اس وقت ہمارا ملک بھارت بہت ہی مشکل
حالات سے دو چار ہے اور یہاں کے عوام سخت ترین،بلکہ بدترین وقت سے گزر رہے
ہیں ۔ لوگوں کا کہنا ہے ایسے مشکل حالات سے کبھی سامنا نہیں ہوا۔ ویسے اس
حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ ایسے پریشان کن حالات ملک میں اچانک
نہیں آئے ۔ ایسے نا گفتہ بہ حالات کی دھمک گزشتہ چند برسوں سے بہت شدت سے
محسوس کی جا رہی تھی ۔ جن کی طرف ملک کے بعض بہت سنجیدہ سیاست دانوں ،
دانشوروں اور صحافیوں(گودی میڈیاکے صحافیوں کو چھوڑ کر) نے بار بار نہ صرف
اشارہ کیا بلکہ بہت کھل کر متنبہ کرنے کی کوشش کی ۔ لیکن افسوس کہ ان اشارے
اور تنبیہ کرنے والوں کوملک اور عوام دوست سمجھنے کے بجائے انھیں ملک دشمن
، غدار وطن اور اسی طرح کے کئی القاب سے نوازا گیا ، انھیں نا کردہ گناہوں
کی سزا دی جانے لگیں، جھوٹے مقدموں میں، NSA اور UAPA جیسے دفعات میں پھنسا
کر انھیں جیلوں میں ڈال دیا گیا اور عام عوام کو جھوٹ اور صرف جھوٹ کی
تھپکیاں دلا کر سُلا دینے کی کوشش کی گئی اور کہا گیا کہ ملک کی ترقی میں
کوئی مسئلہ حائل نہیں ہے ، بڑی برق رفتاری سے ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔
ملک کے اندر اقتصادی حالات بھی بہت اچھے ہیں ۔ ملک کے آئین ، جمہوریت اور
رواداری پر کہیں کوئی حرف نہیں۔لیکن در حقیقت بھارت کی زوال پزیر معیشت ،
بے روزگاری،آرٹیکل 370 کو بے اثر کئے جانے، ملک کی بڑی آبادی کے حقوق صلب
کئے جانے ، آزادیٔ اظہار پر سخت پہرے بٹھائے جانے ،بڑھتی سیاسی بد عنوانی،
ملک کے آئینی اداروں کو بے اثر کر ان سے اپنا سیاسی مفاد وابستہ کئے جانے ،
فرقہ واریت کو بڑھا کر سیای مقاصد کی تکمیل ،ملک کی صدیوں پرانی گنگا جمنی
تہذیب کو پامال کرتے ہوئے ملک کے اقلیتوں ،قبائلیوں اور دلتوں کو حاشیہ پر
ڈالنے ، ان پر ہونے والے ظلم، تشدد، حیوانیت و بربریت پر خاموش رہ کر ان کی
حوصلہ افزائی کئے جانے کی کوششوں میں لگے رہے ۔ پورے ملک کے اندر اپنے
سیاسی (منفی) مفادات کے حصول کے لئے غیر اعلانیہ ایمرجنسی نافذ کر دیا گیا
، ہر جانب خوف و دہشت کی فضا تیار کی گئی کہ کوئی اس حکومت کے خلاف بولے
نہیں ، کوئی کچھ سوال نہیں کرے ۔یہ اس لئے کیا گیا کہ ہر محاذ پر ہونے والی
ناکامیوں پر پردہ پڑا رہے ۔ دانستہ طور پر ملک کے بے حد تلخ حقائق سے نہ
صرف رو گردانی کی گئی۔ بلکہ انتہا تو یہ کی گئی کہ ملک کے باہر ہزاروں میل
دورامریکہ میں بسنے والے ہندوستانیوں سے ، گزشتہ سال کے ستمبر ماہ میں ہی
بڑے فخر اور (جھوٹے) اعتماد کے ساتھ ملک کی کڑوی سچائیوں کو پوری طرح نظر
انداز کرتے ہوئے ’’بھارت میں سب ٹھیک ہے ، آل از ویل ان انڈیا‘‘ کہا گیا۔
اس ’’جملہ‘‘ پر امریکہ کے شہر ہیوسٹن میں این آر جی اسٹیڈیئم کے اندر شامل
ہونے والے ہزاروں ملک کے حالات سے بے خبر’اندھ بھکتوں‘ نے ملک کے وزیر اعظم
جیسے ذمّہ دار شخص کی زبان سے اداکی گئی اس بات پر دیر تک تالیاں بجائیں ۔
