مثلاً: مسٹر10% نے ملک تباہ کر دیا ہے ۔نااہل خاتون وزیر اعظم بن گئی ہے۔ وزیر اعظم نے پیلی ٹیکسی اسکیم میں مالی اداروں کو تبا ہ کر کے رکھا دیا ۔ کوآپریٹو مالی اداروں نے لوگوں کے پیسے ہڑپ کر لیئے۔ لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کیلئے بجلی کے مہنگے داموں معاہدے۔۔۔۔ خان صاحب مافیا کے کارنامے سن سن کر ہم تھک چکے اب وقت آ گیا ہے کہ ان مافیاز کے خلاف حکومت کی جانب سے فیصلہ کن کارروائی ہو جائے ان مافیاز سے لڑتے لڑتے حکومت چلی گئی تو عوام پھر آپ کو واپس لے آئیں گے لیکن اگر کچھ نہ کیا تو عوام اسے پی ٹی آئی حکومت کی نااہلی سمجھے گی ۔۔۔۔ |
|
وزیر ِاعظم عمران خان بھی کیا مائنس وَن یا ٹو تا فور ؟ تحریر :عارف جمیل [email protected]
بجٹ2020 ءکی منظوری کے سیشن سے پہلے ہی خبریں گرم ہو چکی تھیں کہ کیا وزیر ِاعظم عمران خان مزید اس عہدے پر رہ سکیں گے؟تردیداور تصدیق کا سلسلہ جاری تھا کہ بجٹ تو منظور کروالیا گیا لیکن ساتھ ہی مائنس ون کا آپشن سامنے آگیا ۔لیکن اب دوروز ہوئے یہ آپشن وَن سے بھی آگے بڑھتے ہوئے ٹو تا فورکی باز گشت اختیار کر چکا ہے۔یعنی کون کون؟ خبریں جب حکمران کے گھر جانے کی گرم ہو جائیں تو سمجھ لیں کہ بس ڈنکے پر چوٹ پڑنے والی ہے۔ وہی ماضی کا حسب ِروایت جملہ :ملک نازک دور سے گزر رہا ہے۔ کس کس حکومت نے اپنے دور میں کیا ایسا کیا کہ ہر دفعہ یہ جملہ ہی کس حکمران کوگھر بھیجنے کا باعث بنا۔ مثلاً: مسٹر10% نے ملک تباہ کر دیا ہے ۔نااہل خاتون وزیر اعظم بن گئی ہے۔ وزیر اعظم نے پیلی ٹیکسی اسکیم میں مالی اداروں کو تبا ہ کر کے رکھا دیا ۔ کوآپریٹو مالی اداروں نے لوگوں کے پیسے ہڑپ کر لیئے۔ لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کیلئے بجلی کے مہنگے داموں معاہدے عوام کے حق میں نہیں۔سرے محل کس نے خریدا۔گولڈ ن ہینڈ شیک سے کئی نوجوان بھی بے روزگا کر دیئے گئے۔ڈالر پر بندش کیوں لگائی گئی۔قرض اُتارﺅ ملک سنوارو کا نعرہ لگا کر اکٹھی کی ہوئی رقم کہاں گئی۔کارگل جنگ میں کون جیتا کون ہارا۔ ہوائی جہاز کا اغواءکی حقیقت ۔ججوں کے خلاف تحریک ۔ لال مسجد کا واقعہ۔محترمہ بے نظیر بھٹو کا قتل۔ رینٹل بجلی پروجیکٹس۔ کراچی کے حالات ۔مہنگائی،مہنگائی اور مہنگائی۔بیرونی ممالک میں اکاﺅنٹس وجائیدادیں و قطری خط۔اقامہ۔ا ہم املاک گروی رکھ دینا۔بیرونی قرضے۔