دو دریا ، جو آپس ملتے ہیں مگر۔۔۔۔۔

یہ انیس سو چورانوے کی بات ہے جب میں چٹاگانگ میں تھا، دوستوں نے بتایا کہ بحری جہاز’ حزب البحر“ جو کہ حج کے دنوں میں حاجیوں کو لے کر جدہ جایا آیا کرتا ہے اور باقی سارا سال بیکار بیٹھنے کی بجائے ہر چھٹی کے دن گہرے سمندر کو دیکھنے کے شوقین لوگوں کو پانچ سو ٹکے کے عوض پورے دن کی تفریح دوپہر کے لنچ کے ساتھ مہیا کرتا ہے کیوں نہ ایک دن اُس میں گزارہ جائے ؟ یہ ایک طرح کی یہ بہت اچھی اسکیم تھی کہ جہاز کو رواں رکھنے سے مشین کو زنگ بھی نہیں لگتا اور کچھ انکم بھی ہو جاتی ۔ سب نے مل کر پیسے جمع کیے اور بیس ٹکٹیں منگوا لیں جس میں حبیب بنک پاکستان کی چٹاگانگ برانچ کے اعلیٰ عہدیداروں کے ساتھ اسٹاف کے لوگ اور چیدہ چیدہ بزنس مین بھی شامل تھے ۔

صبح نو بجے سب لوگ تیار ہو کر پرائیویٹ پورٹ عمر علی گھاٹ پہنچ گئے جہاں جہاز رنگ برنگی جھنڈیوں سے سجا روانگی کے لیے تیار کھڑا تھا، سب لوگ سوار ہوئے، سائرن بجا، اور حزب البحر گہرے سمندر کے سفر پر روانہ ہو گیا، بڑے ہال میں ایک بنگلہ دیشی بینڈ گانے بجانے کی محفل سجائے لوگوں کو خوش کرنے میں مصروف تھا جبکہ کچھ لوگ عرشے پر سمندر کا نظارہ اور نمکین پانی میں نم تیز ہواﺅں کا لطف اُٹھا رہے تھے، سفید سفید پرندے کلابازیاں کھا کھا کر جہاز کے ارد گرد مچھلیوں کا شکار کرنے اپنی کائیں کائیں کے شور کے ساتھ غوطے لگا رہے تھے فروری کی میٹھی میٹھی دھوپ میں عرشے پر کھڑا ہونا ہی اچھا لگا اس لیے ہم سب دوست بھی ریلنگ کے ساتھ ساتھ کھڑے ہو کر بپھری ہوئی موجوں کو جہاز سے ٹکرا تے دیکھ کر محظوظ ہو رہے تھے۔

