ماہ جون میں عالم _اسلام کی بہت سی نامی گرامی شخصیات نے
اس دار_فانی سے عالم_بقا کی جانب کوچ کیا لیکن جو صدمہ جماعت اسلامی کو
اپنے سابق امیر سید منور حسن صاحب کی رحلت کا سہنا پڑا وہ انتہائ دلگداز
تھا-تب سے اب تک ان کی یاد میں تعزیتی ریفرنس منعقد کئے جارہے ہیں لیکن
تشنگی پوری نہیں ہورہی-جماعت اسلامی حلقہ خواتین کی قیادت نے ان کی سیرت و
کردار سے کچھ سیکھنے کے لئے نو جولائ کو ایک تعزیتی ریفرنس کا انعقاد
بذریعہ زوم ایپ کیا-افتتاحی کلمات میں ناظمہ صوبہ وسطی پنجاب ،محترمہ ربیعہ
طارق نے سید منور حسن صاحب کے اہل خانہ سے تعزیت کرتے ہوۓ ان کی اھلیہ
محترمہ عائشہ منور سے درخواست کی کہ کارکنان کی رہنمائ کے لئے سید صاحب کا
گھر میں کردار اجاگر کریں-عائشہ منور صاحبہ نے ان کی ایک اہم خوبی کا تذکرہ
فرمایا کہ بچوں کی تربیت ان کی ترجیح اول تھی،انھیں اپنے ساتھ مسجد لے
جاتے-
جماعت اسلامی حلقہ خواتین کی سیکرٹری جنرل محترمہ دردانہ صدیقی نے یادوں کو
تازہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی نظریہء حیات کو لے کر کھڑا ہونا اور ایم
کیو ایم کے سامنے اسے ثابت کرنا ان کا بہت بڑا کام ہے ،وہ کہا کرتے تھے کہ
جماعت کو اپنا کیریئر بنائیں اور انھوں نے خود بھی اسے کیرئیر بنایا-راسخ
العقیدہ مسلمان تھے-تعلق باللہ اور فکر آخرت ان کی پوری زندگی میں رچی بسی
تھیں-پانچ باتوں والی حدیث جس کا مفہوم ہے کہ عمر اور جوانی کس کام میں
گزاری ،مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا،علم کتنا حاصل کیا اور اس پہ
کتنا عمل کیا، انھوں نے اپنی پوری زندگی ان سوالات کی تیاری میں گزاری-وہ
فجر کی نماز میں صف_اول میں ہوتے تھے-ایک بار کسی پروگرام میں ان سے سوال
کیا گیا کہ کیا ہمیں انتخابات کی بجاۓ انقلاب کا راستہ اختیار نہیں کرنا
چاہیے؟اس کا جواب آپ نے بڑی حکمت سے دیاکہ انتخاب ہو یا انقلاب ،عوام الناس
میں ہمارا نفوذ ضروری ہے،اس کے لئے جدوجہد،اخلاص اور قربانی درکار ہے-
محثرمہ دردانہ صدیقی نے کہا کہ آپ کی شخصیت میں استقامت اور دلیل کی قوت
،ان کے علم اور مطالعہ سے نظر آتی ہے-وہ اراکین_جماعت کو بھی مطالعہ کی طرف
متوجہ کرتے تھے -جو کچھ ہمیں ان کی شخصیت میں نظر آیا ،اگر اسے اپنا لیا
جاۓ تو اسلامی انقلاب کی منزل دور نہیں ہے !
محترمہ ربیعہ طارق نے کہا کہ وہ ان اشعار کی مثال تھے
ہے میرا مقصد تیری عبادت
ثواب کیسا عذاب کیسا
محبتیں تو محبتیں ہیں
محبتوں میں حساب کیسا !
