ریاست مدینہ اور مندر

پتہ نہیں موجودہ حکومت کے مشیران خود ہی اتنے سمجھدار ہیں، کوئی بیرونی ایجنڈہ ہے یا خود کو بڑے لبرل ثابت کرنے کی کوششیں ہیں جو مسلسل ایسے اعمال و افعال کئے جارہے ہیں جو ایک طرف تو عوام میں بے چینی اور اضطراب پیدا کررہے ہیں اور دوسرا مجھے لگتا ہے کہ ہم اﷲ تعالیٰ کو مزید اور مسلسل ناراض کررہے ہیں۔ بطور مسلمان ہم سب کا عقیدہ ہے کہ اﷲ کی وحدانیت پر مکمل ایمان لائے بغیر ہم مسلمان ہی نہیں ہوسکتے، اﷲ کی توحید پر کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ کرنا اپنے آپ کو دائرہ ایمان سے خارج کرنا ہے۔ جہاں پہلے ہی ہم نے بہت سے بتکدے آباد کررکھے ہیں، جہاں پہلے ہی اﷲ کی حدود سے تجاوز کرکے ہم دن رات اس کے غیض و غضب کو دعوت دے رہے ہیں، قدم قدم پر غیر اﷲ کو سجدے کئے جارہے ہیں وہاں ایک اور کام جو ریاست مدینہ کے دعویدار کرنے جارہے ہیں وہ ہے اسلام آباد میں ایک نئے ہندو مندر کی تعمیر، ایک نئے بتکدے کا قیام۔ اﷲ کے نبی آخرالزمان حضرت محمد ﷺ اور اس سے پہلے جتنے بھی انبیا اکرام، رسل اور پیغمبر اس دنیا میں مبعوث ہوئے، ان سب کی تعلیم کا بنیادی پہلو غیر اﷲ کی بندگی سے نکال کر لوگوں کو اﷲ کی بندگی کی طرف راغب اور مائل کرنا تھا، اﷲ کی طرف رجوع کرنا تھا۔ اﷲ تعالیٰ کا یہی ارشاد ہے کہ شرک گناہ عظیم ہے، جس عقیدہ میں اﷲ کے ساتھ کسی کو اس کی ذات و صفات میں شریک کیا جائے اسے عقیدہ شرک کہا جاتا ہے۔ مشرک کی ہرگز بخشش نہیں ہو سکتی اور نہ اس کے لئے مغفرت کی دعا کی جاسکتی ہے۔ ایمان کا تقاضہ ہے کہ وہ ریاست جس کی بنیاد ہی اسلام اور اس کے اصول ہوں، وہ اسلامی اور فلاحی ریاست جس کے قیام کے لئے لاکھوں لوگوں کی زندگیوں اور عزتوں کی قربانیاں پیش کی گئی ہوں اور وہ ریاست جس کے آئین کے بنیادی ڈھانچے میں یہ تحریراً شامل ہوکہ حکومت صرف اﷲ تعالیٰ کی ہوگی، اسلام سے متصادم نہ قانون بن سکتا ہے اور آئین میں کچھ شامل ہوسکتا ہے، اسی ریاست کے دارالخلافہ میں ایک نئے ہندو مندر کا قیام اﷲ کے عذاب کے حصول کا طریقہ تو ہوسکتا ہے، اﷲ کے قرب اور اس کی خوشنودی کا ہرگز نہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلام آباد میں ہندو مندر کے قیام کی کیا وجوہات ہوسکتی ہیں، کیوں ایک نئے مندر کی ضرورت محسوس کی گئی اور کیا ایک اسلامی ریاست میں، ریاست کے خرچ پر اور ایسے شہر میں جہاں ہندؤں کی تعداد بھی انتہائی کم ہو اور وہاں پہلے سے ہی مندر موجود ہو ، نیا مندر تعمیر کیا جاسکتا ہے؟ اس سوال کے جواب کے لئے ہمیں بطور اسلامی ریاست اسلامی اصولوں کے مطابق ہی لائحہ عمل اپنانا پڑے گا۔ ایک بات اور کہ بلا شبہ ایک اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کی جان، مال، عزت، آبرو، عبادت خانے اور دیگر ضروریات زندگی کو تحفظ حاصل ہوتا ہے اور نہ صرف اسلامی ریاست و حکومت بلکہ عوام الناس کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ اسلامی ریاست میں رہائش پذیر ’’ذمیوں‘‘ اور ٹیکس دینے والے غیر مسلموں کی پہلے سے موجود عبادتگاہوں کا تحفظ کیا جائے اور انہیں نقصان پہنچانے کی کوئی کوشش ہرگز نہ کی جائے ۔ وہ واقعہ تو کم و بیش ہر مسلمان کے علم میں ہے جب حضرت عمرؓ تورات کے کچھ اوراق پڑھ رہے تھے تو حضور اکرم ﷺ نے شدید ناگواری کا اظہار بھی فرمایا اور منع بھی فرمایا، مقصد کیا تھا، مقصد یقیناً یہی تھا کہ جب اﷲ نے نبی اکرم ﷺ پر حق کا نزول کردیا تو سارے باطل نظریات و ادیان کی بابت بھی تعالیٰ نے خود بتا دیا کہ اب ان پر چلنے والا مومن اور ہدایت یافتہ نہیں ہوسکتا۔ اسی موقع پر حضور اکرم ﷺ کا ارشاد تھا کہ ’’قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے، اگر موسیٰ ؑ خود تمہارے سامنے آجائیں اور تم مجھے چھوڑ کر ان کی اتباع کرنے لگو تو سیدھی راہ سے بھٹک جاؤ گے، اگر موسیٰ ؑ زندہ ہوتے اور میری نبوت کو پا لیتے تو میری نبوت کی اتباع کرتے‘‘۔ حضور اکرم ﷺ اس صحابیؓ اور خلیفہ راشد سے مخاطب تھے جن کے بارے میں خود نبی اکرم ﷺ کا ارشاد تھا کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ؓ ہوتا۔ اﷲ تعالیٰ کا سورہ حج میں ارشاد ہے، ترجمہ: ’’اور اگر اﷲ تعالیٰ ایک دوسرے کے ذریعہ لوگوں کی مدافعت نہ کرتا رہتا تو خانقاہیں، گرجے، عبادت گاہیں اور مساجد جن میں اللّٰہ کو کثرت سے یاد کیا جاتا ہے، مسمار کر دی جاتیں۔‘‘ امام قرطبی نے اپنی تفسیر میں اس آیت کی یہ جامع تفسیر لکھی ہے: ’’یہ آیت کریمہ اہل ذمہ، کفار کے کنیسوں، گرجاؤں اور آگ جلانے کے مراکز گرانے کی ممانعت پر مشتمل ہے۔ تاہم اُنہیں اس بات کی اجازت نہیں کہ وہ پہلے سے غیر موجود معبد کی تعمیر کریں، نہ ہی وہ موجودہ تعمیر یا اس کی بلندی اور وسعت میں اضافہ کرسکتے ہیں اور مسلمانوں کے لئے یہ جائز نہیں کہ ان کفریہ معابد میں داخل ہوں اور وہاں نماز پڑھیں۔ جب بھی کفار کوئی اضافہ کریں تو اس کو گرا دینا لازمی ہے۔ اسی طرح جنگی شہروں اور (سیاسی طور پر حساس بلاد اسلامیہ) میں گرجے اور کنیسے بھی گرادیے جائیں گے، تاہم عام بلاد اسلامیہ کے معابد کو منہدم کرنا درست نہیں۔کیونکہ یہ گرجے ان کے گھروں اور اَموال کے قائم مقام ہیں، جن کی حفاظت کا ذمہ مسلمانوں نے لیا ہے۔ تاہم انہیں کسی مزید اضافے کی اجازت نہیں، کیونکہ اس طر ح کفرکے اسباب ووسائل کے غلبہ کا اظہار ہوتا ہے۔‘‘ الغرض اس آیت کریمہ کا مفہوم یہ ہے کہ(i) اس سے نئے کفریہ معابد کی تعمیر یا سابقہ معابد کی تجدید وتزئین پر استدلال نہیں کیا جاسکتا..جو بلادِ اسلامیہ میں بالاجماع حرام ہیں بلکہ یہ آیت انہدامِ معابد کی حرمت کے عمومی اُصول تک محدود ہے۔ (ii) کفریہ معابد کے احکام میں سے ایک صورت کو یہاں بیان کیا گیا ہے۔ ہر حال میں ان کا تحفظ کرنا ضروری نہیں اور جہاد کے دوران یا مسلم حاکم دیگر شرعی مصالح کے تحت اُنہیں منہدم بھی کرسکتا ہے۔‘‘ اسی طرح حضور اکرم ﷺ کا ارشاد مبارک ہے ’’ایک علاقے میں دو قبلے نہیں ہوسکتے‘‘ ۔ اسی تسلسل میں اگر دیکھیں تو حضرت عمرؓ کے ہی دور میں شام کے عیسائیوں سے طے پانے والی 24 شروطِ عمریہ میں سیدنا عمر بن خطاب نے یہاں سے آغاز کیا اور اسی پر صحابہ کرام کا اجماع ہوا ، عیسائیوں کی طرف سے معاہدہ میں لکھا گیا کہ’’ہم اپنے اوپر لازم کرتے ہیں کہ (1) اپنے شہروں اور ان کے گرد ونواح میں کوئی علیحدہ گرجا، کنیسا،بلند گرجا اور راہب کا معبد خانہ نہیں بنائیں گے اور (2) اپنے خراب شدہ کنیساؤں کی تجدید نہیں کریں گے، نہ ہی ان کنیساؤں کی جو مسلمانوں کے علاقوں میں ہیں۔