وہ ہماری اولاد نہیں ہے!

ً

ہا تھوں کو گھٹنوں کے گرد لپیٹے، زمین پر بیٹھی وہ اپنی خالی آنکھو ں میں آنسوں سمبھالے ہوے تھی۔
ابھی اسکی شادی کا تیسرا مہینا پورا ہواتھا!۔۔ ماں سے کل ہی توملی تھی!۔۔تین دن بعد عید ہے!۔۔

ایک کم عمر نئی نویلی دلہن جس کے ہاتھوں کی مہندی ابھی باقی تھی، صرف تین ماہ پہلے اس کی شادی ہوئی اور صرف تین مہینے میں اس کی دنیا اجڑ جائے گی کس نے سوچا تھا نہ جانے کن ظالموں نے اس بیچاری کے شوہر کو راہ چلتے گولی ماردی، آخر شہر کراچی میں چلنے والی اندھی گولیوں کا ایک اور نشانہ بنا!۔۔ گھر کا چراغ اپنے پیچھے تین ماہ پرانی دلہن کی زندگی میں اندھیرا کرتا ہوا بجھ گیا۔ اب آگے کیا ہوگا اس بیچاری کا؟۔۔

ایسے ہزاروں سوال اسکے گرد گونج رہے تھے، پر وہ! نہ۔۔۔ جانے کس حواس میں تھی! شاید اپنے شوہر کو خود جنت تک چھوڑنے چلی گئی تھی، خاموش، بے جان اور بے ہس۔

ہم سب نے بہت عرصے کے بعد انکے گھر میں خوشیاں دیکھیں تھی۔ا للہ!۔۔اللہ!۔۔ کر کے اسکی دو بہنوں کی شادی ہوی تھی! ماں کو کچھ سکون قلب ملا تھا۔ حالات کے نشیب و فراز ک بعد اب کہیں اسکو یہ خوشیاں نصیب ہوئی تھی۔ بڑی امیدیں اور خوابوں سے بھرا پیالہ لے کر سسرال کی دہلیز پر قدم رکھا،ابھی تو وہ خو شیاں سمیٹ رہی تھی کہ اچانک غم کے یہ بادل آن گھیرے۔

وہ سوچنے لگی کہ میری خوشیوں کی زندگی اتنی مختصر کیسے ہو سکتی ہے۔ میں تو ابھی اپنے حسیں خوابوں کو اپنے خیالوں میں سجا رہی تھی، ایسا لگا جیسے آنکھ کھل گئی اور خواب چکنا چور ہوگیا۔
یہ کیا ہوگیا؟۔۔۔ اف!میرے اللہ! میرا کیا قصور تھا؟۔۔ میری خوشیوں کی زندگی اتنی مختصر کیوں؟۔۔۔۔اتنا بھی ستم کم نہ تھا کہ پتہ چلا اس بدنصیب کے اندر ایک جان اور پروان چڑھ رہی ہے۔

وقت اپنی کروٹ بدلتار ہا!۔۔ دن ہفتوں میں، ہفتے مہینوں میں اور مہینے سالوں میں بدل گئے!۔۔

غم کے بادل وقت کے ساتھ ساتھ چھڈ گئے کچھ عرصے میں ایک ننھی پری نے اس کی زندگی میں آکر دوبارہ رنگ بھر دیئے اور وہ سب بھول کر اپنی بچی کی پرورش میں مصروف ہو گئیں۔ماں کی ممتا نے جوش مارا اور یہ سوچنے پر مجبور ہوگئی کے میرے بعداس بیٹی کا کیا بنے گا، جو اپنے ساتھ ایک اور بیٹی کو لیئے بنا سایبان کے زندگی کا سفر کاٹ رہی ہے۔

دھیرے!۔۔دھیرے!۔۔ کرکے سارے بچے اپنی اپنی زندگی میں مصروف ہوتے جارہے ہیں اور میری اس بدنصیب بیٹی کی زندگی ابھی تک ویران ہے۔ اس دوران رشتے تو بہت آئیں مگر لوگ بڑی بے حسی سے کہہ جاتے کہ شادی کے لئے تیار ہیں پر اولاد آپ رکھلیں کیونکہ یہ ہماری اولاد نہیں ہے۔

گمان یہ تھا!۔۔ کہ بیٹی محض 22 سال کی خوبصورت اور تعلیم یافتہ لڑکی ہے تو کوئی اچھے لوگ مل ہی جائیں گے مگر سالوں گزر جانے کے بعد ماں کے دل میں یہ امید میں دم توڑنے لگی۔ بس ماں کو اس بات کی فکر ستانے لگی کہ میرے آنکھ بند ہونے سے پہلے کوئی مناسب صحبان مل جائے جو اس کیساتھ اسکی بیٹی کو بھی اپنائے۔

ہمارے معاشرے کا یہ المیہ ہے کہ لوگ اس ماں کو تو اپنانے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں پر اس کے بچے کو اپنانے کے لیے کوئی تیار نہیں ہوتا۔بیٹی سے شادی کرنے کو تیار ہیں لیکن اس کی اولاد کو اپنانے کو تیار نہیں۔ کوئی بھی اس ننھی بچی کے سر پر اپنا ہاتھ نہیں رکھنا چاہتا۔بغیر اس بات کی نازکت کو سمجھے کہ کسی کے جذبات کو کتنی تکلیف پہنچیگی، جہاں دو مائیاں موجود ہوں اور تیسری ناں یہ کہ کر چلی جاتی ہے کہ اس کی اولاد کو آپ رکھ لیں کیونکہ وہ ہماری اولاد نہیں ہے یہ الفاظ بھی ایک ماں ہی کہتی ہے جو کہ ماں کے جذبات کو اچھی طرح سمجھ سکتی ہے۔

کاش!۔۔ہمارے معاشرے کی سوچ میں تبدیلی آجائے کہ وہ خاندان اس بچے یا بچی کو اپنا لے جو معصوم ہے،جو اپنی ماں کے بغیر نہیں رہ سکتے اور یہ بات اکثرہمارے دیندار لوگ بھی کہتے نظر آتے ہیں، جب کہ وہ دین کو خوب اچھی طرح سمجھتے ہیں۔جانتے ہیں کہ سوتیلا والد بھی والد کے درجے پر فائز ہوتا ہے۔
ہمارے معاشرے کی کتنی عورتیں سنگل پیرینس بننے پر مجبورہیں، اس دنیا میں اکیلی اور تنہاہیں یہ آپ بھی جانتے ہیں اور ہم بھی۔کاش!۔۔ ہمارے معاشرے کے لوگوں کی یہ جہالت والی سوچ ختم ہو جائے اور ماں کے ساتھ اس معصوم بچے کو بھی اپنانے پر تیار ہو جائیں تو کوئی بچہ اپنے والدین سے محروم نہیں رہیگا اور اس طرح کی مجبورعورتیں جن کو کسی صحبان کی ضرورت ہواوروہ ایک عزتدار زندگی گزار سکیں۔

آج اگر میری اس بات سے کوئی ایک گھر بھی تبدیل ہوگیا تو اللہ کے کی بارگاہ میں سرخروں ہوجاؤں گی کیونکہ ہمیں اس تبدیلی کی شدید ضرورت ہے!۔۔۔
 

Saeeda Tahir
About the Author: Saeeda Tahir Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.