19 جولائی یوم الحاق پاکستان اور کشمیری عوام!!!

 19 جولائی کو کشمیری عوام لائن آف کنٹرول کے دونوں اطراف اور دنیا بھر میں یوم الحاق پاکستان مناتے ہیں،متحدہ کشمیر ایک آزاد ریاست تھی، جو انگریزوں نے ڈوگرہ شاہی خاندان کے ھاتھوں غیر انسانی انداز میں فروخت کی تھی، اس وقت سے لے کر کشمیری عوام نے ڈوگرہ تسلط کو قبول نہیں کیا اور اپنے شعور اور طاقت کے مطابق جدوجہد جاری رکھی، اس کے لیے ہر طرح کی سختیاں برداشت کیں، ظالمانہ مالیاتی نظام ھو، یا جائیداد کی غلط تقسیم اور مذھبی و لسانی حملے ھوں کشمیری عوام نے ڈوگرہ راج کے خلاف علم بغاوت بلند کیے رکھا، چند منظور نظر گراہوں کے علاؤہ ڈوگرہ راج کا کوئی بھی حامی نہیں تھا تاہم ظالمانہ سلوک کو بڑے صبر سے برداشت کیا، اور بلا تفریق مختلف محاذوں پر آزادی کا پرچم لہراتے رہے، آخر وہ وقت بھی آیا کہ قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں تحریک پاکستان کی جدوجہد کے نتیجے میں تقسیم ھند کا فیصلہ ھوا، اور تقسیم ھند کے پلان کا اعلان کیا گیا، ایسے میں مختلف ریاستوں کو یہ فیصلہ کرنے کا اختیار دیا گیا کہ وہ اپنی مرضی سے پاکستان یا بھارت میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں، مہاراجہ ہری سنگھ جو نظریاتی طور پر بھارت کا حامی تھا، لیکن اسے کبھی بھی کشمیری عوام کی حمایت حاصل نہیں رہی اور نہ ہی غیر مسلم اقلیتیں کشمیر میں اسے قبول کرتی تھیں ، وہ غاصبانہ انداز میں ایک آمر اور نیم شاھی حکمران تھا، جس کی ظلم کی داستان ھر درخت سے لٹکی لاشیں، ھر جیل کی سلاخیں اور ھر گلی بازار میں بہتا خون سناتا تھا، مگر اس نے نہرو سے ساز باز کر کے کشمیر کا الحاق بھارت کے ساتھ کرنے کا اعلان اور بعد میں معاہدہ کر لیا، دوسری جانب عوام کی نمائندہ جماعت مسلم کانفرنس غازی ملت سردار ابراھیم خان کی قیادت میں تحریک بپا کیے ھوئی تھی، ھری سنگھ کے غیر مقبول اور عوام دشمن فیصلے کے خلاف سردار محمد ابراھیم خان کی رہائش گاہ سری نگر میں مسلم کانفرنس کا نمائندہ اجلاس قائمقام صدر حمید اللہ خان کی صدارت میں ھوا، جس میں سینکڑوں کشمیری رہنماؤں نے شرکت کی، سردار یار محمد خان، سید حسن شاہ گردیزی، خواجہ غلام محمد وانی اور دیگر کی تائید میں کشمیر کا پاکستان سے الحاق کی قرارداد پیش کی گئی، یہ قرارداد کثرت رائے سے منظور ھوئی اور ریاست کا انتظام پاکستان کو دے دیا گیا، غازی ملت سردار ابراھیم خان صاحب سری نگر میں اپنے بیوی بچوں کو چھوڑ کر پاکستان آئے مری میں ایک اجلاس بلا کر عسکری جدوجہد کا آغاز کر دیا گیا، اس عسکری جدوجہد میں کیپٹن حسین خان شہید، کرنل خان آف منگ، سردار عبد القیوم خان، سید حسن شاہ گردیزی، سردار فتح محمد کریلوی اور دیگر لوگ نمایاں طور پر شامل تھے، جنہوں نے ڈوگرہ راج کے خلاف سخت عملی جدوجہد کی، دوسری طرف سردار ابراھیم خان کی قیادت میں حکومت کا اعلان کر دیا گیا، جس کے پہلے صدر سردار ابراھیم خان مقرر