ایم پی پولیس: دوبے کے سامنے بھیگی بلی ، دلتوں کے خلاف بھیڑیئے

9 جولائی کو مدھیہ پر دیش کے اجین شہر میں جس مہذب انداز میں خونخوار قاتل وکاس دوبے کو گرفتار کیا گیا اس کو دیکھ کر ساری دنیا حیران رہ گئی۔ صبح ۷ بجے وکاسن مندر کے اندر گیا۔ کئی لوگوں نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے وکاس کو پہچان لیا اور پولس کی اطلاع دی ۔ پولس اس کو گرفتار کرنے کے لیے ڈنڈا تک نہیں لائی اور مندر کے باہر میڈیا والوں کے ساتھ شرافت سے انتظار کرتی رہی تاکہ پوجا ارچنا میں خلل نہ ہو ۔ یہ خاطر توضع دیکھ کر وہ بھی بور ہوگیا اور چیخ چیخ کر کہنے لگا میں وکاس دوبے ہوں کانپور والا ، مجھے پکڑ لو۔ اس طرح وکاس دوبے کی گزارش پر اسے حراست میں لیا گیا ۔ دن بھر اس کی خوب خدمت کی گئی۔ مجسٹریٹ کے سامنے حاضر کر کے ریمانڈ پر لینے کی آئینی ذمہ داری بھی نظر انداز کردی گئی ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کے اعتراف پر کیسے بھروسہ کیا جاتا یعنی کوئی اور بھی تو ہوسکتا ہے جو اپنے آپ کو وکاس بتا کر پھانسی پر چڑھنا چاہتا ہو۔ خیر کانپور کی پولس نے آکر اسے پہچان لیا تو اس کو حوالہ کرنے پر پولس راضی ہوگئی۔

کیا یہ حسن سلوک اس لیے ہورہا تھا کیونکہ وہ شرومنی براہمن تھا ۔ اس کو صوبے کے براہمن وزیر داخلہ نروتم مشرا کا آشیرواد پراپت (حاصل) تھا ؟ اسی لیے اس کومدھیہ پردیش کی سرحد کے اندر اترپردیش کی پولس کو نہیں سونپا گیا تاکہ کہیں وہ اپنے ہی صوبے میں انکاونٹر کر کے بدنام نہ کردے۔ مدھیہ پردیش کی سرحد سے نکل جانے کے بعد جھانسی میں نہایت ادب و احترام کے ساتھ صحیح سلامت وکاس دوبے کو یوپی اے ٹی ایس کے حوالے کیا گیا۔ اس کے بعد یوپی کی ٹھاکر پولس نے جو کچھ کیا اس کے لیے مدھیہ پولس کو تو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا ۔ اس معاملے ایم پی کی پولس نے جس گاندھی گیری کا مظاہرہ کیا اس کے لیے اسے امن عالم کا اعزاز ملنا چاہیے کیونکہ جولوگ خونخوار قاتلوں کے ساتھ ایسا اچھا معاملہ کرتے ہیں وہ بے قصور لوگوں کے ساتھ کتنی اچھی طرح پیش آتے ہوں گے؟ لیکن اس سے پہلے کہ مدھیہ پردیش پولس کا نام نوبل پرائز فار پیس کے لیے بھیجا جاتا اور اسے وصول کرنے کے لیے سادھوی پرگیہ کو نامزد کیا جاتا مدھیہ اس کا خونخوار چہرہ سامنے آگیا۔

