غیرت و حمیت
(Tariq Hussain Butt, UAE)
اس کرہِ ارض پر سپر پاور کی مسند ہمیشہ
تغیر پذیر رہی ہے۔یہ کبھی نہیں ہوا کہ کوئی قوم ازل سے ابد تک اس مسند پر
سرفراز رہی ہو۔( ثبات اک تغیر کو ہے زما نے میں ) ایک ابدی ھقیقت ہے اور اس
سے کسی کو مفر نہیں ہے ۔اگر تغیر پذیری کی رسم نہ ہوتی تو یہ دنیا ایک
تالاب اور جو ہر کی طرح جامد ہو جاتی جس میں ظلم و جبر کی بدبو پپیدا ہو
جاتی جو انسانیت کا جینا دوبھر کر دیتی۔ لہذا تغیر آشنائی سے ظلم وعدوان کے
پودے کو زمین بوس کرنا مشیتِ ایزدی ہے ۔یہ نہیں ہوا کہ اپنے چہینے محبوب ﷺ
کی قوم کو اس اصول سے استثنی دے دیا جاتا ۔فطرت کے قوانین کے سامنے کوئی
اپنا اور کوئی غیر نہیں ہوتا۔وہاں پر فیصلے اعمال و افعال کی بنیاد پر کئے
جاتے ہیں۔ وہاں پر جانبداری کا شائبہ نہیں ہوتا ۔ ہاں اگر کوئی قوم مشیتِ
ایزدی کے نفاذ کی خاطر یا انسانیت کی عظمت و سر بلندی کی خا طر میدانِ
کارزار میں نکلتی ہے تو فطرت اس کے جذبوں کی برو مندی کے لئے حالات کو اس
کے جذبوں کی کامیابی کے لئے موافقت میں بدلتی جاتی ہے۔سچ کی فتح اور حق کی
جیت تو فطرت کا دیباچہ ہے اور اس دیباچے کی خاطر جو قوم اپنے لہو سے جوت
جلانے کی سعی کرے گی فطرت اس کا بازو تھام لے گی۔یہ کسی مخصوص قوم کو زوال
سے بچانے یا کسی مخصوص قوم کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کا غیر فطری راستہ
نہیں ہے بلکہ یہ ہر اس قوم کو جو اپنی عقل و دانش اور جذبِ دروں سے اس کرہِ
ارض کی تشکیلِ نو کرنا چاہتی ہے اس کی کامیابی کا کھلا اعلان ہے۔ عمل کی
شمعیں جلا کر دنیا کی سرفرازی کاثمر پاؤ ۔ فرعونِ مصر ہوں ،بابل و نینوا کے
اسیری ہوں ، ایران کے ساسانی ہوِں ،خسرو و کئی ہوں ،رومن ا یمپائر کے قیصر
ہوں،بنو امیہ ہوں ،بنو عباس ہوں،سلطنتِ عثمانیہ کے حکمران ہوں،تاتاری ہوں ،
پر تگیزی ہوں، ولندیزی ہوں،ہسپانوی ہوں ، انگریز ہوں ،روسی ہوں اور یا پھر
امریکی ہوں سب کو باری باری اس مسند کی عظمت کا امین بنایا گیا ہے۔اس مسند
نے چھن جانا ہے اور اسے چھن جانے سے کوئی روک نہیں سکتا۔ہماری آنکھوں کے
سامنے انگریز کی عظمتیں زمین بوس ہوئی تھیں اور سویت یونین پارہ پارہ ہوا
تھا ۔
انگریزی راج پر تو سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔اس کا اقتدار تمام برِ اعظموں
پر تھا۔تجارت کے بہانے در آنے والے انگریزوں نے اپنی چالوں سے مغلیہ سلطنت
کو زیر کیا اور بہادر شاہ ظفر کو ر کو رنگوں جیسے بے آباد جزیرے میں جلا
وطن کر کے محبوس کر دیا جہاں پر انھوں نے اپنی زندگی کی آخری سانسیں