انھوں نے کہا کہ عصمت نے اپنے بیٹے کا جو واقعہ لکھا ہے وہ منور حسن صاحب
کی مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت کی مثال ہے-
اس کے بعد محترمہ کلثوم رانجھا نگران شعبہ الخدمت نے اپنی خوبصورت یادیں
شئر کیں کہ جب عائشہ منور باجی عاملہ کے اجلاس میں اسلام آباد میں تھیں اور
ان کو ڈینگی ہوگیا تو منور حسن صاحب نے ان کی مسلسل خبر گیری رکھی-ایسا
نہیں تھا کہ وہ ہاسپٹل آکے بیٹھ گئے ہوں اور ایسا بھی نہیں تھا کہ وہ کاموں
میں اس قدر مصروف ہوں کہ اہلیہ کی خبر نہ رکھیں بلکہ انھوں نے بہت توازن
رکھا ،کچھ بھائیوں کی ڈیوٹی لگادی اور خود بھی سات دنوں میں تین یا چار بار
اسلام آباد آۓ-حلقہ احباب سے بھائ نے بتایا کہ اگر ہماری فلائیٹ میں کچھ
تاخیر ہوتی تو ہم سید صاحب کے گھر چلے جاتے ،وہاں ناشتہ بھی کرتے اور
محبتیں بھی لیتے ،سید صاحب شخصی رابطہ رکھتے تھے ،وہ لوگوں کے مسائل سنتے
اور پیچھے جا کے مسائل حل بھی کرواتے ،اللہ ہمیں بھی توفیق دے-
محترمہ بشری'صادقہ نے کہا کہ آپ کی شخصیت وہ تھی جسے دیکھ کے اللہ یاد
آجاۓ-وہ ان میں سے تھے جنھوں نے اقامت دین کی خاطر اپنی کشتیاں جلادی
تھیں-ان کا کردار یہ تھا کہ حالات حاضرہ ہوں ،گو امریکہ گوتحریک ہو ،جہاد
فی سبیل اللہ کا موضوع ہو ،ان کے سامنے مخالفین کی زبانیں گنگ ہو جایا کرتی
تھیں-ایک بار ایک خطاب میں انھوں نے فرمایا کہ نیک سے نیک انسان کے ساتھ
بھی شیطان لگا رہتا ہے،مرتے دم تک شیطان سے چوکنا رہیئے-آخری عمر تک
اجتماعیت کا قلاوہ گلے میں ڈالے رکھا-
محترمہ عافیہ سرور نے ریفرنس کے شرکاء سے مخاطب ہوتے ہوۓ فرمایا کہ زمین کا
نمک اور پہاڑی کے چراغ جیسے بہت سے لوگ ہم سے رخصت ہو گئے-وہ اللہ کے ولی
اور سچ بات کہنے والے تھے-میدان _سیاست میں کھڑے ہو کے اپنی جہد_مسلسل سے
حق کو سچ ثابت کیا-سید صاحب کے دورامارت میں یہ بات سنی تھی کہ رات کی
تنہائی میں دارالضیافہ کے قفل کھول کے مسجد میں جا کے پناہ لیتے تھے -اللہ
کے دین کو سربلند کرنے کے لئے خاص تعلق باللہ ضروری ہے ،منصورہ کی سڑکیں ان
کی آہ وزاریوں کی گواہی دیتی ہوں گی-اللہ ہماری زمین کو دوبارہ ان جیسے
ہیروں سے آباد کرے-ربیعہ باجی نے کہا کہ جس وقت منور حسن صاحب یہ کہہ رہے
تھے کہ یہ امریکہ کی جنگ ہے ،ہماری جنگ نہیں ہے ،تو کون جانتا تھا کہ کچھ
سالوں بعد وہی ہماری حکومت کا بیانیہ بن جاۓ گا !
محترمہ صائمہ حسن نے کہا کہ سید منور حسن صاحب مجھے بہت امیر لگتے تھے
کیونکہ ان کے پاس نظریے کی دولت تھی-جو زندہ نظرئیے کے ساتھ جڑتے ہیں وہ
ہمیشہ زندہ رہتے ہیں-جماعت اسلامی کا وہی نظریہ ہے جو پیغمبروں کا تھا-وہ
اپنے مقصد کے ساتھ اس طرح چمٹے ہوۓ تھے کہ اور کسی کو اس مقصد پر ترجیح
نہیں دیتے تھے-وہ موت کے آئینے میں رخ_دوست دکھانے والے تھے -صائمہ حسن نے
کہا کہ ایک پروگرام کے دوران میرے بچے مرکز سے نکل کے مسجد چلے گئے اور
وہاں سید صاحب سے ملے تو انھوں نے میرے بچوں کو مسلسل اپنے ساتھ رکھا جب تک
پروگرام ختم ہونے کا وقت نہیں آگیا -اللہ ،عائشہ باجی اور منور حسن صاحب کا
جنت میں نکاح پڑھادے، جن بیویوں کے شوہر تحریکی نہیں ہوتے ،ا نھیں ایسے
جوڑوں کی بہت قدر ہوتی ہے -
محترمہ فوزیہ محبوب نے کہا کہ ہم سب نے دنیا سے چلے جانا ہے ،جو مشن انھوں
