سرکاری ملازمین کو ایک اور بڑا دھچکا

میں کل لاہور سے جہلم کی طرف سفر کر رہا تھا تو میں نے اپنا وٹس ایپ کھولا تو دیکھا کہ اس میں سرکاری ملازمین کی پنشن اور عمر میں تبدیلی کی ایک خبر چل رہی تھی میں سمجھتا ہوں کہ سرکاری ملازمین ایک پسا ہوا طبقہ ہے ہر سرکاری ملازم کی نظر آنے والے بجٹ پر ٹکی ہوتی ہے کہ اس بار ریاست تنخواہ میں کتنا اضافہ کر رہی ہے اسی طرح پنشن والے بھی یہ سوچ رہے ہوتے ہیں اور امید لگائے ہوتے ہیں کہ اس بار ریاست ان کی پنشن میں مزید اضافہ کرے گی لیکن بد قسمتی سے اس سال کرونا اور دوسرے کئی مسائل کی وجہ سے بجٹ میں سرکاری ملازمین کے لئے نہ تو تنخواہ میں کوئی اضافہ کیا گیا اور نہ ہی بزرگ سرکاری ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں اضافہ ہوا یعنی یہ بجٹ سرکاری ملازمین کے لئے مایوس کن رہا ۔سرکاری ملازمین پہلے ہی مہنگائی کے ستائے ہوئے ہیں اس کے اوپر ان کے لئے ایک اور خبر بجلی بن کر ٹوٹی ہے کہ اب سرکاری ملازمین کی ریٹائرڈ کی عمر میں کمی لا کر اسے پچپن سال کر دیا جائے سننے میں یہ بھی آ رہا ہے کہ جن ملازمین کی عمر اٹھاون سال ہے انہیں جبری ریٹائرڈ کر کے پنشن اور گریجویٹی دے کر فارغ کر دیا جائے گا اور یوں مرحلہ وار جن ملازمین کی مدت ملازمت پچیس سے تیس سال کے درمیان ہے انہیں بھی ریٹائرڈ کر دیا جائے گا لیکن ان تمام خبروں کی تصدیق کمیٹی کے فیصلے کے بعد ہی سامنے آئے گی ۔اس کام کے لئے ابھی ایک کمیٹی بنا دی گئی ہے جو اس پر کام کر رہی ہے کہا جا رہا ہے کہ تین مختلف کمیٹیاں اس پر کام کر رہی ہیں جو جلد اپنی اپنی رپورٹ حکومت کو فراہم کریں گی پھر اس بل کو بھی پارلیمنٹ سے منظور کر لیا جائے گا ۔سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں جو اضافہ کیا جاتا ہے اسے ایڈہاک الاؤنس کا نام دیا گیا ہے لیکن اسے ان کی بنیادی تنخواہ میں شامل نہیں نکیا جاتا خیال کیا جاتا ہے کہ اس طرح ملک کے خزانے پر مزید بوجھ بڑھے گا لیکن اس طرح ریٹائیرڈ ہونے والے سرکاری ملازم کو ریٹارمنٹ پر کم رقم ملے گی یعنی ہر طرح سے سرکاری ملازم کا استحصال کیا جاتا ہے ۔اس فیصلے سے سرکاری ملازمین میں شدید غم و غصہ اور اضطراب پایا جا رہا ہے ۔پنشن کا سرکاری ملازم کو بڑھاپے میں ایک سہارا مل جاتا تھا اور اگر خدانخواستہ وہ فوت بھی ہو جاتا تو پنشن اس کی بیوہ کو ملتی رہتی تھی جس سے اس کی کسی کا محتاج ہونے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی لیکن اب پنشن ختم کرنے سے اس کا تحفظ بھی ختم ہو جائے گا تو حکومت کو اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔میری حکومت سے ایک اپیل ہے کہ جن ملازموں کو ریٹائرڈ کیا جائے کم از کم ان کے ایک بیٹے یا بیٹی کو سرکاری ملازمت ضرور دی جائے تا کہ اس کی ریٹائڑڈمنٹ پر کوئی اضافی بوجھ نہ پڑے امید کرتا ہوں کہ ریاست اس بارے میں بھی ضرور سوچ وچار کرے گی۔