لیں۔برطانیہ جیسا وسیع و عریض اقتدار بہت کم مما لک کے حصے میں آیا
ہے۔ہندوستان جسے برِ صغیر کہا جاتا ہے اس پر انگریزی اقتدار کے معنی یہ تھے
کہ دنیا کی چو تھا ئی آبادی اس کے حلقہِ دام میں ہے۔آزادی کی تحریکیں چلیں
۔لاکھوں لوگوں نے جانوں کے نذرانے دئے تو تب کہیں جا کر آزادی کا خوا ب شر
مندہ تعبیر ہوا۔ایک طرف تھے مہاتما گاندھی،پنڈت جواہر لال نہرو،مولا ابو
الکلام آزاد،باچہ خان، علامہ عنائت اﷲ مشرقی،سید عطا اﷲ شاہ بخاری،مولانا
محمد علی جوہر،مولا نا حسرت موہانی ،مولا نا حسین احمد مدنی ۔ مولا ناظفر
علی خان جو آزادی ِ ہند کا ہرا ول دستہ تھے اور جس کے لئے ان کی قربانیاں
تاریخ ِ انسانی کا لازوال اثا ثہ ہیں تو دوسری جانب اسی تحریکِ آزادی سے
علامہ محمد اقبال اور قا ئدِ اعظم محمد علی جناح جیسی عظیم ہستیاں منظرِ
عام پر نمو دار ہوئیں جھنوں نے ایک علیحدہ مملکت کا تصور پیش کر کے نئی قوم
کی تخلیق کا معجزہ سر انجام دیا۔انگنت قربانیاں پیش کی گئیں تو تب کہیں جا
کر انگریزوں کی غلامی کا پٹہ گلے سے اترا اور ایک نئی قوم کے قیام کا خوا ب
شرمنسدہِ تعبیر ہوا۔سچ تو یہ ہے اس پٹے کے اترنے کی ہم نے جو قیمت چکائی ہے
وہ تاریخ میں بڑی ہی منفرد اور خونچکاں ہے۔پاکستان کے قیام میں جو قتلِ عام
ہوا اور سکھوں نے جس طرح مسلم خون کی بے حرمتی کو اپنا وطیرہ بنایا دل آج
بھی اس پر خون کے آنسو روتا ہے ۔ انھوں نے برچھیوں ،تلواروں اور کرپانوں سے
جس طرح نہتے مسلمانوں کو تہہِ تیغ کیا اور ظلم و بربریت کی جو ہولناک مثال
قائم کی اسے کوئی با غیرت پاکستانی کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔ ( کتنے ماتھے
جلے تب یہ جھومر بنا ) ایک ابدی حقیقت ہے اور اس کا اعتراف کئے بغیر ہماری
نجات ممکن نہیں ہے۔ہماری سرحد پر کرتار پور راہداری وطن کے شہیدوں کے لہو
سے بے وفائی کی علا مت ہے ۔ ہماری مائیں بہنیں بیٹیاں جھنیں سکھوں نے
زبردستی اغوا کر کے اپنے گھروں میں قید کر لیا تھا ان کی روحیں اس راہداری
کی تعمیر پر عرشِ عظیم پر متمکن خدائے جہارو قہار سے آہ و زاری کر رہی ہیں
۔ان کی آنکھوں سے ڈھلکنے والے آنسو وہ آہیں ہیں جس سے سب کچھ خاکستر ہو
سکتا ہے۔ان کی دردو الم میں ڈ وبی ہوئی فریادیں ہماری غیرت و حمیت جگانے کی
کوشش کر رہی ہیں لیکن ہم نے آپنی سماعتوں کو بند کر رکھا ہے کیونکہ ہماری
آنکھوں پر سیاسی برتری کی پٹی بندھی ہوئی ہے۔ہم دشمن کو نیچا دکھانے کیلئے
اس راہ پر نکل کھڑے ہوئے ہیں جو ہماری بنیادی فکر سے ہم آہنگ نہیں ہے۔جو
