آزادکشمیر کی پانچ جامعات کے طلبہ نے فیسوں کے کرونا
کیخلاف تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق احتجاج کا اعلان کیا ہے سرکاری کے جامعات
کی طرف سے طلبہ کو بھاری بھر کم چالان ارسال کرنا شروع کیے گئے ہیں فیسوں
اور اضافی چارجز کی بھرمار اس طرح کی گئی ہے جس طرح گھروں میں ہر ماہ بعد
مرچ مصالحوں سمیت اشیاء ضروریات کی فہرست خاندان کے کفیل کو تھما دی جاتی
ہے یا پھر وہ معالج جس کا نئی نویلی ادویات کی کمپنی سے ٹھیکہ ہوتا ہے اور
مریضوں کو نسخہ میں بارہ بارہ ادویات‘ انجکشن لکھ کر فلاں سٹور سے خریداری
کا حکم دیتا ہے اس طرح طلبہ کو مختلف چارجز کی فہرست کے ساتھ فیسیں جمع
کرانے کا حکم صادر کیا گیا ہے یہ سب ایسے حالات میں کیا گیا ہے جب کرونا سے
پیدا صورت حال معاشی مشکلات میں ہائیر ایجوکیشن کمیشن پاکستان نے تمام
اضافی چارجز ختم کر دیے ہیں‘ پنجاب میں فیسوں کو حوصلہ افزاء بنیادوں پر کم
کیا گیا ہے مگر یہاں اکاؤنٹ 101 کے استفادہ کار وہاں تنخواہیں‘ مراعات میں
اضافہ ہو تو سب کچھ چھوڑ کر باہر نکل آتے ہیں ہمیں ان کے برابر خزانہ سے
نوازہ جائے مگر وہاں عوام کو سہولت دی جائے ان کے لیے دِن رات کام کیا جائے
تو اس معاملے میں اختیار و ریاستی تشخص کے نام پر یہاں کے عوام کا استحصال
کیا جاتا ہے‘ ان کو زرہ بھر رعایت نہیں دی جاتی ہے ہر ادارے‘شعبہ میں یہی
حال ہے جس کا بڑا ثبوت تعلیم کے اعلیٰ اداروں کی طرف سے حالیہ اقدام ہے‘
اساتذہ طلبہ گھروں میں ہیں‘ سپورٹس لیب سمیت سب کچھ بند ہے مگر ان سمیت بڑی
فہرست چارجز کی طلبہ کو جاری کر دی گئی ہے‘ حقوق‘ فرائض سمیت ہر طرح کے
فیصلوں‘اقدامات سے پہلے اپنے علاقے کے مجموعی حالات کا پوری گہرائی غور فکر
سے جائز ہ لیا جاتا ہے پھر فیصلے کیے جاتے ہیں مگر یہاں آن لائن ایجوکیشن
کا فیصلہ سنایا گیا ہے جس کے لیے اضافی فیسوں کا بوجھ بھی ڈالا جا رہا ہے
تو خود اس کے لیے لیب ٹاپ سے لیکر انٹر نیٹ کنکشن کے حصول طلبہ کے والدین
کیلئے ایک اور عذاب بنا دیا گیا ہے اس سے بڑا مسئلہ یہ ہے انٹرنیٹ کی سہولت
اس کا معیار یہاں شہروں میں وبال جان ہے تو دورافتادہ علاقوں میں تو یہ محض
آخری سانسیں لیتے مریضوں سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا ہے مگر یہاں کے افلاطون
مائنڈ سیٹ ہر شعبہ کے اندر اپنی آسانیوں کیلئے وہ سب کچھ کر دیتا ہے جو
ترقی یافتہ سوسائٹی میں ہو رہا ہے مگر کیا اس کے وجود اس معیار کے مطابق
یہاں ہے یہ سوچنے کی زحمت نہیں کی جاتی ہے‘ سوال یہ پیدا ہوتا ہے‘ ریاست کا
سب سے زیادہ بجٹ تعلیم کے محکمے کو جاتا ہے پھر سرکاری اور پرائیویٹ تعلیمی
اداروں خصوصاً جامعات کی سطح پر فرق کیا ہے دونوں کی طرف سے ایک جیسے چارجز
کی فہرستیں دی جا رہی ہیں تو پھر سرکاری بجٹ لینے اور نہ لینے والوں میں
فرق کیا رہ گیا ہے‘ بڑی بدقسمتی ہے کہ یہاں ہر شعبہ میں سرکاری سطح پر جتنا
بڑا بجٹ فراہم کیا جا رہا ہے اتنا اس کا حال خراب ہے اگر تعلیم‘ صحت سمیت
تمام شعبہ جات پرائیویٹ سیکٹر کو دیکر طلبہ کی مجموعی فیسیں اور مریضوں کے
علاج کے اخراجات ان کو دیے جائیں تو آدھے سے زیادہ بجٹ بچ جائے گا اور
معیار تعلیم و صحت کے شعبہ میں بہتری لائی جا سکتی ہے‘ یہی صورتحال دیگر
شعبہ جات کی ہے آئین ترامیم اختیار‘ وسائل صرف 101 اکاؤنٹ کے استفادہ کاروں
کے مفادات کے تحفظ کا گورکھ دھندہ ہے تو پھر اس کو دریابرد کر کے پہلے والا
نظام ہی بحال کر دیا جائے‘ کم از کم ان گورکھ دھندوں کو تحریک کشمیر اور
نظریاتی وابستگیوں سے جوڑ کر شہدائے کشمیر کی روحوں کو پامال نہ کیا جائے‘
طلبہ کی طرف سے مسلسل دھرنا اور مطالبات ان کے والدین کی بے بسی کا آئینہ
دار ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہاں آئین ترامیم اوراختیار کی ہر گز ضرورت
ہے نہ اس کا عوام کو کوئی فائدہ ہے بلکہ کسی شہباز شریف کی ضرورت ہے؟
|