جدید سائینٹفیک معاشرے کی تشکیل وقت کی اہم ضرورت

موجودہ دور سائنسی دور کہلاتا ہے۔ سائنس کی ترقی نے جہاں ہمارے علم و شعور میں اضافہ کیا ہے، وہیں انسانی طرزِ زندگی میں بے پناہ انقلابی تبدیلیاں بھی آئی ہیں- قدیم زمانے کے غیر مہذب اور وحشی انسان کے لئے اس وسیع کائنات کی ہر چیز ہی پراسرار تھی- موسمیاتی تبدیلیاں، چاند سورج اور ستاروں کی گردش، زلزلے، آندھیاں، دریا، سمندر اور خونخوار جانور یہ سب چیزیں اس کی عقل اور فہم سے بالاتر تھیں- ان کو تنہا ان سب کا مقابلہ کرنا تھا- یقیناً وہ تنہا ہونے کے ساتھ ان سب سے کمزور بھی تھا- لیکن آج کا انسان دورِ قدیم کے انسان سے نہ صرف طاقت ور اور مضبوط ہے، بلکہ اس نے تسخیر کائنات کے بہت سے راز پا لئے ہیں- جب کہ آئے روز کی نت نئی ایجادات اور جِدّت طرازیوں نے بھی دنیا کو پہلے سے زیادہ خوب صورت اور انسانی زندگی کو پرکشش رنگوں سے مزین کر کے رکھ دیا ہے-

بدقسمتی سے پاکستان ان ممالک میں سے ایک ہے جہاں سائنسی تعلیم کے رجحان کا شروع سے ہی فقدان رہا- اور شائد یہ بھی ایک المیہ ہے کہ دنیا بھر میں سائنسی تخلیقات کرنے والے ممالک میں ہمارا نام سب سے آخر میں آتا ہے- ایک بین القوامی ادارے گلوبل انوویشن انڈیکس 2019 کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں اب تک دنیا کی سب سے کم سائنسی ایجادات و تخلیقات کی گئیں- اس فہرست میں پاکستان سے نیچے صرف تنازعوں اور خانہ جنگیوں کا شکار اور غیر ترقی یافتہ ممالک جیسے برکینا فاسو، نائیجریا اور یمن وغیرہ کا نام آتا ہے- اس فہرست میں پاکستان 105 ویں نمبر پر موجود ہے جبکہ سوئٹزر لینڈ کو دنیا کا سب سے زیادہ سائنسی تخلیقات کرنے والا ملک قرار دیا گیا ہے- دوسرے نمبر پر سوئیڈن، تیسرے پر امریکہ جبکہ چوتھے پر نیدرلینڈ موجود ہے- اس رپورٹ کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمارے ساتھ آزاد ہونے والا ہمارا پڑوسی ملک انڈیا اس فہرست میں 52 ویں نمبر پر موجود ہے- جب کہ ہمیں اس سے کئی گنا نیچے پسماندہ ممالک کا قرب حاصل ہے- اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ہمارے ہاں سائنس اور جدید ٹیکنالوجی سے استفادے اور اپنی آنے والی نسلوں کو سائنسی علوم سے روشناس کرانے کا آج تک کا کیا معیار رہا ہے-

سائنس کی ترقی کا انحصار صرف مادی وسائل پر ہی نہیں ہوتا، اور نہ ہی یہ دنوں یا مہینوں پر محیط ہوتی ہے- اور یہ کوئی ایسی چیز بھی نہیں جو کہ بازار سے خرید لی جائے یا کسی دوسرے ملک سے درآمد کرلی جائے، بلکہ سائنس کی ترقی کیلئے سائنسی معاشرے کی تشکیل بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جس میں ہر ذی شعور سائنسی انداز میں سوچتا ہو اور جہاں روزمرہ کے مسائل اور درپیش مشکلات کے حل سائنسی بنیادوں پر ترتیب دیئے جاتے ہوں- اور جہاں آئے روز اوپر سے لے کر نیچے ہر سطح تک نت نئے آئیڈیاز اور عمومی تخلیقات معرضِ وجود میں آ رہی ہوں- اور یقیناً اس سب کا دارومدار اجتماعی سطح پر کسی بھی علاقے یا خطے کے معاشروں کی سماجی، تہذیبی اور سیاسی ترجیحات پر ہی ہوتا ہے-

