جب میں سکردو شہرکے خوبصورت مقام شاہ ولاز پرسابق
وزیراعلی گلگت بلتستان سید مہدی شاہ کا انٹرویو کررہا تھا تو اس سے قبل
انہوں نے فون کرکے کسی کو بتایا کہ میں انٹرویو دینے لگا ہوں اور اسکے بعد
سب ملکر کھانا کھائیں گے اس لیے آپ بھی آجاؤ اسکے بعد انٹرویو شروع ہوگیا
اور اسی دوران ایک خوبصورت نوجوان کمرے میں داخل ہوا اور خاموشی سے ایک طرف
بیٹھ گیا بعد میں شاہ صاحب نے اس نوجوان عمران ذاکرجو پی پی پی جی بی کے
میڈیا کوآرڈینیٹر ہیں کا تعارف کروایا تو گپ شپ شروع ہوگئی عمران ذاکراس
وقت پیپلز پارٹی کے سرگرم کارکن ہیں اور گلگت بلتستان کی عوام کا دکھ
سمجھتے ہیں اور پھر ہر جگہ وہ اس کا برملا اظہار بھی کرتے ہیں وہ لاہور میں
بھی بہت عرصہ تعلیم کے سلسلہ میں مقیم رہے ہیں اور انہوں نے داتا صاحب
حاضری کے دوران پیش آنے والا ایک خوبصورت واقعہ بھی سنایا مگرانکے دل میں
گلگت بلتستان کی عوام کی محرومیوں کے حوالہ سے جو درد ہے وہ انہی کی زبانی
سنتے ہیں پاکستان پیپلزپارٹی اور گلگت بلتستان کا برسوں پرانا رشتہ ہے یہ
پاکستان کا وہ پسماندہ علاقہ ہے جس سے ہمیشہ سوتیلی اولاد کا سا سلوک کیا
گیا،گویا کہ اکیسویں صدی میں رہتے ہوئے بھی ہم سو سال پیچھے ہیں۔اگر ہم
تاریخ پر نظر ڈالیں تو اس پر امن خطے نے جنگ آزادی اپنی مدد آپ لڑ کر خود
پاکستان کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا یہ وہ خوبصورت خطہ ہے جو اپنی اونچی
چٹانوں،دلفریب سیاحتی مقامات اور حب الوطنی کی وجہ سے جانا پہچانا جاتا
ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی دشمن نے پاکستان کے شمال پر میلی نظرڈالی اسے
ہمیشہ منہ کی کھانی پڑی ہے۔کارگل کی جنگ میں این ایل آئی کے جوانوں نے ایسی
بہادری دکھائی کہ دشمن بھی ہمارے شہیدوں کا قائل ہو گیا۔اﷲ تعالی کے فضل و
کرم سے پاکستان بھر کو گلگت بلتستان کا پانی سیراب کرتا ہے۔بچے سے لے کر
عمر رسیدہ تک اپنے وطن پاکستان کے لئے اپنا تن،من،دھن قربان کرنے کو ہمیشہ
تیار ہے۔ گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت پر نظر دوڑائی جائے تو جب سے پاکستان
وجود میں آیا ہے تب سے اب تک ہماری حیثیت متنازعہ ہے۔پاکستان پیپلزپارٹی
اور گلگت بلتستان کا ایک لازوال رشتہ ہے۔قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کا اس
ِخطے کی عوام کا سب سے پہلا تحفہ راجگی نظام کا خاتمہ تھا۔ذولفقار علی بھٹو
نے اس خطے کے باسیوں کو راجوں کی غلامی سے نجات دلوائی،اس خطے میں جمہوریت
کو متعارف کروایا۔لوگوں کو یہ شعور دیا کہ ووٹ کے ذریعے عوام اپنے اچھے برے
کا فیصلہ خود کر سکتی ہے شہید بھٹو گلگت بلتستان جسے پہلے شمالی علاقہ جات
کے نام سے جانا جاتا تھا لوگوں کو اپنے حقوق پر بولنے کا شعور دیا اور اپنے
دور میں کئی ایسی سیاسی اصلاحات کیں جس کا فائدہ اب بھی ہمارے خطے کو ہو
رہا ہے۔ ہمارے اس عظیم خطے کو 2009 سے قبل شمالی علاقہ جات کے نام سے جانا