قومیں غیرت و حمیت کا سودا کرتی ہیں تباہ و برباد ہو جاتی ہیں ۔ دینِ حق
توغیر ت و حمیت کا واضح درس دیتا ہے جسے ہم در خورِ اعتنا نہیں سمجھ رہے
۔ریاستی امور کی بجا آوری ایک بات ہے جس میں ڈپلو میسی کو بنیادی اہمیت
حاصل ہوتی ہے لیکن اپنے شہیدوں کے لہو سے غدا ری دوسری بات ہے۔جن کے ہاتھوں
سے ہماری بہو بیٹیوں کی عظمتیں تاراج ہوئی ہوں انہی کے گلے میں پھولوں کے
ہار نہیں ڈالے جاتے لہذا کرتار پور راہداری کے معماروں کو میرا مشورہ ہے کہ
وہ اس کرتار پور راہداری کی بنیادوں میں اپنی بیٹیوں کی خاموش چیخوں کو
سننے کی ذحمت گوارا کریں تا کہ ان پر ساری حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہو
جائے ۔
(غیرت ہی بڑی چیز جہانِ تگ و دو میں پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِ دارا۔)
حالت واقعات اس انداز ستے وقع پذیر ہو تے ہیں کہ سپر پا ور بالکل بے بس ہو
جاتی ہے۔ کسے خبر تھی کہ ہٹلر اور مسو لینی جیسے دو آمر اس کرہِ ارض کو
جہنم بنا دیں گے۔؟ان کی ہوسِ ملک گیری کے سامنے انسانیت بے بس ہو جائے
گی۔کروڑوں انسان اس جنگ کا ایندھن بنیں گے اور خود برطانیہ کو اپنے وجود کے
لالے پڑ جائیں گے؟چھ سالوں کی یہ طویل جنگ جب اختتام پذیر ہوئی تو برطانیہ
کی معیشت تباہ ہو چکی تھی اور اس کا خزا نہ خالی ہو گیا تھا۔اس کے لئے اپنے
وجود کو قائم رکھناکٹھن مرحلہ تھا لہذا ایسے مدو جزری لمحات میں ہندوستان
میں چلنے والی تحریکوں کو روکنا اس کے بس میں نہیں تھا۔امریکہ کی اعانت اور
سر پرستی میں آزادیِ ہند کا وہ لمحہ آ پہنچا جس سے برطانوی سپر پاور کا تاج
امریکی سر پر سج گیا ۔یہ تو کل کی بات ہے کہ ہماری کھلی آنکھوں کے سامنے
سویت یونین کے نحو وتکبر کو افغانیوں نے اپنے پا ؤ ں تلے روندا تھا۔ روسی
قوم کسی کو رتی برابر احترام دینے کیلئے تیار نہیں تھی ۔وہ تو ہر قوم کو
جوتے کو نوک پر رکھتی تھی جس کا اظہار خرو شیف نے اقوامِ متحدہ کی جنرل
اسمبلی میں اپنے سامنے رکھے ہوئے ڈائس پر اپنے پاؤں سے جو تا اتار کر ڈائس
کو بار بار پیٹنے سے کیا تھا۔ پیغام بڑا واضح تھا کہ ہمارے سامنے تمھاری
حیثیت یہی ہے۔روس کا قصہ بھی پاک ہوا ۔خس کم جہاں پاک والا معاملہ تھا۔اب
وہ حیلے بہانوں سے اپنی اہمیت واضح کرنے کی کوشش میں جٹا ہوا ہے لیکن بات
بن نہیں رہی کیونکہ آج کی سپر پاور امریکہ اسے گھاس نہیں ڈال رہا۔امریکی
تسلط کے سامنے سب بے بس ہیں۔کیا چین اس سپر میسی کوتوڑ پائے گا اگلے کالم
میں اس کا حاطہ ہو گا۔ |
|