دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی
طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی
محترم قارئین کرام، یہ سطور لکھتے ہوئے ہمارا دل و دماغ ، ماﺅف سا ہورہا ہے۔
جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ 22 مئی 2011کی نصف شب سے پہلے کئی تربیت یافتہ اور
پر عزم دہشت گرد ایک مرتبہ پھر ہماری دفاعی دیواروں میں نقب لگانے میں
کامیاب ہوگئے، اور ہمارے کئی اہم ترین دفاعی اثاثہ جات کو تباہ و برباد
کردیا، جب کہ کئی افراد اس حیران کن حملہ میں شہید اور زخمی بھی ہوگئے۔ یہ
سطور تحریر کرتے وقت اس لڑائی کو شروع ہوئے تقریباً تین گھنٹے سے زائد گزر
چکے ہیں، یہ مقابلہ ابھی تک جاری ہے، اور یہ اطّلاعات ہیں کہ ان حملہ آوروں
نے کئی افراد کو یرغمال بھی بنا رکھا ہے، اور ان معصوم افراد کی جانیں بچنا
کسی معجزہ سے کم نہ ہوگا۔ لگ بھگ بیس افراد پر مشتمل یہ حملہ آور ٹولہ ایک
بڑے اسلحہ خانہِ سے لیس ہوکر کس طرح بھرے پھرے شہر میں گھومتا پھرتا ہمارے
دفاعی حصار میں جا گھسا! اور وہ کون سے عناصر ہیں جنہوں نے ان کی مدد کی؟
یہ تمام سوالات ایسے ہیں جن کے جوابات تلاش کیے جاتے رہیں گے۔ تاہم ایک
فوری عنصر جو سامنے نظر آتا ہے وہ تحریک انصاف کا کراچی میں پہلے سے اعلان
شدہ اور منصوبہ بند مگر بے سود دھرنا ہے، جس نے اکثر حفاظتی اداروں کو وہاں
مصروف رکھا، اور اس طرح ملک دشمنوں کو اسی روز یہ گھات لگانے کا نسبتا ًآسان
موقع ملا۔ تاہم چونکہ اس حساس علاقہ میں کئی نگران کیمروں کا نظام قائم کیا
جارہا تھا، اس امر کا امکان ہے کہ کچھ شواہد ریکارڈ بھی ہوگئے ہوں گے۔
جیسا کہ ہمارے حکمرانوں کی عادت ثانیہ بن چکی ہے،امکانیہ طور پر اس حملہ کو
فوری طور پر اسامہ بن لادن کے 2مئی 2011کے واقعہ سے جوڑ کر اسے ایک انتقامی
کاروائی کے عنوان سے القاعدہ کے کھاتہ میں ڈال دیا جائے گا۔ اور ایسا محسوس
ہوتا ہے کہ کئی ایسے واقعات میں براہ راست، یا بالواسطہ ملوّث ہونے کا
اعلان ایسی دہشت گرد تنظیمیں فوراً اپنے سر لے لیتی ہیں۔ اس سے ان کی منفی
شہرت اور دہشت میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ تاہم یہ سوال اور الزام بلاتحقیق
لگانا درست نہیں۔ پاکستان اس وقت ایک ایسی جنگ کی حالت میں ہے، جس میں اس
کے دوست نما دشمن، مثلاً انکل سام بہادر، نیٹو افواج، بھارتی دخل انداز،
اور کم از کم افغانی دخل انداز بھی شامل ہیں۔ انہوں نے اپنی ”بھوتیا جنگ
“بلوچستان، کشمیر، اور افغانی سرحدوں پر مختلف انداز میں چھیڑ رکھی ہے۔ یہ
تمام عناصر پاکستانی دفاعی نظام کو اینٹ در اینٹ کھوکھلا کررہے ہیں، اور اس
سے عوامی اور غیرعوامی دونوں حوصلے کمزور ہورہے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ
کے بہانہِ امریکہ جیسے نام نہاد دوستوں نے ہمارے چپہّ چپّہ کی نہ صرف
نگرانی جاری رکھی ہوئی ہے، بلکہ ریمینڈ ڈیوس جیسے جاسوسوں کے ذریعہ تمام
حسّاس مقامات، اور ہماری دفاعی حکمت عملیوں کا بھی عمیق مطالعہ کرلیا ہے۔
چنانچہ وہ اب ہمارے تمام رازوں سے واقف ہوچکے ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ریمنڈ
ڈیوس کے قبضہ سے برآمد ہونے والی اشیاء میں دیگر اہم چیزوں کے علاوہ ہماری