‘‘ حضرت عمرؓ کے ساتھ طے ہونے والی شرائط کی تشریح اور ہر دور میں اس کی عمل داری کی نشاندہی کرتے ہوئے امام ابو العباس احمد بن عبد الحلیم ابن تیمیہ اس کی مشروعیت و معقولیت واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’خلیفہ عمر بن عبد العزیز نے اپنے خلافت میں ان کی تجدید کی، اور سیدنا عمر بن خطاب کے اقدامات کو جاری کرنے میں پوری دلجمعی سے کام لیا۔ کیونکہ آپ کا علم و عدل اور کتاب وسنت کے نفاذ میں ایسا مقام تھا جس میں اﷲ تعالیٰ نے آپ کو دیگر خلفا سے امتیازی شان عطا کی تھی۔ پھر عباسی خلفا ہارون الرشید اور جعفر المتوکل وغیرہ نے ان شرائط کو جاری وساری کیا۔ اور ان سارے مصری علاقوں میں کنیسوں کو گرانے کا حکم دیا جہاں ان کو گرانا ضروری تھا۔ گرجاؤں کو منہدم کرنے کے بارہ میں ویسے تو دو موقف ہیں، تاہم جب کوئی زمین بزور غلبہ وقہر لی جائے تو وہاں گرجا گرانے میں کوئی اختلاف نہیں۔ جب یہ مسئلہ پیدا ہوا کہ حکم نبوی کی روسے کفریہ شعائر، اسلامی شعائر کے ساتھ ایک سرزمین میں اکٹھے نہیں ہوسکتے کہ ایک زمین میں دو قبلے نہیں ہوسکتے۔ اس بنا پر سیدنا عمرؓ اور مسلم حکام نے کفار سے اس شرط پر مصالحت کی کہ وہ اپنے کفریہ شعائر کو نمایاں نہ کریں گے۔ چنانچہ مسلمانوں میں اس امر میں کوئی اختلاف نہیں کہ اسلامی سرزمین کو عیسائی اور یہودی عبادتگاہوں کے لئے مخصوص نہیں جاسکتا اور ان کے ایسے اوقاف بھی باقی نہیں رکھے جاسکتے۔ بلکہ اگر کوئی ذمّی ان کا کوئی وقف قائم کردے اور ایسے وقف کا کیس اسلامی عدالت میں چلا جائے تو اسلامی عدالت اس کی درستی ،تجدید یا تعمیرکا فیصلہ نہیں دے سکتی۔ پھر یہ کیونکر ممکن ہے کہ مسلمانوں کے اموال کو کفریہ عبادت اور عبادتگاہ کے لئے روک رکھا جائے تاکہ ان میں اﷲ کے ساتھ شرک، اور اﷲ ورسول کے ساتھ بدترین سب وشتم کیا جائے‘‘۔ سیدنا عمر بن خطابؓ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:’’'لا تُحدثُوا کنیسۃ فی الإسلام ولاتُجدّدوا ما ذَہَب منہا‘‘۔ ترجمہ: ’’مسلمانوں میں کوئی نیا کنیسہ مت بناؤ، اور جو بن گئے، ان کی تجدید (Renovation)مت کرو‘‘۔ مختصراً یہ کہ شرعی طور پر کسی اسلامی ریاست میں کوئی نئی عبادتگاہ ہرگز تعمیر نہیں ہوسکتی جس میں غیر اﷲ کی پرستش کی جائے، چنانچہ اگر شرعی طور پر اہل کتاب کا کوئی نیا گرجا تعمیر نہیں ہوسکتا تو مشرک ہندوؤں کے لئے مندر کی تعمیر کیسے کی جاسکتی ہے۔ کیونکہ ہمیں اصل کی طرف لوٹنا ہے اور اصل کی طرف ہی لوگوں کو بلانا ہے اور اصل صرف اور صرف اﷲ کی توحید ہے۔

