عالمی سیاست میں ایک سال کسی بڑی اہمیت کا حامل نہیں ہوتا۔
اپنے دوسرے مدت کار کے پہلے سال میں جون 2019 سے لے کر نومبر 2019 تک وزیر
اعظم نریندر مودی نے کل 14ممالک کے دورے کیے یعنی ہر مہینے 2 سے زیادہ اور
اس کے بعد اس کے بعد 7 مہینوں تک انہوں نے اپنے ملک سے باہر قدم نہیں رکھا۔
اس دوران ان کے دل پر کیا گذری ہوگی اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہےکیونکہ
سرکاری خرچ پر ساری دنیا میں موج منانے کا مزہ کچھ اور ہی ہوتا ہے۔ وزیر
دفاع راجناتھ سنگھکو وکٹری پریڈ میں شریک ہونے کے لیے ماسکو بھیجا گیا ،
ممکن ہے ان سے قبل وزیر داخلہ امیت شاہ کو یہ پیشکش کی گئی ہو لیکن انہوں
نے بھی کورونا کے ڈر سے معذرت چاہ لی ہو ۔ پچھلے سال ستمبر کے مہینے میں
وزیر اعظم مودی نے روس کے دورے پر بڑے فخر سے اعلان کیا تھا کہ’’روس کے اس
دوردراز علاقے میں میرا دورہ، کسی ہندوستانی وزیر اعظم کا پہلا دورہ ہے جو
دونوں ممالک کے درمیان مضبوط دو طرفہ تعلقات کو مضبوط تر کرنے کی خواہش کو
نمایاں کرتا ہے ’’۔ وزیر اعظم کو پہلی بار کچھ نہ کچھ کرکے دکھانے کا مالی
خولیا ہے۔ اس کا اظہار اکثرو بیشتر ان کے حواری کرتے ہیں لیکن اس بار تو
انہوں نے خود ہی کردیا تھا۔
روسی دورے کے موقع پر صدر پوتن نے نریندر مودی کو 2020 ء میں گریٹ پیٹر
یاٹک جنگ (یعنی جنگ عظیم) میں کامیابی کے 75 سالہ جشن میں شرکت کی دعوت دی
ظاہر ہے مودی جی اس کو ٹھکرانے غلطی کیسے کرسکتے تھے۔ اسی ماہ مودی جی
امریکہ کے شہر ہیوسٹن پہنچ گئے اور وہاں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو گواہ بناکر
اعلان کیاکہ ’’بھارت میں سب چنگا سی‘‘۔انہوں نے واپسی سے قبل اقوام متحدہ
کے ۷۴ ویں سالانہ اجلاس میں بھی شرکت کی ۔ اگلے ماہ اکتوبر میں وہ سعودی
عرب گئےاور نومبر کے اندر پہلے تھائی لینڈ اور پھر برکس کے ۱۱ویں اجلاس میں
شرکت کرنے کے لیے برازیل جا پہنچے ۔برازیلمیں ان عزیز دوست شی جن پنگ بھی
موجود تھے ۔ اس ملاقات کے دوران دونوں رہنماؤں نے مہابلی پورم میں غیر رسمی
سربراہی مذاکرات کی کامیابی پر خوشی کا اظہار کیا اور نئی تجارت اور
اقتصادی معاملات پر گفتگو کرنے کے لیےاعلی سطحی اجلاس منعقد کرنے پر اتفاق
کیا۔ دونوں رہنماؤں نے ہندوستان اور چین کے سرحدی مسئلہ پر خصوصی نمائندے
سطح کی بات چیت آگے بڑھانے کے لیے اگلا اجلاس بہت جلد منعقد کرنے پر بھی
رضامندی ظاہر کی۔ کاش کہ درمیان میں کورونا کی وبا نہ آتی۔ سرحدی تنازع
اگرحل نہ بھی ہوا ہوتا تب بھی کم ازکم گلوان جیسی صورتحال نہیں پیدا ہوتی۔
برازیل میں روس کے سربراہ پوتن بھی موجود تھے ۔ مودی اور پوتن نے پھر سے
ہندوستان و روس کے تعلقات میں پیش رفت کا جائزہ لینے کر بعد اطمینان کا
اظہار کیا کیونکہ 2025 تک باہمی تجارت کے25 ارب ڈالر تک پہنچانے کا ہدف
پہلے ہی حاصل ہو چکا تھا۔ پوتن نے مودی کو دوبارہ روس کے یوم فتح یعنی
وکٹری ڈے پریڈ میں شرکت کی دعوت دوہرائی ْ ۔ اس کو وزیر اعظم نریندر مودی
نے بصد شوق قبول کرلیا لیکن انہیں کیا پتہ تھا کہ کورونا کا خوف انہیں اپنے
گھر میں دبک کر بیٹھنے پر مجبور کردے گانیز انہیں ان کے حریف خاص کو ماسکو
جانے کا موقع مل جائےگا ۔ اس غیر متوقع سعادت کے لیے راجناتھ سنگھ کوکورونا
کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ انہوں نے بھی موقع غنیمت جان کر رخت سفر باندھ
لیا کیونکہ مودی ہے تو بہت کچھ ممکن ہے لیکن یہ ناممکن ہے کہ بیرون ملک کسی
اہم دورے کا موقع کسی اور کو نصیب ہو جائے۔ کورونا نے ایک ناممکن کو ممکن
بنادیا۔
راجناتھ سنگھ جس وکٹری ڈے پریڈ کی تقریب میں شرکت کے لیے روس گئے تھے اس کا