جاتا تھا۔2009 میں جب پاکستان پیپلزپارٹی نے گلگت بلتستان کے عام انتخابات
بھاری اکثریت سے جیتے تو آصف علی زرداری صاحب نے آئین میں ترامیم کر کے
ہمارے خطے کو اس کا نام اور شناخت گلگت بلتستان کے نام سے دی۔قانونی
اصلاحات کے ذریعے یہاں صوبائی طرز کی قانون ساز اسمبلی تشکیل دی گئی۔گلگت
بلتستان کے عظیم جیالے سید مہدی شاہ جو میرے ذاتی دوست بھی ہیں ان کو گلگت
بلتستان کا پہلا چیف منسٹر بنایا گیا۔گلگت بلتستان کی عوام میں امید کی نئی
کرن پیدا ہوئی اور یہ حوصلہ پیدا ہوا کہ پاکستان پیپلزپارٹی ہی وہ واحد
جماعت ہے جو گلگت بلتستان کے حقوق پر نہ صرف آواز اٹھانے کی جرات رکھتی ہے
بلکہ وقت آنے پر قانون سازی کے ذریعے اسے پاکستان میں باقاعدہ بنیادوں پر
صوبہ بنانے کی مثبت تعمیری سوچ بھی رکھتی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری جب سے
پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئر مین بنے ہیں انہوں نے گلگت بلتستان کے دو دورے
کیے اس دوران انہوں نے اپنی خوش اخلاقی اور گلگت بلتستان کے معاملات میں
دلچسپی سے گلگت بلتستان کے بچے سے لے کر بزرگ تک کے دل جیت لئے پورے گلگت
بلتستان کے 10 اضلاع کا دشوار گزار پہاڑی علاقے کا سرد موسم میں تفصیلی
دورہ کیا۔ایک ایک کارکن کی بات سنی ان کے ساتھ وقت گذارا ان کے مسائل اس
دلچسپی سے سنے کہ لوگوں کو یقین ہو گیا کہ اپنے نانا والدہ اور والد کے بعد
اب بلاول ہی ان کے لئے امید کی کرن ہیں۔ گلگت بلتستان کے انتخابات اب سر پر
ہیں پاکستان پیپلزپارٹی گلگت بلتستان میں جتنی اب مضبوط ہے پہلے کبھی نہ
تھی۔24 حلقوں میں ہمارے نمائندے عوام کی عدالت میں جانے کو تیار ہیں۔سیاسی
سرگرمیاں اپنے عروج پر ہیں اور وقت اور حالات سے ایسا لگتا ہے کہ ایک بار
پھر گلگت بلتستان کی عوام نے پاکستان پیپلزپارٹی کو بھاری اکثریت سے کامیاب
کرنا ہے۔کارکنان نے اپنی کمر باندھ لی ہے۔پچھلے ایک سال میں چیئرمین بلاول
بھٹو زرداری نے براہ راست گلگت بلتستان کے ہر معاملے پر ذاتی توجہ دی ہے
اور ہماری نمائندگی ہر فورم پر خود کی ہے اور اس کا رد عمل گلگت بلتستان کی
عوام ووٹ کے ذریعے انشا ء اﷲ ضرور دے گی۔پاکستان پیپلزپارٹی گلگت بلتستان
عوام کی عدالت میں جانے اور سرخرو ہونے کو انشاء اﷲ تیار ہے۔عمران ذاکر
بلاول بھٹو زرداری کے خیالات سے مکمل ہم آہنگ ہے اور جنون کے ساتھ جی بی
میں اپنے قائدین کا پیغام عام لوگوں تک پہنچا رہا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ
پیپلز پارٹی کو اسی طرح کے نوجوانوں کی ضرورت ہے مگر اسکے لیے پنجاب میں
بھی سید مہدی شاہ کی سوچ اور خیالات کی ضرورت ہے یہاں کے بزرگ اور خوامخواہ
کے سینئر افراد نوجوان نسل کو آگے آنے کا موقعہ دیں تاکہ پیپلز پارٹی پنجاب
میں اپنا وجود برقرار رکھ سکے ورنہ جو حشر پچھلے الیکشن میں ہوا آنے والے
الیکشن میں اس سے بھی برا ہوسکتا ہے اس لیے بھٹو کو زندہ رکھنے کے لیے
نوجوان جیالوں کی ضرورت ہے جو بھٹو ازم کو گھر گھر پہنچا سکیں۔
|