پی آئی اے کے پاس بتیس جہاز ہیں اور آٹھ سو باسٹھ پائلٹس ہیں کیوں اس کا جواب اگر عوام کو دیا جائے تو بہتر ہو گا میرے خیال میں لاکھوں میں تنخواہ لینے والے ان پائلٹس کو روزگار فراہم کیا گیا تھا یہ اور بات ہے کہ یہ ادارہ مسلسل خسارے کا شکار رہا۔اب ذرا پی آئی اے کے ماضی کی طرف جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہی ادارہ ملکی وقار اور عزت کا باعث تھا اسی ادارے نے آج کی کئی کامیاب ائیر لائنز کی بنیاد ڈالی یا اُسے کامیابی کے گُر بتائے۔امارات سے لے کر سعودی ائیر لائنز اور پھر مالٹا کی ہوائی کمپنی تک سب کی کامیابی آج کے اسی ناکام پی آئی اے کی مر ہونِ منت ہے۔انیس سو ساٹھ کے دہائی کی اس کامیاب قومی ادارے کو کس نے اس حالت تک پہنچایا اگر اس کے گناہ گاروں کی فہرست مرتب کی جائے تو بہت لمبی قطار بنے گی۔ خود پی آئی اے کے کرتا دھرتا لوگوں سے لے کر حکومتی اراکین تک سب نے اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے ہیں اور اس میں کسی ایک حکومت کو موردِالزام بھی نہیں ٹھہرایا جا سکتا بلکہ ہر ایک نے اپنے وقت میں خوب خوب ذاتی فائدہ اٹھایا ہے اور بدلے میں نور خان کے زمانے کے اس شاندار ادارے کو دل کھول کر نقصان پہنچایا ہے۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی پائلٹوں کی تعداد بھی ہے اور کروڑوں میں بننے والی ان کی تنخواہیں بھی اور یہ تو صرف پائلٹس ہیں اگر اس ادارے کے دوسرے اہلکاروں کی تعداد بھی عوام کو بتا دی جائے تو بہتر ہو گا۔ اس وقت پی آئی اے کا تازہ مسئلہ مشکوک لائسنس والے پائلٹوں کا ہے جوحکومتی ذرائع کے مطابق دو سو باسٹھ ہیں جبکہ ایسے دو چار لوگوں کا ہونا بھی کسی ادارے کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے لیے کافی ہے۔حکومتی طریقہ ء کار سے اختلاف اپنی جگہ بہر حال یہ ایک اچھا قدم اٹھایا گیا کہ ان لوگوں کو منظر عام پر لایا گیا کیونکہ بہر حال مسافروں کا تحفظ سب سے مقدم ہے۔پی آئی اے اپنی ساکھ ویسے بھی برقرار نہیں رکھ سکا ہے اور ایک بنے بنائے ادارے کو ایسے ہی لوگوں نے نقصان پہنچایا۔ہاں یہاں یہ ضرور تھا کہ حکومت اندرون خانہ تمام تحقیقات کرتی جن کو اب وہ مشتبہ اور مشکوک پائلٹس کہہ رہی ہے جن کی ڈگریوں اور سر ٹیفیکیٹس کو چیلنج کیا جارہا ہے پہلے مکمل تحقیق کرتی اپنا یقین خاص کرتی تفتیش کرتی اور معاملے کو انجام تک پہنچاتی اور پھر نتائج کو سامنے لاتی۔نتائج کو سامنے لانا بھی ضروری تھا کہ آئندہ کسی کو ایسا کرنے کی ہمت نہ ہوتی اور نہ ہی دوسرے اداروں میں یوں اندھیر نگری مچائی جاتی بلکہ اب بھی دوسرے اداروں میں آپریشن ہونے چاہیئں تا کہ انہیں بھی کرپشن اور بدعنوانی سے پاک کیا جا سکے ہاں ایسا کرنے سے پہلے ایک واضح اور مناسب طریقہء کار ہونا چاہیے۔ پی آئی اے کا معاملہ سنجیدگی کا طالب ہے تاکہ اسے پھر ایک محفوظ اور منافع بخش ادارہ بنایا جا سکے لیکن حکومت کو اپنے اس اقدام کے طریقہء کارسے پڑنے والے منفی اثرات کو روکنے کی اورکم کرنے کی کوششیں تیز کر دینی چاہیے تاکہ نقصان میں جانے والے اس ادارے کو مزید نقصان سے بچایا جا سکے۔اس وقت یورپی ممالک نے پی آئی اے کی فلائٹس بند کی ہوئی ہیں یہ پابندی چھ ماہ کے لیے لگائی گئی ہے جو یقینا پی آئی اے کو بہت بڑے نقصان سے دو چار کرے گی جس سے بچاؤ کے لیے حکومت کوایک تو اپنی تحقیقات جنگی بنیادوں پر جلد از جلد مکمل کرنی ہو ں گی تاکہ دنیا کو یقین دلایا جا سکے کہ ”اگر ادارے میں کچھ ایسے لوگ تھے“ تو انہیں فارغ کر دیا گیا ہے اور اگر اس فہرست میں کچھ بھی لوگ بے گناہ تھے تو انہیں ذہنی دباؤ سے نکالا جائے اور باقیوں کے خلاف ضابطے کی کاروائی کی جائے ساتھ ہی اُن لوگوں کو بھی نہ چھوڑا جائے جنہوں نے یہ غلط بھرتیاں کیں۔ ہوائی کمپنیاں اس قسم کی کوتاہیوں کی ہرگز متحمل نہیں ہوسکتیں کیونکہ یہ سب ہی جانتے ہیں کہ یہاں ہونے والے حادثوں میں جانی نقصان یقینی ہوتا ہے اور کسی کے بچنے کی امید نہیں ہوتی اور اگر ایسا ہو بھی جائے تو ہزاروں میں کوئی ایک آدھ بار ہوتا ہے لہٰذا یہاں ذمہ داری کا معیار بھی بڑھ جاتا ہے اور اس میں شک نہیں کہ حکومت نے یہی ذمہ داری نبھانے کی کوشش کی ہے اور یہی بات اُسے دنیا کو سمجھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ سفارتی اور تکنیکی دونوں سطحوں پر اس بات کو زبردست طریقے سے دنیا کو بتا نا چاہیے اور یہ باور کرا نا چاہیے کہ پاکستان اور پی آئی اے نے مسافروں کے تحفظ کی خاطر ہی یہ انتہائی اقدام اٹھایا ہے لہٰذا اس کی ستائش ہونی چاہیے نہ کہ پابندی لگائی جائے بلکہ زیادہ بھروسہ کیا جانا چاہیے کہ اب مشکوک لوگ ادارے میں موجود ہی نہیں اسی لیے اب یہ زیادہ محفوظ ہے۔ |