لیکن ملک کے حقائق سے با خبر اس اسٹیڈیئم کے باہر ہزاروں ہندوستانی جو
امریکہ میں رہائش اختیار کر چکے ہیں ، یہ لوگ عالمی میڈیا کے سامنے اپنے
ملک کی بہت تیزی سے بڑھتی سیاسی، سماجی، تعلیمی، اقتصادی، صنعتی، طبّی زبوں
حالی نیزملک کی صدیوں پرانی آپسی اتحاد و اتفاق کے درمیان بڑھتی خلیج کے
خلاف مظاہرے کر رہے تھے اور ان کے سفید جھوٹ کی پول کھول رہے تھے ۔
امریکہ کے ہیوسٹن شہر میں گزشتہ سال ہونے والے اس ’ہاؤ ڈی مودی‘ کی یاد
دلانے کے پیچھے میرا مقصد یہ ہے کہ ہمارے وزیر اعظم بھارت سے باہر جا کر
ملک کی بالکل برعکس تصویر پیش کی کوشش کرتے ہیں ۔ ایسے وقت میں وہ شائد یہ
بھول جاتے ہیں کہ اس وقت پوری دنیا ایک گلوبل ویلیج میں تبدیل ہو گئی ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ مودی جی بیرون ممالک میں جو کچھ بولتے ہیں دوسرے ہی دن ان
ممالک کے اخبارات اور چینل ملک کے تلخ حقائق پیش کر دیتے ہیں ۔ جس کی وجہ
کر ملک حکمراں کو مذاق کا موضوع بنایا جاتا ہے، لیکن انھیں اپنی کی جانے
والی سبکی کی فکر ہوتی ہے ۔لیکن ملک اور بیرون ممالک کے ہندوستانیوں کو ان
باتوں کا احساس شدت سے ہونا فطری ہے ۔
ملک کی ان دنوں بھی یہی صورت حال ہے۔ بیرون ممالک کے اخبارات ، ٹی وی چینل
اور سوشل میڈیا پر جس طرح ملک کی مسخ شدہ تصویر پیش کی جارہی ہے ، اقوام
متحدہ بار بار متنبہ کر رہا ہے ، کئی دوسرے ممالک کے صحافیوں ، ادیبوں ،
شاعروں ،دانشوروں اور سیاسی تجزیہ کاروں کے ذریعہ جس طرح سے اپیل پر اپیل
جاری کی جارہی ہے ، نیز ملک کے حزب مخالف ، سبکدوش فوجیوں ، کالجوں
،یونیورسٹیوں کے اساتذہ،فن کاروں ، صحافیوں اور دانشوروں کی بار بار ملک کے
بڑھتے مسائل پر توجہ دئے جانے ، فرقہ واریت ختم کرنے ، معصوم اور بے گناہوں
کے ساتھ انصاف کرنے، آئین کی رو سے جمہوریت،سیکولرازم کو برقرار رکھنے کی
گزارش مسلسل کی جاری ہے۔ لیکن افسوس کہ ایسے مشوروں اور گزارشوں کو کسی
اہمیت کا حامل نہیں سمجھا جا رہا ہے اور بغیر کسی سے صلاح و مشورہ کے چند
کارپوریٹ گھرانوں کو ناجائز فائدہ پہنچانے کی غرض سے ہر اصول ضابطہ، قانون
، آئینی ، انسانی اور جمہوری تقاضوں کوطاق پر رکھ دیا گیا ہے اور مسلسل
ایسے فیصلے کئے جارہے ہیں ،جو ملک کے مفاد میں ہیں اور نہ ہی عو ام کے، جو
دل میں آ رہا ہے ،وہ کیا جا رہا ہے ۔ اظہار آزادی کا ہر طرح گلا گھونٹ دینے
کی کوششوں اور بولنے والوں کو سی بی آئی ، انکم ٹیکس این آئی وغیر ہ کا خوف
دکھا کر یا ملوث کر کے پوری طرح خاموش کر دیا گیا ہے۔
عوامی مفادات کو نظر انداز کئے کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ اس وقت پورا ملک
افراتفری، انتشار ، خوف و دہشت کے ماحول میں ڈوبا ہوا ہے ۔ ملک کی اقتصادی
خستہ حالی سے بہت سارے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ ریزورو بینک کا ریزرو خزانہ،
ریزرو بینک کے کئی گورنروں اور ڈپٹی گورنروں کی مخالفت کے باوجودخالی کر