ہر ایک نعرہ یہی لگاتا رہا عوام تمھارے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے اور میوزیکل چیئر کھیل کر عوامی حکمرانی کا دم بھرتے ہوئے دوسرا اقتدار کی کرسی تک پہنچ جاتا۔ شور مچتا رہا اور کوئی حکمران بھی اپنی حکومتی معیاد مکمل نہ کر سکا۔ اگر معیاد مکمل کی تو وہ بھی اسمبلیوں نے اِن ہاﺅس تبدیلی لا کر۔لہذا اگر ماضی کے اس شور میں کوئی حکمران نہ بچ سکا تو آج کے وزیر ِاعظم عمران خان کہاں بچ پائیں گے۔لہذا کیا ماضی کو سامنے رکھ کر پیشن گوئی کی جاسکتی ہے کہ اسٹیج تیار ہے کسی اور کیلئے ؟ کیا بس طریقہ کا رواضح ہو نے میں کچھ قباحتیں رہ گئی ہیں؟ عوام کے ساتھ جو آج ہو رہا ہے یہ ماضی ہی کی مکمل منظر کشی ہے ۔فرق یہ ہے پہلے حکمرانوں نے عوام کوحق دلوانے کا نعرہ لگا کر لوٹ مار کو ترجیح دی اور اس حکومت نے تبدیلی کا نعرہ دے کر اپنے ووٹرز کی جگ ہنسائی کروائی۔ آج اگر وزیر اعظم عمران خان کی وزارت جانے کی خبر گرم ہے تو اسکی ایک وجہ وہ مافیا اور اُمراءہیں جو عوام کے دال دلیئے پر بیٹھے ہوئے دونوں ہاتھوں سے دولت بٹور رہے ہیں۔نہ یہ انقلاب فرانس میں ختم ہوئے تھے نہ سوشلزم نظام میں شکست خوردہ۔اگر آج موجودہ صورت ِحال کا جائزہ لیکر اس بات پر اتفاق بھی کر لیتے ہیں کہ پہلے حکمران بہتر تھے تو پھر تین دہائیوں تک وہ ایک دوسرے کے دُشمن کیوں رہے؟یہ دُشمنی ملک میں نظام میں خرابی اور مافیا کی مضبوطی کا باعث بنی۔ حکمرانوں نے جیلیں کاٹیں اور مافیا نے جیبیں ۔ عوامی دباﺅ یا حکومتی دکھاوے کیلئے چینی ،آٹا،بجلی وگیس اور پٹرول جیسے بحرانوں پر پہلے بھی کمیشن بنتے رہے اور حکمرانوں کی نظروں سے رپورٹس گزرتی رہیں لیکن کسی کو آڑے ہاتھوں کیوں نہیں لیا گیا؟ آج وہی کیوں شور مچا رہے ہیں؟پی آئی اے ،اسٹیل ملز کے غم خوار آج کیوں ہیں؟ قوم کیلئے یہی وہ اُلجھن تھی جو نئے پاکستان یا تبدیلی کے نعرے میں حل ہو تے نظر آرہی تھی ۔لیکن خواب کی طرح ۔آنکھ کُھلی توحقیقت وہی تھی۔تبدیلی کہاں؟ آخر میں وزیر اعظم عمران خان صاحب سے کہ اگر آپ جا رہے ہیں کیونکہ تاریخی لحاظ سے وہی ماحول بنا دیا گیا ہے تو پھر گزارش ہے کہ جانے سے پہلے سوشل میڈیا پر اپنے چاہنے والے کے ایک بہت اہم ٹویٹ پر غور نہیں بلکہ فیصلہ کیجئے گا: خان صاحب مافیا کے کارنامے سن سن کر ہم تھک چکے اب وقت آ گیا ہے کہ ان مافیاز کے خلاف حکومت کی جانب سے فیصلہ کن کارروائی ہو جائے ان مافیاز سے لڑتے لڑتے حکومت چلی گئی تو عوام پھر آپ کو واپس لے آئیں گے لیکن اگر کچھ نہ کیا تو عوام اسے پی ٹی آئی حکومت کی نااہلی سمجھے گی |