ملک میں اس امر کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی ہے کہ
ملی یکجہتی کو فروغ دینے کے لئے ہمہ جہتی ہم آہنگی پیدا کی جائے۔ملک کو اس
کے خارجی اور بیرونی دشمنوں نے اتنا نقصان نہیں پہنچایا، جتنا اس کے داخلی
اور اندرونی دشمن پہنچایاہے۔ خارجی اور بیرونی دشمن تواعلانیہ ہمارے خلاف
برسرپیکار ہیں، لیکن یہ داخلی اور اندرونی دشمن زیر زمیں اور پس پردہ
کارروائیوں سے ہماری وحدت کو پاش پاش کرنے میں مصروف ہیں،خارجی دشمنوں کے
یہ ایجنٹ نہایت خطرناک ہیں ۔
یہ عناصرملک میں آگ لگاناچاہتے ہیں،بیرونی طاقتوں کے ایماء پریہ لسانی،قومی
،مسلکی انتشار اور فساد پھیلانے کی کوشش کررہے ہیں جبکہ فرقہ ورانہ تقسیم
کا خمیازہ قوم پہلے بھی کئی مرتبہ بھگت چکی ہے لسانی اور فرقہ ورانہ تقسیم
کے پرانے آزمودہ ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ اب فکری انتشار کا خنجر بھی پاکستان
کے نظریاتی وجود پر تسلسل سے چلایا جا رہا ہے۔وہ پریشر گروپس اورقوم پرستی
کی علمبردار جماعتیں جوتقسیم اورمنافرت کے زہر کو اس ملک کی شریانوں میں
دوڑانا چاہتی ہیں، انہیں اپنے نظریات و عزائم پر نظرثانی کرنا چاہئے۔ انہیں
سوچنا چاہئے کہ کیا تاریخ کے اس نازک اور حساس موڑ پر وطن عزیز اِن
متعصبانہ اور تنگ نظرانہ رجحانات و تصورات کے فروغ کا متحمل ہو سکتا ہے؟
یہ سازشی عناصرکمزورحکومت اورکمزورمعیشت کافائدہ اٹھارہے ہیں ،ایک طرف فرقہ
وارانہ تصادم کی کوششیں کی جارہی ہیں صحابہ کرام واہل بیت اورمقدس شخصیات
کونشانہ بنایاجارہاہے ،سوشل میڈیاپراس حوالے سے ایک طوفان بدتمیزی برپاہے
تودوسری طرف استعماری طاقتوں کے ایجنٹ نظریہ پاکستان پرحملہ آورہیں وہ ملک
کی نظریاتی بنیادوں کوکھوکھلاکرنے کے درپے ہیں ،ایک طرف ملک سے توہین رسالت
کے قوانین کاخاتمہ اورتوہین رسالت میں ملوث ملزمان کی رہائی کے لیے ایڑی
چوٹی کازورلگایاجارہا ہے تودوسری طرف پی ٹی ایم جیسی جماعتیں قوم پرستی
اورلسان پرستی کے نام پربھی اختلافات کوہوادے رہی ہیں اورنوجوانوں کوگمراہ
کررہی ہیں ۔
اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے سیکرٹری جنرل
قاری محمدحنیف جالندھری نے کہاہے کہ ہم اس وقت عالمی، علاقائی اور قومی سطح
پر جن مسائل و مشکلات اور چیلنجز سے دوچار ہیں ان سے عہدہ برا ہونے کیلئے
قومی وحدت اور ہم آہنگی کو قائم رکھنا ازحد ضروری ہے کیونکہ سیاسی، لسانی،
علاقائی، مسلکی یا قومیتی حوالے سے کوئی بھی تفریق کسی بھی بیرونی قوت
کیلئے مداخلت کاری کا ذریعہ بن سکتی ہے، جس کے ہم کسی صورت میں متحمل نہیں
ہیں، اس لئے قوم کے تمام طبقات بالخصوص دینی و مذہبی رہنماء صورت حال کی
سنگینی کو محسوس کریں اور ان عناصر سے ہوشیار رہیں جو ان میں سے کسی بھی
حوالے سے قوم کے مختلف طبقات کو باہم دست و گریبان کرنا چاہتے ہیں اور ان
کیلئے کسی عنوان سے بھی سازش کر سکتے ہیں۔
یہ ایک کھلا راز ہے کہ ملک بھر میں قوم پرستی،صوبہ پرستی، لسان پرستی اور
علاقہ پرستی کے نام پر تعصب پھیلانے والی جماعتیں کھلے بندوں کام کرتی رہی
ہیں اورکررہی ہیں۔ لسانی اور فرقہ ورانہ تقسیم نے تو ماضی میں بھی متعدد
بار قیمتی جانوں کا خراج وصول کیا ۔ دشمن نے ہماری کو تاہیوں کو بنیاد بنا
کر مشرقی پاکستان کو جدا کرنے کے لیے لسانی تعصب کا ہتھیار استعمال کیا ۔
سندھی ، مہاجر، پنجابی ، بلوچی اور پشتون قومیت کے نعرے بلند کروا کر لسانی
تعصب کے ہتھیار سے کئی مر تبہ پاکستان کے وجود پر وار کئے گئے ۔ لندن میں
پناہ گزین مہاجر قومیت کاعلمبردار ، یورپی ممالک کے عشرت کدوں میں روپوش
بلوچ قومیت کے پرچارک اور آج کل پاکستان میں سر گرم پشتون قوم کے نومولود