دیا گیا ۔ مزید ورلڈ بینک سے بھی قرض پر قرض لئے جارہے ہیں۔ اس کے بعد اب
ملک کے قیمتی اثاثہ کو اپنے خاص کارپوریٹ گھرانوں کے ہاتھوں فروخت کیا جا
رہا ہے ، فرخت کی جانے اثاثوں کی فہرست لمبی ہوتی جا رہی ہے۔ اب انڈئین
ریلوے او ر ائیر انڈیا کا نمبر آ گیا ہے۔ ان تمام فرخت ہونے والے شعبوں میں
ملازمت کرنے والے لاکھوں کی تعداد میں بے روزگار ہو رہے ہیں ۔ فوج کے
انجینئرنگ شعبہ سے تعلق رکھنے والے نو ہزار ملازمین کی ملازمت ختم کر کے
انھیں بے روزگار کر دیا گیا ۔ ہر سال دو کروڑ نوجوانوں کو روزگار دینے کا
وعدہ ،دینے کی بجائے لینے میں بدل گیا ۔بے روزگار ہونے والے مایوس ہو کر
خودکشی پر مجبور ہو رہے ہیں ۔ کورونا کی وبا نے ملک کے معیشت پر الگ ضرب
کاری لگائی ہے ۔ ملک میں کورونا کے داخلہ کے وقت بھی اسے سنجیدگی سے نہیں
لیا گیا اور بہت دیر سے اٹھائے گئے غلط ا قدام اور طبی سہولیات کی عدم
موجودگی کے باعث اب تک ملک کے اگیارہ لاکھ سے زائد افراد متاثر ہو چکے ہیں
اور ہلاکتوں کا سلسلہ بڑھتے بڑھتے ، کے ستائس ہزارسے بھی تجاوز کر چکا
ہے۔بنا سوچے سمجھے اور لوگوں سے بغیر مشورہ کئے بغیر اپنی واہ واہی کے لئے
اچانک لاک ڈان کئے جانے کی وجہ کرعام لوگوں کو جن پریشانیوں سے گزرنا پڑا
،اس کی روداد مسلسل سامنے آہی رہی ہے۔ لاکھوں مزدوروں کے وجود اور ان کے
مسئلہ کو جس طرح نظر انداز کیا گیا اور ان کی جانب سے لا تعلقی دکھائی گئی
، اس غیر انسانی رویہ نے پوری دنیا میں ملک کی قیادت پر سوالیہ نشان لگایا
۔جس طرح یہ مزدور بے پناہی اور بے بسی کے عالم میں سڑکوں پر ریلوے پٹریوں
پر تڑپ تڑپ کر مر رہے تھے ، وہ تمام خونین منظر ہر کی آنکھوں میں قید ہو
چکے ہیں۔ افسوس اس بات کا بھی ہے کہ مزدوروں کے بے رحم وقت کے پورے منظر
نامے سے ہمارے وزیر داخلہ غائب رہے، اور اب جب پوری دنیا میں رسوائیوں کا
سامنا کرنا پڑ رہا ہے تو فرما رہے ہیں کہ ہم لوگوں نے ان کے لئے بہت کچھ
کیا لیکن میڈیا نے دکھایا نہیں ۔ ان کے اس’’ جملے ‘‘ پر صرف قہقہ ہی لگایا
جا سکتا ہے یا ان کے سفید جھوٹ پر کف افسوس ملا جا سکتا ہے کہ اتنے اہم
ذمّہ دار عہدہ پر بیٹھا شخص اس طرح سفید جھوٹ بول رہا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے
کہ ان کی نگاہ کورونا سے مرنے والوں سے زیادہ بہار،بنگال کے انتخاب پرٹکی
ہوئی ہے ۔یہی وجہ رہی کہ بہار میں بڑھتے کورونا کے درمیان میں ہی لاک ڈاون
ختم کرا کر ورچوئل انتخابی ریلی کے لئے 73 ہزار ایل ای ڈی بہار گاؤں گاؤں
پہنچایا اور جھوٹ پر جھوٹ بول کر لوگوں کو ورغلانے کی کوشش کی ۔ کاش کہ
بہار ، یو پی کے ان لاکھوں بے پناہ ہونے والے مزدوروں کے لئے کچھ کرتے یا
پھر کورونا وبا سے متاثرین کے لئے پی پی کِٹ ، آکسیجن سلنڈر،وینٹی لیٹر اور
دیگر طبّی سہولیات پہنچا نے کی کوشش کرتے تو آج جس طرح بہار میں لوگ
اسپتالوں میں جگہ نہیں ملنے ، آکسیجن ،وینٹیلیٹر اور دیگر طبّی سہولیات کی
