امداد یا ٹیکس- ایک سوال

ہم پنجاب حکومت کے اس بیان کا خیر مقدم کرتے ہیں جس میں انہوں نے اپنی خوداری کے لیے امریکی امداد لینے سے انکار کر دیا اور یہ تبصرہ بھی سامنے آیا کہ ایبٹ آباد جیسے واقعات اس وقت تک ہوتے رہیں گے جب تک امریکی امداد اور آئی ایم ایف سے قرض کی لعنت سے چھٹکارہ نہ حاصل کر لیا جائے۔۔۔ جس کی وجہ سے حکومت اپنے مائی باپ کی آنکھوں میں آنکھیں نہیں ڈال سکتی اور نہ ہی اپنی خودمختاری کا سوال کر سکتی ہے، آخر جس کا کھاتے ہیں اس کا لحاظ تو کرنا ہی پڑتا ہے۔

پنجاب حکومت کا بیان سن کر بہت خوشی ہوئی کہ شاید اب ہمارے سیاست دان صحیح راہ پر چل نکلیں ہیں، پر اگلے ایک بیان پر ساری خوشی و امید پر پانی پھر گیا جس میں کہا گیا کہ امداد کی ضرورت ٹیکس لگا کر پوری کی جائے گی۔

کیا کوئی ہے جو ان جاہلوں کو بتلائے کہ امداد - قرض ختم کرنا چاہتے ہو تو حکومتی اخراجات کم کرو، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی ڈاؤن سائز کرو،سیاست دانوں کے پروٹوکول ختم کرو، کرپشن ختم کرو، بجلی کے بحران جس سے ملکی معیشت کا جنازہ نکل گیا اسے حل کرو، اپنی زراعت بڑھاؤ، پانی کا مسلئہ حل کرو، ملک تیل، گیس، کوئلہ، سونا، زراعت جیسی نعمتوں سے مالا مال ہے اور ہم بات کرتے ہیں ٹیکس کی۔ ہمارے سیاست دان شاید اب تک عوام سے مذاق کر رہے ہیں کہ امداد تو نہیں لیں گے پر ہماری غیر ذمہ داری اور نا اھلی کا بوجھ بھی عوام ہی اٹھائے اور ہماری عیاشی متاثر نہ ہو اس لیے عوام مزید ٹیکس ادا کرے۔

اگر حکومت کے منتخب کردہ لوگوں کی کارکردگی دیکھی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جو فیصلے اس عرصہ میں لئے گئے وہ ان تمام منتخب لوگوں کی نصبت صرف ١٠٪ لوگ با آسانی لے سکتے تھے،یعنی جو ١٠٠ لوگ کام کر رہے ہیں اس کے لئے ١٠ افراد بھی زیادہ ہیں۔ آخر اتنی کابینہ اور پارلمنٹ کی ضرورت کیوں؟ جو پارلمنٹ اور کابینہ ١٠ سال میں کالا باغ ڈیم کا فیصلہ نہ کرسکی،( بلکہ میں کہوں گا کہ کوئی ایک فیصلہ جو عوامی امنگوں کے مطابق اور پاکستان کے مفاد میں لیا ہو؟) وہ ملک اور عوام کے کس کام کیِ؟ اب وقت آگیا ہے کہ ان کے اخراجات کا بھی جائزہ لیا جائے۔

یہ سوال ہر پاکستانی کے دل و دماغ میں گردش کر رہا ہے، کاش کوئی مخلص حکومت بھی آئے، جو صرف پاکستان کے بارے میں سوچے اور اسی کے لیے کام کرے۔

اللہ اس ملک کا اور ہمارا حامی و ناصر ہو۔ آمین ثم آمین
M. Daar
About the Author: M. Daar Read More Articles by M. Daar: 6 Articles with 5332 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.