مجھے سمندر کے نیلگوں پانی میں سفید سفید پانی کے ٹکڑے جو دیکھنے میں بالکل بادلوں کی طرح لگ رہے تھے انہوں نے اپنی طرف متوجہ کر لیا پہلے تو میں سمجھا کہ شاید یہ آسمان پر چھائے بادلوں کی پرچھائیاں ہوں گی مگر جب آسمان کو صاف اور نیلا دیکھا تو بڑی حیرانی ہوئی، یا اللہ یہ کیا ماجرا ہے نیلے سمندر میں سفید بادلوں کی طرح تیرتے ٹکڑے دیکھ کر جہاز کے اونچے عرشے سے معلوم ہو رہا تھا جیسے نیچے بھی آسمان ہے اور اوپر بھی، ویسے تو جب چٹاگانگ ائیرپورٹ جو سمندر کے قریب ہی ہے اوپر سے اُڑتے ہوئے ہوائی جہاز کی کھڑکی سے بھی یہ نظارہ کئی بار دیکھا مگر بادلوں کا سایہ سمجھ کر کبھی اتنی اہمیت نہیں دی جو آج قریب سے دیکھ کر اتنی حیرت ہو رہی تھی کئی بار غور کرنے پر بھی جب سمجھ میں کچھ نہیں آیا تو قریب کھڑے ہوئے بنک کے کیشئر مسٹر عبدالمالک جو چٹاگانگ ہی کے رہنے والے تھے اور جو اردو بھی اچھی بول لیتے تھے ،میں نے اُن تیرتے ہوئے سفید ٹکڑوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اُن سے پوچھا، ’مالک بھائی یہ کیا ہے ‘؟ انہوں نے پہلے تو کچھ نہ سمجھتے ہوئے کہا، ’یہ ساگور ہے ‘(بنگلہ میں سمندر کو ساگر کی بگڑی ہوئی شکل میں ساگور کہا) میں نے دوبارہ سمجھاتے ہوئے کہا ، ہاں بھئی یہ تو میں بھی جانتا ہوں مگر اِس میں تیرتے ہوئے بادلوں کی طرح کے مٹیالے رنگ کے یہ ٹکڑے کیا ہیں ؟ اُس نے ریلنگ پر ہاتھ مارتے ہوئے ہنس کر کہا ، اوہ اچھا یہ سادہ سادہ پانی ؟ میں نے کہا ہاں بھئی یہی !! یہ تو کرنافلی دریا کا مِشٹی( میٹھا) پانی ہے جو نمکین پانی کے ساتھ مِکس نہیں ہوتا، پھر اُس نے ذرا تفصیل سے بتاتے ہوئے کہا ، یہ جو دریا ئے کرنافلی ہے یہاں سے چالیس میل دور پہاڑوں میں پھیلی کپتائی جھیل سے نکلتا ہے جس کا پانی میٹھا ہے،یہاں آکر یہ دریا سمندر میں گرتا ہے لہٰذا یہ دونوں پانی آپس میں گڈ مڈ (مِکس) نہیں ہوتے اور ساتھ ہی شہادت کی انگلی آسمان کی طرف کرتے ہوئے کہا، یہ سب اللہ کی قدرت ہے صاب ، بنگالی چاہے کتنی بھی کوشش کرے اردو بولنے میں ” و “ کا اضافہ ہو ہی جاتا ہے جیسے قُدرت کو قودرت کہہ جاتے ہیں۔

یہ سب سن کر میرے ذہن میں فوراً قرآن پاک کی پچپن سورہ الرحمن کی آیت نمبر اٹھارہ انیس اور بیس کا ترجمہ گونجنے لگا جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ” اسی نے دو دریاﺅں کو ملایا کہ باہم ملے ہوئے ہیں،(اور) ان دونوں میں ایک حجاب ہے کہ دونوں بڑھ نہیں سکتے ،سو اے جن و انس تم اپنے رب کی کون کونسی نعمتوں کے منکر ہو جاﺅ گے “ میرے منہ سے بے اختیار سُبحان اللہ کا ورد جاری ہو گیا ، اللہ کی شان کریمی ہے کہ وہ اپنے بندوں کو ہر جگہ نظر آتا ہے بس ذرا سا غو روفکر کرنے کی ضرورت ہے، کسی پنجابی شاعر نے کیا خوب کہا ہے” قدرت دے نظارے کہٹ نئیں، تیری ویکھن والی اکھ نئیں (قدرت کے نظارے کم نہیں،تیری دیکھنے والی آنکھ نہیں)۔

دوپہر کا لنچ کرنے کے بعد جہاز نے واپسی کا اعلان کیا تو میرے ساتھ مینیجر حبیب بنک مسٹر دُریز بھٹی جن کا تعلق اسلام آباد سے اور میرے قریبی دوست حبیب محی الدین بھی قُدرت کا یہ نظارہ دیکھ کر عش عش کر اُٹھے، اس تفریح سے کچھ لوگوں نے بینڈ کی تال پر ناچ کر جشن منایا ،جبکہ اللہ کریم نے ہمارے ایمان کو تازہ کرنے کے لیے اِس سفر کو وسیلہ بنایا،خدا کی قُدرت ہر جگہ ہر موڑ پر دعوتِ نظارہ دیتی ہے اگر دل اُس کی طرف مائل ہو ورنہ تو کسی نے کیا خوب کہا ہے، ” تیرا دِل تو ہے صنم آشنا ، تجھے کیا ملے گا نماز میں!!
H.A.Latif
About the Author: H.A.Latif Read More Articles by H.A.Latif: 58 Articles with 84156 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.