کمی سے تڑپ تڑپ کر مر رہے ہیں ،شائد اس میں کمی واقع ہوتی۔بہار کے لاکھوں
مزدوروں کے گھر اجڑ گئے ، بے پناہ ہونے والے ان مزدوروں کو اب تک کہیں پناہ
نہیں مل رہی ہے نہ ہی روزگار میسر ہے ۔ جس کے نتیجے میں آئے دن ان کے
درمیان سے کسی نہ کسی کے خود کشی کئے جانے کی خبریں آ رہی ہیں ۔
افسوس تو اس بات کا بھی ہے کہ جن دنوں دنیا کے کئی ممالک کورونا وائرس کی
وبا سے جنگ کی تیاری میں لگے تھے۔ اس وقت ہمارے ملک کی پوری حکومت اور
حکمراں نمستے ٹرمپ میں مشغول تھے اور سونے کے برتن میں شری ٹرمپ اور ان کے
خاندان کو کھانا کھلا کر اور سو کروڑ کے پر جوش استقبال کر اس طرح مدہوش ہو
گئے کہ کورونا کی ملک کے اندر آمد اور چین سمیت پڑوسی ممالک کی در اندازی
کو بھی نظر انداز کئے رہے ۔ راہل گاندھی ، حزب مخالف کے دیگرلیڈران ، سیاسی
تجزیہ کار ، سرحدوں پر نظر رکھنے والے جرأت مند صحافی وغیرہ چیخ چیخ کر
کہتے رہے کہ چین ہمارے ملک میں مسلسل در اندازی کر رہا ہے لیکن افسوس کہ اس
جانب بھی توجہ نہیں دی گئی ۔ چین کے صدر شی جن پنگ کو جھولا جھُلا کر اور
ڈاب پلا کر نیز بہت سارے ٹھیکہ دے کر ، چینی بینک کی شاخ ملک کے اندر
کھولنے کی اجازت دے کر اس طرح مطمئن تھے ، جیسے چین اپنے ملک کی کوئی ریاست
ہے ، وہ ان کے ذریعہ کئے گئے احسانات کو یاد رکھے گا ۔ لیکن چین کی در
اندازی کے پیچھے چین کی سیاسی چال کو سمجھنے میں بھی سیاسی شعور کا ثبوت
نہیں دیا گیا ۔ وزیر داخلہ امت شاہ کی نا عاقبت اندیشی نے چین کو جگانے کا
کام اس وقت کیا ،جب امت شاہ نے لوک سبھا کے اندر اپنے ایک بیان میں اپنے بڑ
بولے پن کا ثبوت دیتے ہوئے کہا تھا کہ 370 کو ردّ کرنے کے بعد اقصائے چین
اور پاک مقبوضہ کشمیر کو بھی ہندوستان میں شامل کر لیا جائے گا ۔ اسی ایک
بیان نے چین کو چوکنّا کر دیا اور وہ اپنی سرکشی پر آمادہ ہو گیا۔ سونیا
گاندھی ، راہل گاندھی، کپل سبّل ، سبرا منیم سوامی جیسے سیاسی لیڈران کے
ساتھ ساتھ دوسرے کئی صحافیوں اور سیاسی تجزیہ کاروں اور اجئے شکلا جیسے کئی
صحافیوں نے حکومت کومسلسل اس اہم مسئلے کی جانب توجہ مبذول کرانے کی گزارش
کرتے رہے کہ چین کی ملک کے اندر در اندازی بڑھتی جا رہی ہے ۔ اسے روکنے کی
کوشش کی جائے ۔ اس انتباہ کے جواب میں چین کی سرحد پر توجہ دینے کی بجائے
توجہ دلانے والوں کو ہی مورد الزام قرار دیا گیا کہ یہ لوگ سرحد پر تعینات
فوجیوں کے ہمّت و حوصلوں پر سوالیہ نشان لگا رہے ہیں ، چین کی سرحدوں پر
توجہ دلانے والوں کو ہی ملک دشمن اور غدار وطن تک کہا گیا ۔ وطن پرستوں کو
ملنے والے ایسے القاب پر صحافی اور سیاسی تجزیہ کار اجئے شکلا نے بڑے ہی
سرد لہجے میں کہا تھا کہ ایسے خطاب آج کل ہر اس صحافی کو دیا جا رہا ہے جو
قوم اور ملک کے مفاد میں عوام کو سچ سے با خبر کرتا ہے ۔ اس لئے وہ اس خطاب
کو اپنے لئے اعزاز سمجھتے ہیں ۔ چین کی سرحد پر توجہ مبذول کئے جانے کی بار