گونا ضلع یعنی مہاراج جیوتردیتیہ سندھیا اور دگوجئے سنگھ کا علاقہ جس میں چمبل کی وادی بھی پائی جاتی ہے ۔ یہاں پرجگن پور گاؤں میںناجائز قبضہ ہٹانے کی کاروائی کرنے کے لیے پولس ٹیم پہنچی ۔ اس دوران زمین پر کام کرنے والے کسان نے کہا کہ فصل تیار ہے ۔ یہ اس کی محنت و مشقت کا پھل ہے اس لیے کٹ جانے تک کی مہلت دی جائے ۔ یہ نہایت معقول گزارش تھی ۔ اس طرح چند دنوں کے لیے اگر قبضہ ہٹانے کی کارروائی کو موقوف کرکےکچھ انتظار کیا جاتا تو آسمان نہیں پھٹ پڑتا لیکن پولس پر وحشت سوار ہوگئی ۔ دوبے پر رحم و کرم کرنے والی پولس سراپا غیض و غضب کا مظہر بن گئی ۔وہ اس زمین پر کھیتی کرنے والے خاندان کے ساتھ زور زبردستی پر اتر آئی ۔ اس کے باوجود جب کسان نے مزاحمت کی تو پولس اہلکار سرِ عام بے رحمی سے پٹائی کر نے لگے ۔ انہیں اس بات کی پروا نہیں تھے وہاں موجود لوگ اس کی ویڈیو گرافی بھی کررہے ہیں ۔ اس ظلم و جور کو روکنے اپنے شوہر کو بچانے کے لیے اس کی بیوی سامنے آگئی تو اس کو بھی زدو کوب کیا گیا اور بچوں تک کو نہیں بخشا گیا۔ یہ ایم پی پولس کا دوسرا کریہہ چہرہ تھا۔

ہندوستان کے اندر دلتوں اور قبائلی سماج کو مظالم سے بچانے کے لیے خصوصی قانون ہے ۔ عدالت عظمی ٰ کو اس کی شقوں پر اعتراض ہے اس لیے کہ بارہا دلتوں کو مظالم کا شکار کرنے کے بعد الٹا ان پر جھوٹی شکایت کا الزام منڈھ دیا جاتا ہے اورعدلیہ اس الزام تراشی پر یقین کرلیتی ہے۔ گاوں میں کسی کی مجال نہیں ہوتی کہ غریب دلت کے حق میں گواہی دے اور ظالم باعزت بری ہوجاتے ہیں لیکن اس بار تو بے رحمانہ پٹائی کی فلمبندی ہوچکی ہے۔ اس کا ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکا ہے جس میں دلت کسان اور اس کی فیملی پولس سے رحم و کرم کی بھیک مانگتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ کسان کے بچوں کو روتے بلکتے دیکھا جا سکتا ہے۔ یہاں تک کہ جب پولس کسی صورت نہیں مانتی تو کسانراجکمار اہیروار اور اس کی بیوی ساوتری بائی کھیت ہی میں جراثیم کش دوا پی کر خود کشی کی کوشش کرتے ہیں ۔ اب پولس کو بچانے کے لیےگبو پاردی نام کا کردار ایجاد کرلیا گیا ہے۔ اس کو سرکاری زمین پر قبضہ کرنے کا ملزم بناکر پیش کیا جارہا ہے اور اسی پر جراثیم کُش دوا پینے کے لیے مشتعل کرنے کا الزام دھرا جارہا ہے۔ یہی سرکاری سرپرستی ہے جس کے سبب یہ پولس خونخوار مجرم کے سامنے بھیگی بلی اور بے ضرر شہریوں کی خاطر خونخوار بھیڑیا بن جاتی ہے۔