اوپر تو ہم نے شرعی حوالہ سے بات کو سمجھنے کی کوشش کی ہے، اب آجائیں اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حکومت، پارلیمنٹ اور عدلیہ کی بھی بات کرلیتے ہیں۔ سابقہ حکومت نے تمام شرعی اصولوں اور پابندیوں کو بالائے طاق رکھ کر اسلام آباد میں نئے مندر کی تعمیر کا فیصلہ کیا جس کی بابت عوام الناس تو کیا خواص کو بھی شائد اس وقت علم نہ ہوا ہوگا، حکومت کی تبدیلی کے بعد موجودہ حکومت نے اسی تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے، یعنی تمام شرعی اصولوں اور پابندیوں کو بالائے طاق رکھ کر سابقہ حکومت کی جانب سے مندر کی تعمیر کے لئے زمین اور فنڈز مختص کرنے کی بات کی، گذشتہ روز حکومتی پارٹی اور دونوں بڑی اپوزیشن پارٹیوں نے قومی اسمبلی میں مندر کی تعمیر کے حق میں زور و شور سے تقاریر فرمائیں، اسی بابت کسی نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک رٹ دائر کی تو گذشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے اسے ناقابل سماعت قرار دے کر اس حکم کے ساتھ کیس خارج کردیا کہ ’’کیا پتہ سی ڈی اے پلاٹ ہی کینسل کردے، اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے بھی آنے دیں، اگر قانون کی خلاف ورزی ہوگی تو دوبارہ عدالت سے رجوع کیا جاسکتا ہے‘‘۔ اسی معاملہ کی بابت برادرم علامہ ابتسام الٰہی ظہیر کی ایک رٹ ابھی اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر التواء ہے جس میں قانونی نکات کے ساتھ ساتھ شعری نکات بھی اٹھائے گئے ہیں۔ مغرب کو اپنا نام نہاد ’’روشن چہرہ‘‘ دکھانے اور انکے لئے قابل قبول ہونے کے لئے سیاستدانوں نے تو ہر قسم کی شرم و حیا کو اپنے اندر سے خارج کردیا ہوا ہے اور وہ اﷲ کی نافذ کردہ حدود سے ہر لمحہ بغاوت کرتے اور تجاوز کرتے ہیں لیکن مجھے اس معاملہ میں کسی ریاستی ادارے سے کسی اچھائی کی توقع ہرگز نہ تھی اور نہ ہے، البتہ اﷲ کی ذات اگر کسی کے ذہن میں اپنا خوف ڈال دے تو اور بات ہے۔ دیکھتے ہیں اسلامی نظریاتی کونسل اپنے نام کی لاج رکھتی ہے یا نہیں؟ ویسے اگر عدالتوں نے ہی فیصلہ کرنا ہے تو ریاست مدینہ والی حکومت کس منہ سے مدینہ کا نام لیتی ہے؟ یہ مدینہ والے سرکار دو عالم ﷺ کا ہی ارشاد ہے کہ ’’ایک علاقے میں دو قبلے نہیں ہوسکتے‘‘، اس ارشاد کی روح کو سمجھنے کی ضرورت ہے، ویسے بھی ہماری عدالتیں آئین و قانون کی پابند ہیں، وہ اﷲ کے دین کے واضح احکامات کو بھی یہ کہہ کر سائیڈ پر کر دیتی ہیں کہ کوئی قانونی نظیر ہے تو دکھائیں……ً! تمام اداروں اور اپنی عدالتوں سے آخر پر صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ کبھی آئین و قانون کے علاوہ اﷲ کے احکامات پر بھی غور کرلیجئے گا، انشاء اﷲ آپ سرخرو رہیں گے۔ابھی گذشتہ روز کچھ لوگوں نے کرونا کی آڑ میں چہرے چھپا کر مندر کی تعمیر کے حق میں اسلام آباد میں مظاہرہ بھی کیا جس میں اکثریت بظاہر قادیانیوں کی تھی اور کوئی ریاستی ادارہ انہیں روکنے والا بھی نہ تھا، اس دن سے ڈرنا چاہئے جب اﷲ کی پکڑ آتی ہے تو بہت شدید ہوتی ہے، اگر اﷲ کی حدود کو یونہی پامال کیا جاتا رہا تو کچھ نہیں بچے گا، ہمارے پاس شاید ابھی موقع ہے کہ ہم اسی ذات برحق کی طرف رجوع کرلیں تاکہ روز قیامت اﷲ کی ناراضگی سے بچ سکیں اور ساقی کوثر کے ہاتھوں ہمیں جام بھی نصیب ہوسکے……! وما توفیقی الا باﷲ ۔
 

Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 222377 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.