بحیثیت قوم ہمارے لئے یہ کوئی نیا المیہ نہیں، برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی پچھلے چند سالوں یا چند عشروں کی نہیں بلکہ کئی صدیوں کی تاریخ ہے کہ ہماری انفرای و اجتماعی سطح پر اولین ترجیحات میں ذہنی و جسمانی آسائش و تعیشات سے متعلقہ شعبۂ زندگی کے علوم و فنون ہی رہے، یہاں تک کہ ہر دور کے ارباب اختیار و اقتدار نے فن تعمیر، راگ رنگ موسیقی اور ادبیت و رومانویت میں ہر طرح سے اپنا لوہا منوایا، لیکن شاید یہ بدقسمتی ہمارا مقدر ٹھہرنا تھی کہ گزشتہ کسی بھی دور میں ہم کائنات کی وسعتوں اور گہرائیوں کو تلاشنے، اور جدید سائنسی علوم میں دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کے قابل نہ ہو سکے- یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ سترہویں صدی کے اوائل میں جب مغربی سلطنتیں جدید سائنسی طرز عمل اور اصلاحات میں انقلابی اقدامات و اصلاحات متعارف کرانے میں پیش پیش تھیں اور فرانسس بیکن، رینے ڈیکارٹ، اور نیوٹن جیسے فلاسفر اور سائنس دان دنیا کے سربستہ رازوں سے پردے اٹھانے کی تگ و دو میں ہر لمحہ ہلکان ہوئے جا رہے تھے، تو برصغیر کی اجتماعی فضا شاہ جہاں اور ممتاز محل کی لوو سٹوریوں اور جہانگیر اور نورجہاں کے عشق و معشوقی کی داستانوں سے مخمور تھی- شاید یہی وجہ ہے کہ یہ دھرتی چند گنے چنے ناموں کے سوا آج تک شاعر اور مجذوب پیدا کرنے میں ہی ہمیشہ سے زرخیز نظر آتی ہے-

سائنسی علوم اور جدید ٹیکنالوجی کے حوالے سے آج بھی ہماری سنجیدگی کا عالم یہ ہے کہ کبھی تو ہم مذہب کو سائنس کے کٹہرے میں لا کھڑا کرتے ہیں، اور کبھی سائنس کو مذہب کی چاردیواری میں گھسیٹ کر لانے میں کوئی تامل یا پس و پیش نہیں کرتے- حالانکہ اس معاملے کو سمجھنے کے لئے بحیثیت مسلمان ایک بالکل سادہ سا کلیہ ہے کہ اسلام نے جس علم کو "گود سے گور" تک حاصل کرنے کا صریح اور واضح لفظوں میں حکم دیا ہے، وہ علم ان تمام جدید اور ذیلی علوم کا احاطہ کیے ہوئے ہے- اب اگر ہم ان جدید علوم سے استفادہ نہیں کریں گے، اور کائنات کے اسرار و رموز سے نابلد و ناآشنا ہی رہیں گے تو ان علوم پر دسترس رکھنے والے اغیار یقیناً اپنے عقائد و نظریات کے مطابق ان کی اپنی من مانی تشریحات ہی تو کریں گے- اور پھر شاید ہمیں اس معاملے میں مذہب کو چیخ چیخ کر اور پکار پکار کر سچا ثابت کرنے کا بھی کوئی حق نہیں پہنچتا، کیونکہ مذہب کو سچا ثابت کرنے کے لئے صرف مذہبی جنون ہی کافی نہیں ہوتا- اس کے لئے ضرور ہمیں ان علوم کی تہہ میں پہنچ کر صحیح اور خالص دلائل کی ضرورت ہے- اور اس کے لئے بات گھوم پھر کر وہیں آتی ہے کہ ہمیں جدید دنیا کے جدید سائنسی علوم سے بہرہ مند ہونے کی اشد ضرورت ہے-

آج یقیناً اکیسویں صدی کی دہلیز پر کھڑی جدید دنیا سے ہم پلہ و ہمنوا رہنے کے لئے ہمیں اپنی روش کو بدلنے کے ساتھ ساتھ اپنی ترجیحات کا تعین بھی کرنا ہو گا- اپنی معاشرتی اقدار کو جدید طرز معاشرت سے ہم آہنگ کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہمیشہ سے تھی، ہے، اور رہے گی- اس کے لئے سب سے پہلے ہمیں انفرادی اجتماعی ہر سطح پر سائنس اور جدید ٹیکنالوجی کی اہمیت کو سمجھنا پڑے گا، پھر اس کے بعد اپنی قدامت پسندانہ روایات اور فرسودگی پر مبنی اپنے عقائد و نظریات کے بت بھی پاش پاش کرنا پڑیں گے- بس یہی وہ راستہ ہے جو امن و آشتی، خوشحالی اور رفعت و عظمت کا نشان منزل ہے- اور جو ایک جدید سائینٹفک معاشرے کی تشکیل کے لئے از حد ضروری ہے-
 

Tahir Ayub Janjua
About the Author: Tahir Ayub Janjua Read More Articles by Tahir Ayub Janjua: 5 Articles with 3490 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.