بار گزارش کو نظر انداز کئے جانے کا ہی یہ افسوسناک نتیجہ سامنے آیا کہ
ہمیں بیس فوجیوں کی شہادت اورلداخ کی گلوان گھاٹی کی در اندازی کو بھی
برداشت کرنا پڑا ۔ انتہا تو یہ ہوئی کہ جوانوں کی شہادت اور دراندازی کے
باوجود ملک کے وزیراعظم کا یہ افسوسناک بیان سامنے آتا ہے کہ ـ’ بھارتیہ
سیما میں نہ کوئی گھسا ہے اور نہ ہماری کسی چوکی پر قبضہ ہوا ہے ۔‘ اس بیان
سے پورے ملک میں جو طوفان مچا ، وہ دیکھنے والوں نے دیکھا ۔ وزیر اعظم ہند
کے اس بے تکے بیان سے چین کے عزائم بڑھتے چلے گئے اور اس نے بھارت کے تمام
پڑوسی ممالک کو اپنا ہمنوا بنا کر بھارت کی مخالفت کرنے کی ہمت و حوصلہ
بڑھا دیا۔پاکستان تو پہلے ہی سے مخالف تھا ،اب نیپال ، بھوٹان، بنگلہ دیش
جیسے چھوٹے ممالک بھی بھارت کو آنکھ دکھا رہے ہیں اور ہمارے حکمراں اپنی
دکھانے والی ’لال آنکھ‘ پر مصلحت کی پٹّی باندھے ہوئے ہیں ۔ ایسے میں راہل
گاندھی کا یہ بیان اہمیت کا حامل ہے کہ چین کے معاملہ میں مودی حکومت کے
بزدلانہ رویہ کا خمیازہ ہندوستان کو بھگتنا پڑے گا۔ادھر امریکہ کی ہمنوائی
میں ایران سے اپنے تعلق خراب کئے جانے کا فائدہ بھی چین اٹھا رہا ہے۔ ایران
نے الگ چابہار۔ زاہدان ریلوے منصوبہ کے بعد فرزاد گیس فیلڈ معاہدے ردّ کر
دئے ، جس سے بہت بڑا مالی خمیازہ بھارت کو بھگتنا پڑا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ
اس وقت ہمارا ملک بہت ہی نازک حالات سے گزر رہا ہے ۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ
ایسے حالات اچانک نہیں پیدا ہوئے ہیں ، گزشتہ پانچ چھ برسوں سے مسلسل ملک
کے بنیادی مسائل پر توجہ دینے کی بجائے ملک کے حکمراں صرف ہندو مسلمان ،
مسلم مکت بھارت ، کانگریس مکت بھارت ، مندر ،مسجد ، گولی مارو سالوں کو ،
رام زادے ، حرامزادے، گؤ رکچھا وغیرہ میں ہی مصروف رہے ۔ جس کا خمیازہ ملک
کے عوام آج بھگت رہے ہیں ۔ جھوٹ اور مصلحت کی تھپکیا ں بھی اب کام نہیں آ
رہی ہیں ۔ کورونا وائرس کی وبانے عوام کو نہ جانے کتنی دشواریوں اور
پریشانیوں میں مبتلا کر رکھا ہے ۔ ملک کے اندر پھیلتے کورونا وبا کو بھی
سنجیدگی سے نہیں لیا گیا اور نہ ہی اس سے نبردآزما ہونے کے لئے کسی طرح کے
انتظامات کئے گئے اور جھوٹ کا عالم یہ ہے ہمارے وزیر اعظم فرما رہے ہیں کہ
کورونا کی جنگ میں ہم نے دنیا کے ایک سو پچاس ملکوں کی مدد کی ۔ اس جملہ کو
سننے کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ نے جب اتنے سارے ممالک کی مدد کی
تو پھر اپنے ہی ملک اور پڑوسی ممالک کو کیوں فراموش کر دیا ۔ان کے سامنے
کرونا سے ہلاک ہونے والوں کے مقابلے اس وقت رام مندر کا افتتاح ضروری ہے کہ
مندر مسجد کے درمیان نفرت کی دیوار ہی انھیں برسر اقتدار رکھنے مدد کرے گا۔
ملک کے ایسے نا قابل یقین حالات کے بعد بھی ہمارے حکمراں زخم خردہ عوام
کویہی سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ’’ بھارت میں سب ٹھیک ہے ، آل از ویل ان
انڈیا ‘‘ ۔ |