ان ملازمین کو فارغ کرنے کے بعد نوجوانوں کو بڑی تعداد میں بھرتی کیا جائے گا لیکن انہیں کنٹریکٹ کی  بنیاد پر بھرتی کیاجائے گا نہ ہی ان ملازمین کی پنشن ہو گی اور نہ ہی انہیں کسی قسم کی گریجویٹی دی جائے گی یوں ریاست پر پنشن اور گریجویٹی کا جو اضافی بوجھ پڑتا تھا اس سے حکومت کو نجات مل جائے گی۔ہم امید کرتے ہیں کہ اس سے گورنمنٹ کو قرضہ بھی نہیں لینا پڑے گا بلکہ گورنمٹ ملک پر جو قرضہ ہے اسے اتارنے کے بارے میں سوچے گی تاکہ ملک پاکستان جو کئی دہائیوں سے قرضے کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے بد قسمتی سے ہمیں آج تک جو حکمران بھی ملے انہوں نے کسی نہ کسی طرح ملک کو نقصان پہنچایا خزانے کو لوٹا اور قرضے لے کر ملک کی نسبت اپنی جیبوں کو بھرا ۔اگر قرضوں سے ملک یا عوام پر خرچ کیا جاتا تو نظر بھی آتا اگر عوام کے بھی کچھ منصوبوں پر کام کیا گیا ان میں بھی کرپشن کی گئی اور ملک کے خزانے کو نہ صرف نقصان پہنچا بلکہ عوام پر مزید قرضوں کا بوجھ لاد دیا گیا جس کا خمیازہ غریب عوام مہنگائی کی شکل میں بگھت رہی ہے اگر دیکھا جائے تو جو بھی حکومت کرنے آتا ہے وہ عوام کو دلدل سے نکالنے کا نعرہ لگا کر آتا ہے لیکن برسر اقتدار آتے ہی اس کی پالیسیاں بالکل تبدیل ہو جاتی ہیں اور عوام اس کی غلط پالیسیوں سے مزید غریب سے غریب ہوتی چلی جاتی ہے خدارا اگر خدا نے آپ کو حکمرانی کا نشرف بخشا ہے تو بطور مسلمان آپ کو علم ہونا چاہیئے کہ اس کا حساب آپ سے آخرت میں لیا جائے گا ممکن ہے کہ آپ دنیا کی عدالتوں سے آزاد ہو جائیں لیکن خدا کی عدالت میں آپ کو اپنے کیے کی سزا ضرور ملے گی ۔

لوگ سرکاری ملازمت کو صرف اس لیے ترجیح دیتے تھے کہ ریٹائرڈمنٹ پر انہیں کچھ پیسہ مل جائے گا جس سے وہ اپنی بیٹیوں یا بیٹوں کی شادی کر لیں گے یا پھر سر چھپانے کے لئے آخری عمر میں ایک چھوٹا سا گھر بنا لیں گے لیکن اب ریاست نے ان سے یہ حق بھی چھین لیا ہے اب سرکاری ملازمت اور پرائیویٹ ملازمت میں کوئی خاص فرق نہیں رہے گا لیکن کیونکہ ملک میں بے روزگار نوجوانوں کی بھر مار ہے جنہیں جینے کے لئے نوکری کی ضرورت ہے وہ ضرور سرکاری نوکوری کو ترجیح دیں گے
 

H/Dr Ch Tanweer Sarwar
About the Author: H/Dr Ch Tanweer Sarwar Read More Articles by H/Dr Ch Tanweer Sarwar: 320 Articles with 1925043 views I am homeo physician,writer,author,graphic designer and poet.I have written five computer books.I like also read islamic books.I love recite Quran dai.. View More