نے اختیار کیا ،عملا"اور قولا" اس مشن کا اظہار کیا-دونوں میاں بیوی کی
قربانی ایک مثال ہے کہ دونوں ہی دوروں پہ ہوتے تھے ،ان کی بیٹی کی شادی بھی
مثال ہے کہ جس نے شادی پہ ملنے والے سب تحائف جماعت کو دے دیے -
آسیہ سہیل ناظمہ پاک پتن نے یادوں کے دریچے کو وا کرتے ہوۓ بتایا کہ ہم نے
2010ء میں جب قرآن انسٹی ٹیوٹ کا آغاز کیا تو ہمیں اطلاع دی گئ کہ امیر
جماعت اسلامی ادارے میں آئیں گے اور چند لمحے بعد ہی انھیں اپنے ادارے میں
دیکھا - جب مجھے ان کی بیماری کا پتہ چلا تو بہت دعائیں کیں،ان کی وفات کے
بعد کی دوسری پارٹیوں کے رہنماؤں نے جماعت سے تعزیت کی ،صدر پاکستان عارف
علوی کی تعزیت کی پوسٹ بھی پڑھی-ان کی سادگی،تعلق باللہ کو دیکھ کے میرا جی
چاہتا ہے کہ میرے بیٹے بھی ان کے جیسے بے باک اور حق گو ہوں-
سیالکوٹ کی ناظمہ طیبہ بہن نے کہا والطیبات للطیبین کے الفاظ پر سید صاحب
اور عائشہ باجی کا جوڑا پورا اترتا نظر آتا ہے -میرے جیسا بندہ عائشہ باجی
کے ایک جملے کی بدولت جماعت اسلامی میں آیا -عائشہ باجی سیالکوٹ کے دورے پہ
آئیں تو مجھے نظم نے ان کے ساتھ بٹھایا -میں نے ہچکچاتے ہوۓ کہا کہ مجھے
ابھی جماعت میں شامل ہوۓ چند مہینے ہوۓ ہیں تو عائشہ باجی نے فورا"کہا کہ
میرے بچے آپ تو ہمارے ہیرے اور موتی ہیں -ایسے کارکن کے بارے میں یہ الفاظ
کہنا ،جو ابھی خود اپنی صلاحیتوں سے بھی آگاہ نہیں ،بڑی بات ہے-منور حسن
صاحب جماعت کے دستور اور روایات کو بڑی اہمیت دیتے تھے -ان کا محاسبہ کرنے
کا انداز بھی بڑا خوبصورت ہوتا تھا، بڑے مختصر الفاظ میں پوچھتے تھے کہ یہ
سب کیا ہوا،کیسے ہوا؟-ان کی ثابت قدمی کے پیچھے ایمان کی مضبوطی اور نصب
العین کا درست فہم تھا ،یہی وجہ تھی کہ نہ امریکا کا دباؤ ان کی زبان بدل
سکا نہ بڑے صحافی ان کے منہ میں اپنے الفاظ ڈال سکے!-ہمارے اندر اسلام کا
بیج وہ پھل پھول نہیں دکھا رہا،ابھی موت نہیں آئ،اللہ اس بیج کو پھل پھول
لگا دے !
جامعۃ المحصنات کی نگران امۃالرقیب آپا نے اپنے مخصوص انداز میں کہا عائشہ
میری دوست بھی ہیں اور استاد بھی -اس وقت منور حسن صاحب امیر کراچی تھے
،لوگ ان سے اور طرح بات کرتے تھے اور میں عائشہ منور کی نائب قیمہ کے طور
پر رات دس بجے تک ان کے ساتھ کام کرتی رہتی -اہل خانہ کے ساتھ منور حسن
صاحب کا گہرا تعلق تھا-کام کے دوران بار بار فون آتے اور مشورے بھی کئے
جاتے-میں نے بڑے دھڑلے کے ساتھ جامعہ محصنات کا سنگ بنیاد لاڑکانہ میں
سیدصاحب سے رکھوایا-خواتین ابھی رستے میں تھیں کہ ہمیں پتہ چلا کہ امیر
جماعت تو سنگ بنیاد رکھ کے چلے بھی گئے ،ہم نے دوبارہ منور حسن صاحب سے سنگ
بنیاد رکھوایا-
مزمل بہن نے اپنے تاثرات کو شرکاء سے شئر کرتے ہوۓ کہا کہ ہم جماعت اسلامی
ایک خاندان ہیں -ہمیں منور حسن صاحب کی طرح لگ کے اپنی صفوں پہ محنت کی
ضرورت ہے-
ریفرنس کے اختتام پہ کہا کہ عائشہ باجی کا ایک جملہ ہے کہ ہم طلب کی بجاۓ
رسد بنیں ،دینے والے بنیں, انھوں نے کہا کہ اللہ کرے کہ ہم اس دکھ کو طاقت
میں بدل سکیں! تعزیتی ریفرنس کا اختتام بشری'صادقہ کی دعا سے ہوا-
یقینا وہ مردمومن کا ایسا نمونہ تھے جن پر یہ بات پوری اترتی ہے کہ
توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے
یہ بندہ دو عالم سے خفا میرے لئے ہے ! |