اشوک گہلوت : سیاست کا جادوگر نہیں بازی گر

سچن پائلٹ کی قیادت میں کانگریس نے راجستھان میں کامیابی درج کرائی مگر وزارت اعلیٰ کا تاج اشوک گہلوت کے سر پر آگیا ۔ جب سوال پیدا ہوا کہ یہ کیسے ہوگیا؟ تو اس کا جواب سامنے آیا کہ اشوک گہلوت سیاسی دنیا کے جادوگر ہیں۔ وہ جب کم سن تھے تو اپنے والد کے ساتھ جادو کے کھیل دکھاتے تھے اور اب کبرسنی میں سیاست کا جادو دکھاتے ہیں۔ مدھیہ پردیش اورراجستھان میں کانگریس پارٹی نے ایک ساتھ کامیابی درج کرائی اور حکومت بنائی ۔ امسال مارچ میں ایم پی کے اندر کمل ناتھ کا ہاتھ کمل کو کھلنے سے نہیں روک سکا مگر راجستھان میں اشوک گہلوت نے کمل کو اپنے قدموں تلے کچل دیا ۔ ایسا کیوں ہوا؟ اس سوال کا آسان جواب یہ ہے کہ ایم پی میں کانگریس اور بی جے پی کے درمیان فرق بہت کم تھا جبکہ راجستھان میں یہ کھائی گہری تھی ۔ یہ سچ ہے لیکن کیا راجستھان کا یہ فرق ایسا تھا کہ جسے پاٹنا ناممکن ہو؟ اس سوال جواب نہیں ہے کیونکہ آج کل سیاست کی دنیا میں یہ محاورہ چل پڑا ہے ’مودی ہے تو ممکن ہے‘ اور امیت شاہ کے ہوتے کچھ بھی ناممکن نہیں ہے۔

شرد پوار نے اس معاملے میں پہلا استثناء مہاراشٹر کے اندرپیش کیا ۔ وہاں پر جب اونٹ پہاڑ کے نیچے آیا تو دال آٹے کا بھاو پتہ چل گیا۔ مہاراشٹر کے اندر تنہا بی جے پی اکثریت سے بہت دور تھییعنی اس کو معمولی اکثریت کے لیے 40غیر کمل دھاریوں کی حمایت درکار تھی۔ راجستھان میں یہ تعداد صرف 25تھی۔ انتخاب کے بعد جہاں کانگریس کے پاس 100اور بی جے پی کے پاس 75ارکان اسمبلی تھے وہیں 24 ایسے ارکان موجود تھے کہ جن کو بہ آسانی خریدا جاسکتا تھا ۔ ایک نشست خالی تھی۔ ایسے میں کانگریس کے2ارکاان کا پارٹی سے خارج ہوجانا بی جے پی کو اقتدار میں لاسکتا تھا۔ حالیہ 19ارکان اسمبلی کی بغاوت نے یہ ثابت کردیا کہ یہ ناممکن ہدف نہیں تھا پھر بھی اس کے حصول ناکامی کیوں ہوئی ؟ مدھیہ پردیش کا زعفرانی شیر راجستھان میں بھیگی بلی کیوں بن گیا؟ یہ سوالات غور طلب ہیں ۔

ان سوالات کا جواب کا کمل ناتھ اور اشوک گہلوت کی حکمت عملی اور طریقۂ کار کے پوشیدہ ہے۔ کمل ناتھ کی حکومت چونکہ کمزور بنیاد پر تھی اور وہاں پر کانگریس اور بی جے پی میں صرف 5نشستوں کا فرق تھا اس لیے انہیں کو بہت زیادہ محتاط ہونا چاہیے تھا۔ موجودہ سیاست میں باہر سے زیادہ خطرہ اندر ہوتا ہے۔ اس لیے داخلی بغاوت کو قابو میں رکھنے کی ازحد کوشش کی جانی چاہیے تھی ۔ راجستھان میں جس طرح کا اندیشہ سچن پائلٹ سے تھا مدھیہ پردیش میںاس سے زیادہ خطرناک جیوتردیتیہ سندھیا تھے ۔ وقت نے ثابت کردیا کہ دونوں کے پاس ایسے وفادار ارکان اسمبلی ہیں جو اپنے رہنما کی خاطر پارٹی چھوڑ سکتے ہیں ۔ ایسے میں سچن پائلٹ کو راضی رکھنے کے لیے نائب وزیر اعلیٰ کا عہدہ دیا گیا مگرجیوتردیتیہ کو ہوا میں معلق چھوڑ دیا گیا ۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ سچن نے اس کے باوجود بغاوت کی لیکن اب وہ عوام و خواص کی ہمدردی سے محروم ہوگئے۔ صوبائی صدارت اور نائب وزارت اعلیٰ کی کرسی کے بعد ان کی یہ شکایت کسی صورت جائز نہیں لگتی کہ پارٹی نے ان کو نظر انداز کیا ہے۔ اس کے برعکس جیوتر دیتیہ کے ساتھ ہمدردی فطری ہے کہ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو کیا کرتے؟ یہ ایک حقیقت ہے کہ جیوتردیتیہ سندھیا کو کانگریس نے جب راجیہ سبھا کا ٹکٹ سے تک محروم کردیا تب جاکر ان کے صبر کا پیمانہ چھلک گیا ۔ اس لیے کہ اب ان کے پاس گنوانے کے لیے کچھ نہیں تھا ممکن ہے اگر وہ ایوان بالا کے رکن بنا دیئے جاتے تو بغاوت سے باز رہتے ۔

