھے ۔ جو کہا ، پھر اس پر یو ٹرن نہ لیا
بلکہ ڈٹ گئے ۔ اس ضمن میں وہ مقتدر قوتوں کی پرواہ کرتے تھے اور نہ ہی
’’پوشیدہ‘‘ قوتوں کو خاطر میں لاتے تھے ۔کئی ایسے موڑ آئے جب منور حسن کو
اپنے کسی موقف پر اکیلے کھڑے ہونا پڑا لیکن انہوں نے پھر بھی پیچھے مڑ کر
نہ دیکھا اور کسی کے ساتھ کی پرواہ نہ کی ۔ بعد ازاں حالات نے سید کے بے
شمار موقف درست ثابت کئے ، جس سے ان پر تنقید کرنے والے بھی ان کی دور
اندیشی کے قائل ہوئے ۔
لہو میں بھیگے تمام موسم گواہی دیں گے ، تم کھڑے تھے
وفا کے رستے کا ہر مسافر گواہی دے گا ، تم کھڑے تھے
بلاشبہ سید منور حسن کی رحلت سے جرات ، بیباکی اور حق گوئی کا ایک عہد ختم
ہوا …… سیاست میں خود احتسابی ، ایمانداری اور نفاست کا اک باب بند ہوا ،
مگر پاکستان کی سیاسی تاریخ میں وہ نفیس ، اجلے اور بے داغ سیاستدان کے طور
پر ہمیشہ زندہ رہیں گے ۔ بے شک وفات کیلئے جمعہ کا مبارک دن سید منور حسن
جیسے خوش قسمتوں کو ہی نصیب ہوتا ہے ۔
سوچتے ہیں ڈھلیں گے یہ اندھیرے کیسے
لوگ رخصت ہوئے ، اور لوگ بھی کیسے کیسے
|