ہوئے، صدر مقام جونجال ھل تراڑکھل کے قریب رکھا گیا، بھارت نے کمال چالاکی اور ماؤنٹ بیٹن کی ساز باز سے اکتوبر میں وادی کے اندر فوج اتار دی، اس وقت عسکری جدوجہد کرنے والے قافلے انت ناگ بارہ مولا تک پہنچ گئے تھے تاہم پاکستان کے سخت احتجاج پر کشمیر کے مقدمے کو اقوام متحدہ میں لے جایا گیا، حالانکہ تقسیم ھند کے پلان میں یہ شامل نہیں تھا، مسلم اکثریتی علاقوں کا نام شامل تھا، اس وقت وادی میں 78 فیصد مسلمان بستے تھے، جن کے علاؤہ ھندوؤں کے کئی نمائندے، دانشور اور دیگر مذاھب کے لوگ بھی اس حق میں تھے کہ ریاست کا الحاق فطری، جغرافیائی، مذھبی اور نظریاتی بنیاد پر پاکستان کے ساتھ بنتا ہے، اس کے علاؤہ گورداسپور، حیدرآباد میں بھی یہی اصول لاگو ھونا تھا مگر لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور نہرو کی دوستی، قربت، ریڈکلف کی جانبداری رنگ لائی اور آج تک بھارت کے مسلمان ھوں یا کشمیر کے، سختیاں برداشت کر رہے ہیں، جب عسکری جدوجہد کرنے والے سری نگر کے قریب پہنچے ھی تھے کہ جنگ بندی کا معاہدہ طے پا گیا اور اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق کشمیر میں آزادانہ استصواب رائے کا فیصلہ ھوا جس کو بھارت، پاکستان اور کشمیری قیادت نے بھی قبول کیا، البتہ آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کے درمیان ایک خونی لکیر کھینچ دی گئی،مگر آج تک کشمیری عوام اس جدوجہد میں لاکھوں افراد کی قربانی دے چکے، آج بھی ایک پابند اور قلعہ نما حصار میں بند ہیں، پانچویں نسل بھی آزادی کی تحریک لے کر اٹھی ہے، مگر دنیا خاموش ، ضمیر پر اور زبان حق پر تالے پڑے ہیں، ایک بات جو سب سے ضروری ہے کہ نوجوانوں کے اندر آزاد ریاست کا ایک پرجوش جذبہ موجود ہے جو ،خود مختار ریاست کے قیام کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، میری رائے میں اس وقت صرف آزادی کے لیے جدوجہد کی سیاسی اور شعوری جدوجہد کی زیادہ ضرورت ہے، جس طرح حریت کانفرنس میں متضاد نظریات کے حامل افراد آزادی کے لیے متحدہ آواز بلند کرتے ہیں باقی لوگوں کو بھی ایک ھونا چاھیے وگرنہ سفر اور ظلم تیز تر ھوتا جائے گا، میں نے خود جناب شہید کشمیر مقبول بٹ کی زبان سے یہ سنا ھے کہ "پاکستان ھمارا بڑا بھائی اؤر ، جدوجہد میں ھمارا شریک کار ھے ھمیں ابھی صرف آزادی کشمیر کے لیے کوشش کرنی ھو گی"، بھارتی تسلط سے آزاد ہو کر ھی کوئی بہتر اور عوام کی رائے سے سیاسی فیصلہ کرنا چاہیے، تقسیم ہند کے پلان میں ریاست کا تیسرا آپشن قانونی طور پر کمزور ہے، سوچ پر قدغن نہیں لگائی جا سکتی مگر سر دست آزادی ھی بہترین آپشن ھےاور پاکستان کے ساتھ ھی مل کر جدوجہد کرنا ھمارا مقصد ھو تو کوئی حل نکل سکے گا،
 
Sardar Khursheed Akhtar
About the Author: Sardar Khursheed Akhtar Read More Articles by Sardar Khursheed Akhtar: 89 Articles with 68496 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.