کمل ناتھ کا معاملہ ایک رہنما کے بجائے عام انسان جیسا تھا جو پہلے تو خطرے کے وجود سے انکار کردیتا ہے۔وہ اپنے آپ کویہ کہہ کر بہلاتا رہتا ہے کہ کچھ نہیں ہوگا اور پیش بندی نہیں کرتا لیکن جب خطرات کے بادل وارد ہوجاتے ہیں تو گھبرا کر ہتھیار ڈال دیتا ہے کہ اب کچھ نہیں ہوسکتا۔ درحقیقت یہ دونوں رویہ نقصان دہ ہے کیونکہ اس صورت میں مایوسی کا شکار ہوکر وہ اپنے اختیارات کا بھرپور استعمال نہیں کرپاتا ۔ اس کے برعکس اشوک گہلوت داخلی و خارجی دونوں محاذوں پر سر گرم عمل رہے اور بہتر حالت میں ہونے کے باوجو د مسلسل اپنی طاقت میں اضافہ کرتے رہے۔ راجستھان میں پہلا ضمنی انتخاب ہوا تو اس میں کانگریسی امیدوار کو کامیاب کردیا۔ یہ نفسیاتی جیت تھی کیونکہ اب کانگریس اپنے بل بوتے پر اکثریت میں آگئی تھی۔ انہوں نے اس کو بھی عافیت نہیں سمجھا بلکہ بہوجن سماج پارٹی کے 6 ارکان اسمبلی کو توڑ کر اپنے ساتھ ملا لیا ۔ اس طرح اسمبلی کے اندر کانگریسیوں کی تعداد 107ہوگئی۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ پہلے بھی کانگریس کے حامی تھے لیکن اب بغاوت کے نتیجے میں ان کی کرسی داوں پر لگ گئی تھی اس لیے ان کا بی جے پی کے ہاتھوں میں کھیل جانا مشکل ہوگیا تھا ۔ سیاست کے سمندر جمود نہیں ہوتا بلکہ تلاطم برپا رہتاہے ۔ وہاں پر یا تو دباو بنایا جاتا ہے یا دباو میں آیا جاتا ہے۔ اشوک گہلوت چونکہ مخالفین پر مسلسل دباو بناتے رہے اس لیے کبھی دباو میں نہیں آئے۔

اشوک گہلوت اور کمل ناتھ میں ایک اور فرق یہ بھی ہے کہ وہ سچن پائلٹ کے خطرے سے کبھی غافل نہیں ہوئے اور انہوں نے اپنے اختیارات کا بخوبی استعمال کیا ۔اشوک گہلوت نے اس مقصد کے حصول کی خاطرسرکاری سطح پر ایک اسپیشل آپریشن گروپ (ایس او جی) قائم کیا اور اس کا سربراہ بی جے پی کی رہنما وسندھرا راجے کے قریبی سمجھے جانے والےاشوک راٹھوڑ کو بنایا ۔ اس طرح مرکز کی جانب سے انکم ٹیکس کے چھاپوں کا جواب دینے کی متوازی انتظام کرلیا گیا۔ بغاوت کی سُن گُن ملتے ہی باغیوں کے فون ٹیپ ہونے لگے ۔ یہ ایک غلط حرکت ہے لیکن ارکان اسمبلی کی خریدو فروخت بھی کوئی نیک کام نہیں ہے اس مشہور مثل ’ لوہالوہے کو کاٹتاہے‘ پر عمل کیا گیا ۔ اس حکمت عملی کے نتیجے میں اشوک گہلوت کے پاس نہ صرف سچن پائلٹ بلکہ بی جے پی کے خلاف بھی شواہد جمع ہونے لگے ۔اختیار کی مانند ہتھیار کا بروقت استعمال بھی بہت اہم ہوتا ہے ۔ ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں کہ جن کے پاس بہت کچھ ہوتا ہے لیکن قوت فیصلہ کی کمی کے سبب ان پر’اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت‘ والا محاورہ صادق آجاتا ہے۔