اہتمام ہر سال دوسری جنگ عظیم میں سوویت یونین کی جانب سے نازی جرمنی کو
شکست دینے کی یاد میں کیا جاتا ہے۔ اس جنگ میں ایک کروڑ 60 لاکھ فوجیوں نے
حصہ لیا تھا۔ اس کی سالگرہ کے موقع پر سوویت یونین کی جانب سے جنگ میں حصہ
والے فوجیوں کو ’دی آرڈر آف دی پیٹریوٹک وار‘ نامی اعزاز سے نوازہ جاتا ہے۔
اس سال ماسکو کے ریڈ اسکوائر میں منعقد ہونے والی پریڈ میں 14 ہزار فوجی،
200 سے زائد بکتر بند گاڑیاں اور 75ہوائی جہازوں نے روس کی فوجی طاقت کا
مظاہرہ کیا ۔ اس تقریب میں شرکت کے لیے۱۳ ملکوں کے اعلیٰ سطحی نمائندے
ماسکو پہنچے جن میں ہندوستان ، بیلاروس، آرمینیا اور منگولیا کے فوجی بھی
شامل تھے۔
راج ناتھ سنگھ نے وہاں جاتے ہوئے ٹویٹ کرکے کہا کہ یوم فتح کی 75ویں سالگرہ
میں شرکت ایک بڑے اعزاز کی بات ہےکیونکہ ریڈ اسکوائر پر ہندوستانی فوجی
دستہ بھی مارچ کرے گا۔ تینوں افواج کا 75رکنی دستہ پریڈ میں حصہ لینے کے
لئے راجناتھ سے پہلے ماسکو پہنچ چکا تھا۔ ہندوستان کے مارچنگ دستہ کی قیادت
سکھ لائٹ انفنٹری کے میجر نے کی کیونکہ اس ریجیمنٹ نے دوسری عالمی جنگ میں
حصہ لیا تھا اور بڑی قربانی دی تھی ۔اس کا اعتراف کرتے ہوئے اس کو دو ملٹری
کراس کے تمغے بھی ملے تھے۔راج ناتھ سنگھ نے اس موقع پر دوسری عالمی جنگ میں
اپنی جان قربان کرنے والے ہندوستانی سپاہیوںکو یاد کیا ۔وکٹری ڈے پریڈ میں
ہندستان اوردیگرممالک کے افواج کی شرکت ایک معنیٰ میں روسی قربانی کو خراج
عقیدت پیش کرنا تھا۔
وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے روس کے تین دن کے دورے پر ہندوستان اور روس کے
دفاعی اور کلیدی اشتراک کو مزید فروغ دینے کوشش کی ۔ دونوں ممالک کے وزارت
داخلہ کے درمیان دہشت گردی اور منظم جرائم کا مقابلہ کے معاہدوں پر دستخط
ہوئے ۔ اس معاہدے کے تحت باہمی معلومات میں شراکت داری کی جائے گی ۔ یہ
معاہدےنے اکتوبر 1993ء کے معاہدہ کی جگہ لے لی ہے ۔ راجناتھ سنگھ نے روس کے
وزیر داخلہ ولادیمیر کولوکولڈ اور دیگر قائدین سے ملاقات کی ۔ راجناتھ سنگھ
وزیر داخلہ کی حیثیت سے 18ستمبر 2016کو روس کا دورہ کرنے والے تھے لیکن اسے
ملتوی کردیا گیا۔اس بار کورونا کی بدولت ان کو موقع مل گیا ۔ اس موقع پر
وزیردفاع نےروسسے S-400 طرز کا میزائل شکن نظام کو جلد حاصل کرنے کی خاطر
روسکے وزیر دفاع سے ملاقات کی ۔ وزیر دفاع کے دورے کو چین سے سرحدی تنازع
کے پیش نظر ہندوستان کی فوجی صلاحیت بڑھانے کی کوشش کے طور پر دیکھا گیا
تاکہ چین کو ڈرایا جاسکے۔
ہند و روس کے قریبی تعاون کی ایک طویل تاریخ ہے۔ سرد جنگ کے زمانے اپنی
تمامتر غیر جانبداری کے باوجود ہندوستان کا جھکاو روس کی جانب تھا لیکن یک
قطبی دنیا میں ہندوستان نے اپنے قدیم دوست کا ساتھ چھوڑ دیا اور امریکہ اور
چین کا حلیف بن گیا۔ فی الحال چین سے ہندوستان کے تعلقات بگڑ چکے ہیں اور
روس و چین اچھے دوست بن چکے ہیں۔ امریکہ بہادر کشمیر سے لے کر چین تک ہر
معاملے میں ثالثی کی پیشکش کردیتا ہے لیکن ہندوستانی حکومت اس سے معذرت
کرلیتی ہے کیونکہ احمق دوست دشمن سے زیادہ مضر ہوتا ہے ۔ ہندوستان اب پھر
ایک اپنے پرانے دوست روس کی جانب متوجہ تو ہوا ہے لیکن اس بات کا امکان کم
ہے کہ وہ اس کے کسی کام آسکےلیکن خطرہ یہ ہے کہ اس قربت کے سبب امریکہ
ناراض ہوجائے۔ خیر بین الاقوامی تعلقات میں پر اس کا کوئی فائدہ ہویا نہ ہو
لیکن قومی سطح پر اپنے آپ کو دوسرے نمبر سمجھنے والے وزیر داخلہ کی اہمیت
اس سے کم ہوگئی ہے اور وہ تیسرے نمبر پر آ گئے ہیں۔ اس کے دورے سے وزیر
دفاع کا وقار بڑھا ہے اور اب راجناتھ نے روس میں ملک کی نمائندگی کرکے
اپنادوسرا نمبربحال کرلیا ہے ۔
|