نام نہاد محافظ ایک ہی کشتی کے سوار ہیں ۔مسلم قومیت کی بنیاد پر قائم ہونے
والے ملک کو لسانی تعصب کی بنیاد پر تقسیم کرنے کے بھارتی خواب کو عملی
تعبیر دینے کے لیے بھانت بھانت کے سیاسی شعبدہ باز سرگرم عمل ہیں ۔
حکومت نے متعددبارمذہبی اورمسلکی جماعتوں پرپابندی عائدکی اب وقت آگیاہے کہ
پشتون تحفظ موومنت جیسی جماعتوں کولگام ڈالی جائے امریکی ڈالرزپرملک میں
انتشارپھیلانے والوں کاناطقہ بندکیاجائے،کیوں کہ تشدد پسندی اور انتہا
پسندی کے پرچارک صرف مسلکی اورمذہبی تنظیموں ہی میں موجود نہیں بلکہ ان سے
کہیں بڑی تعداد میں یہ عناصر لسان پرست، علاقہ پرست، صوبہ پرست،لبرل ازم کے
علمبردار اور قوم پرست جماعتوں میں موجود ہیں۔ ،انہیں حدودوقیود
کاپابندکیاجائے ،اظہارآزادی رائے کے نام پریہ ملک کی نظریاتی بنیادوں
پریلغارکرنے والوں کامحاسبہ کیاجائے ،
اس معاملے میں آزادحکومت نے ایک اقدام اٹھایاہے آزادکشمیرکے ایکٹ میں 14ویں
ترمیم میں یہ تجویزکیاہے کہ آزاد جموں و کشمیرمیں کسی بھی فرد یا سیاسی
جماعت کو اجازت نہیں ہو گی کہ وہ ریاست کے پاکستان سے الحاق کے نظریہ کے
خلاف پروپیگنڈہ کرئے، مخالفانہ سرگرمیوں میں حصہ لے۔یہ قانون حکومت پاکستان
کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ کسی بھی سیاسی جماعت کے پاکستان یا آزاد جموں و
کشمیر کی سالمیت اور خودمختاری کے خلاف کام کرنے کی نشاندہی کر سکے
گی۔حکومت پاکستان اس طرح کے اعلان کے پندرہ دن کے اندر معاملہ سپریم کورٹ
کے پاس بھیجے گی جس کا فیصلہ حتمی ہوگا۔ آزاد جموں و کشمیرمیں کسی بھی فرد
یا سیاسی جماعت کو اجازت نہیں ہو گی کہ وہ ریاست کے پاکستان سے الحاق کے
نظریہ کے خلاف پروپیگنڈہ کرے اور مخالفانہ سرگرمیوں میں حصہ لے۔
اسی طرح کی قانون سازی ان سازشوں کاقلع قمع کرسکتی ہے علاقائی ،نسلی و
لسانی تعصب قوموں کو دیمک کی طرح کھوکھلا کر دیتے ہیں اس لیے اس ناسور کو
پرورش پانے اور جڑ پکڑنے سے قبل ہی ختم کر دینا چاہیے۔عوام یہ مطالبہ کرنے
میں حق بجانب ہیں کہ قوم پرست، لسان پرست، علاقہ پرست اور صوبہ پرست تمام
رہنماؤں کی جماعتوں کے ہیڈ کوارٹرز اور کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹرز کے خلاف
ٹھوس شواہد کی بنا پر نتیجہ خیز کریک ڈاؤن کیاجائے اور مستقبل میں ان سے
رابطہ کرنے والے تمام افراد کی نقل و حرکت کو سنجیدگی سے مانیٹر کیا جائے،
اس سے قبل اربابِ حکومت فرقہ وارانہ اور مسلکی انتہا پسندی سے نجات دلانے
کے لئے متعدد مسلک پرست اور فرقہ پرست انتہا پسند جماعتوں پر پابندی عائد
کر چکے ہیں جو یقیناایک مثبت قدم ہے۔ اس تناظر میں محبِ وطن عوامی حلقوں کی
رائے ہے کہ تشدد پسندی اور انتہا پسندی کے پرچارک صرف مسلکی اور فقہی
تنظیموں ہی میں موجود نہیں بلکہ ان سے کہیں بڑی تعداد میں یہ عناصر لسان
پرست، علاقہ پرست، صوبہ پرست اور قوم پرست جماعتوں میں موجود ہیں اور انہوں
نے سیاستدان یا ارکان پارلیمان کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے خاص طورپرپی ٹی ایم
جیسی جماعتوں نے ۔
اس امر کا سراغ لگانا از بس ضروری ہے کہ ان قوم پرست جماعتوں کی انتہائی
مہنگی سرگرمیوں کو کونسی داخلی و خارجی قوتیں اقتصادی اور مالی سطح پر
سپانسر اور فنانس کر رہی ہیں۔ پہلی فرصت میں ہونا تو یہ چاہیے کہ ملک و قوم
کے بہترین مفاد میں کسی بھی قسم کے تعصب ، انتہا پسندی اور تفریق و انتشار
کی علم بردار ہر جماعت پر بلاتاخیر پابندی عائد کر دی جائے اور ان کے تمام
فنڈز اور اثاثے بحق سرکار ضبط کر لئے جائیں۔ ان تعصب کے فروغ کے لیے کام
کرنے والی ان تحریکوں کے بینر اور پلے کارڈ ہولڈرز کو ابتدائی مرحلے پر ہی
کچل دینا چاہیے۔ ان سنپولیوں کو سانپ بننے کا موقع نہ دیا جائے ۔
|