اس سے پہلے کہ پانی سر سے اونچا ہوجاتا گہلوت نےسچن پائلٹ سمیت اس کے ہمنواوں پر اپنی ایس او جی کو چھوڑ دیا اور آڈیو زمیڈیا میں چھوڑ دی گئیں ۔ اس ڈبل ایکشن نے دوہرا اثر دکھایا ۔ ایک طرف سچن کے خیمہ میں کھلبلی مچ گئی اور دوسری جانب بی جے پی والے تلملا اٹھے ۔ گودی میڈیا کے لیے بی جے پی کے رہنما لوکیش شرما کی ویڈیو ٹیپ کو نظر انداز کرنا ناممکن ہوگیا ۔گھبراہٹ میں کی گئی تردید کے ساتھ الزام بھی سرِ عام ہوگیا ۔ اس دوران سچن پائلٹ اپنے ہمنواوں کے ساتھ ہریانہ کے ایک ریسارٹ میں آرام فرما رہے تھے کہ اچانک ایس اوجی والے پہنچ گئے تاکہ ٹیپ کی جانچ کے لیے آواز کا نمونہ لے سکیں ۔ اب سچن پائلٹ کے قدموں تلے سے زمین کھسک گئی ۔ انہوں نے اپنے ہمنواوں کو پچھلے دروازے سے جس دوسرے ہوٹل میں پہنچا یا ، ایس او جی وہاں بھی جادھمکی ۔ اس طرح گہلوت اقدامی اور پائلٹ دفاعی حالت میں پہنچ گئے ۔ یہی دراصل کہانی کا فیصلہ کن موڑ تھا۔

گہلوت نے دیکھا کہ اب لوہا گرم ہے تو بی جے پی کے راجستھان میں سب سے تیز طرار رہنما اور مرکزی وزیر گجندر سنگھ شیخاوت کے سر پر ہتھوڑا چلا دیا۔ ایس او جی نے الزام لگایا کہ ٹیپ میں بند آواز مرکزی وزیر کی ہے اور بیان بازی پر اکتفا کرنے کے بجائے تھانے میں ایف آئی آر درج کروادی ۔ یہ ایک ایسا ماسٹر اسٹروک تھا جس نے بی جے پی کو چاروں خانے چت کردیا۔ اس کی وجہ یہ تھی گجندر سنگھ شیخاوت بی جے پی کے اندر وسندھرا راجے سندھیا کے سیاسی حریف ہیں ۔ سچن پائلٹ اگر اپنے عزائم میں کامیاب ہوجاتے تب بھی ۲۱ ارکان اسمبلی کے مالک کو وزیر اعلیٰ کا عہدہ نہیں ملتا ۔ وہ تو نائب کے نائب ہی رہتے مگر گجندر سنگھ وزیر اعلیٰ کی کرسی بہت بڑے دعویدار بن کر سامنے آتے ۔ وسندھرا کے پاس 45ارکان اسمبلی کی حمایت ضرور ہے لیکن ہائی کمان ان سے ناراض ہے اس لیے شیخاوت کا امکان روشن تھا۔ گجندر کو مصیبت میں ڈال کراشوک گہلوت نے وسندھرا راجے کو اپنا ہمنوا بنالیا۔ اپنے خیمے میں سیندھ لگتے دیکھ بی جے پی نے کہنا شروع کردیا کہ یہ کانگریس کا آپسی معاملہ ہے ۔ ہمارا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ۔

سیاسی منظر نامہ یکسر بدل چکا تھا ۔ ایک طرف گجندر سنگھ اپنی صفائی پیش کررہے تھے دوسری جانب سچن پائلٹ کے تیور بدلنے لگے تھے کیونکہ بی جے پی کا سرُ بدلنے کے بعد اب وہ اور ان کے ہمنوا نہ گھر کے رہے تھے اور نہ گھاٹ کے۔ اسپیکر ان کو نوٹس دے چکے تھے اور اپنی رکنیت بچانے کے لیے انہیں عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے پر مجبور ہونا پڑا تھا ۔ اس موقع پر بی جے پی کی بلی اچانک تھیلے سے باہر آگئی۔ سچن پائلٹ کی پیروی کی خاطر بی جے پی کے قریبی سمجھے جانے والے دو بڑے وکیل اے کے پی سالوے اور مکل روہتگی جے پوروارد ہو گئے اور پھر ایک بار عیاں ہوگیا کہ اس کھیل کاسوتر دھار کون ہے؟ ایسے میں ایک خطرہ گورنر سے تھا اس کا انتظام بھی اشوک گہلوت نے کردیا ۔ وہ پائلٹ کے 19 ارکان اسمبلی کے بجائے دیگر جماعتوں کے ارکان اسمبلی کی جانب متوجہ ہوئے ۔ان کے ساتھ پہلے ہی 88 کانگریسی ارکان تھے انہوں نے 14غیر کانگریسی ارکان سے حمایت کا خط حاصل کرکے اپنے حامیوں کی تعداد102 تک پہنچا دی ۔ اس طرح اگر عدالت پائلٹ کے ۱۹ سواریوں کی رکنیت بحال رکھے تب بھی کانگریس کے پاس اکثریت موجود ہے۔ اشوک گہلوت نے اپنی سیاسی جوڑ توڑ سے پہلے تو یہ ظاہر کردیا کہ امیت شاہ جعلی چانکیہ ہے اورپھر یہ ثابت کردیا کہ وہ جادوگر ہی نہیں بازی گر بھی ہیں ۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1220633 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.