اس ویڈیو کو اپنے ٹویٹر ہنڈل پر منسلک کرکے مدھیہ پردیش کے سابق وزیر اعلی کمل ناتھ نے کئی سوال کیے مثلاً ’’یہ شیو راج سرکار ریاست کو کہاں لے جا رہی ہے؟ یہ کیسا جنگل راج ہے؟‘‘ اس توجہ دہانی کے بعد وزیر اعلیٰ شیوراج چوہان ہوش میں آئے اور نہوں نے اعلان کیا کہ ’’ کسی بھی طرح کے ظلم و بربریت کو برداشت نہیں کیا جائے گی‘‘۔ انہوں نےجگن پور گاؤں کے واقعہ کی اعلیٰ سطحی تفتیش کا حکم دینے کے بعد کہا کہ ’’اس میں جو بھی مجرم پایا جائے گا اس کے خلاف سخت سے سخت کاروائی کی جائے گی‘‘۔وزیر اعلیٰ نے کلکٹر ایس وشوناتھ اور پولیس سپرنٹنڈنٹ (ایس پی) کو فی الفور معطل کیے جانے کی ہدایت بھی دی۔ وزیر داخلہ نروتم مشرا نے اعلیٰ سطحی جانچ کا اعلان کیا۔راجیہ سبھا رکن جیوتی رادتیہ سندھیا نے گونا کے سانحہ کو بد بختانہ قرار دیا۔ راہل گاندھی نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا ہے کہ "ہماری لڑائی اسی سوچ اور ناانصافی کے خلاف ہے"۔

اس طرح کا گھسا پٹا ردعمل اتنی بار سامنے آچکا ہے کہ ساری مذمت، تفتیش، معطلی وغیرہ ایک ڈھونگ لگنے لگی ہے۔ عوام کا غم وغصہ ٹھنڈا کرنے کے لیے یہ مگر مچھ کے آنسو بہائے جاتے ہیں اور کچھ دنوں کے بعد سب کچھ بھول بھال کے زندگی اپنے پرانے ڈھرے پر آجاتی ہے۔ ظالموں کو مختلف بہانوں سے بچا لیا جاتا ہے ۔ ان پر کوئی شدید کارروائی نہیں ہوتی اس لیے ظلم کی چکی چلتی رہتی ہے اور اس میں سے مظلومین کا لہو رستا رہتا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کب تک جبر و ظلم کا ننگا ناچ جاری رہے گا ۔ وطن عزیز میں اس کو چلتے پانچ ہزار سال کا طویل عرصہ گزر چکا ہے ۔اب یہ کھیل بہت ہوچکا۔ وقت آگیا ہے کہ اس کو روکا جائے لیکن یہ اس طرح کی جملہ بازی سے نہیں رکے گا کہ مارنا ہے تو مجھے مارو دلتوں کو نہیں ۔ وزیر اعظم کی اس ڈرامہ بازی سے یہ ظلم نہیں رکے گا۔ سوال یہ ہے کہ مارنا کیوں ہے ؟ اور جو مارے گا اس کا ہاتھ کب اور کیسے ٹوٹے گا ۔ آج عالمی یوم انصاف ہے جب تک سماج کے آخری آدمی کے ساتھ عدل نہیں ہوگا کچھ نہیں ہوگا۔ فیض احمد فیض کی نقشِ فریادی اکیاسی سال قبل شائع ہوئی تھی۔ اس میں شائع شدہ اپنی معرکتہ الآراء نظم ’چند روز اور میری جان !‘ میں شاعر نے ایک خواب دیکھا تھا جو ہنوز شرمندۂ تعبیر نہیں ہوا :
چند روز اور مری جان! فقط چند ہی روز
ظلم کی چھاؤں میں دم لینے پہ مجبور ہیں ہم
اور کچھ دیر ستم سہہ لیں، تڑپ لیں، رو لیں
اپنے اجداد کی میراث ہے معذور ہیں ہم
جسم پر قید ہے، جذبات پہ زنجیریں ہیں
فکر محبوس ہے گفتار پہ تعزیریں ہیں
اپنی ہمت ہے کہ ہم پھر بھی جیے جاتے ہیں
زندگی کیا کسی مفلس کی قبا ہے جس میں
ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں
لیکن اب ظلم کی معیاد کے دن تھوڑے ہیں
اک ذرا صبر کہ فریاد کے دن تھوڑے ہیں
عرصہ دہر کی جھلسی ہوئی ویرانی میں
ہم کو رہنا ہے پہ یونہی تو نہیں رہنا ہے
اجنبی ہاتھوں کا بے نام گرانبار ستم
آج سہنا ہے ہمیشہ تو نہیں سہنا ہے


 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1223555 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.