واہگہ کے قریب سرحدی بنکروں کی تصاویر بھی نکلی تھیں۔ امریکہ نے نہ صرف سی
آئی اے ایجنٹس، بلکہ سیٹیلائٹ، اور ڈرون وغیرہ کی نگرانی کے نظام سے بھی
استفادہ کیا ہے۔ اور ان کے نام نہاد تربیت کاروں کی پراسرار کاروائیوں کا
بھانڈا تو کچھ عرصہ قبل ہمارے سہالہ پولیس ٹریننگ سنٹر کے ایک جری کمانڈنٹ
نے پھوڑ دیا تھا۔ مگر ان کے خلاف مناسب کاروائی کے بجائے ان پراسرار
ایجنٹوں کو کسی اور محفوظ مقام پر منتقل کر کے ملکی مفاد کے خلاف کاروائیوں
کی کھلی اجازت دے دی گئی تھی۔
ہماری قوم اور ہمارے سیاسی اور فوجی حکمرانوں کا یہ مزاج بن چکا ہے کہ اگر
کسی بھی پاکستانی دفاعی نظام اور حکمت عملی کے بارے میں سوالات اٹھائے
جائیں تو فوراً ملکی مفاد کے خلاف بات کرنے کا الزام لگادیا جاتا ہے۔
حالانکہ قوم حالات حاضرہ کے تناظر میں یہ پوچھنے کا حق رکھتی ہے کہ کیا
ہمارے خفیہ اداروں نے امریکی ایبٹ آباد آپریشن کی ”ریورس انجینیئرنگ“ کی؟
اور یہ پتہ چلا لیا کہ وہ کن راستوں ، طریقوں، اور آلات کو استعمال کر کے
ہماری آنکھوں میں دھول جھونکنے میں کامیاب ہوئے تھے؟ اور اب ہم کیا صرف
راڈار جیسے آلات پر ہی بھروسہ کرتے رہیں گے، جب کہ انسانی آنکھوں ، اور عام
طیّاروں کی نگرانی بھی کوئی چیز ہوا کرتی ہے؟ ہمارے لیے یہ امر مزید باعثِ
شرم ہے کہ ہمیں 2 مئی 2011کے واقعہ کے کئی روز بعد کالا ڈھاکہ کے مقامی
افراد کے ذریعہ یہ پتہ چل سکا کہ امریکی ہیلی کاپٹر وہاں اتر کر کئی گھنٹوں
تک آرام، تازہ دم، اور اپنے ساتھیوں کی مدد کے لیے نگرانی وغیرہ کرتے رہے۔
اتنے شوروغوغا، اور واویلا کے بعد بھی ہم تک یہ معلومات پہنچے میں کئی روز
لگے؟ آخر کیوں!
اب ذرا کراچی کی چند اہم دفاعی تنصیبات کے بارے میں بات کرلیتے ہیں۔ کراچی
ائیرپورٹ کے پہلے دفاع کی ذمہ داری ائیرپورٹ سیکیوریٹی فورس کی ہے۔ مگر
یہاں ائیرپورٹ کی حدود میں اکثر جعلی نمبر پلیٹ کی گاڑیاں دیکھی جاسکتی
ہیں، جب کہ کالے شیشوں والی کاریں بھی دیکھی جاتی ہیں۔ کچھ عرصہ قبل کسی
کام سے کراچی ایئرپورٹ کے احاطہ کے ساتھ ساتھ چلنے والی سڑک پر چلتے ہوئے
گلستان جوہر سے ملحق کچے علاقہ بھٹائی آباد تک جاپہنچے۔ تو ہم یہ دیکھ کر
حیران رہ گئے کہ ایئرپورٹ کی بیرونی حفاظتی دیوار کئی جگہوں سے ٹوٹی ہوئی
تھی، اور کچی آبادی کے بچے اسے پھلانگ کر رن وے کے نزدیک علاقہ میں کھیل
کود رہے تھے۔ اس بارے میں ہم نے ایک روز کراچی ایئرپورٹ پر متعین ایک
ائیرپورٹ سیکیوریٹی فورس کے فرد سے بات چیت کی، تو اس نے اس امر کو قطعی
سنجیدگی سے نہیں لیا۔ وہ بولا، اس طرح تو گلستان جوہر میں واقع رابعہ سٹی
فلیٹس پر بھی ہمارا کنٹرول ہونا چاہیے، کیونکہ اس کی چھتوں سے باآسانی
کراچی ائیرپورٹ کے ہینگروں ، رن وے، اور اڑتے یا اترتے جہازوں کو نشانہ
بنایا جاسکتا ہے!!! اسی طرح ہمارے خیال میں گلستان جوہر سے پہلوان گوٹھ کے
علاقہ اور ائیرپورٹ کے رن وے کے قریب سے گزرنے والی سڑک پر نگرانی ناکافی
ہے۔ وہاں سے گزرتے ہوئے طیاروں کی پارکنگ اتنے قریب ہے کہ بظاہر ایک پتھر
مار کر، یا کسی چھوٹے ہتھیار سے بھی انہیں نقصان پہنچایا جاسکتا ہے۔ پیارے
قارئین، اس بارے میں حقیقی حفاظتی امر یہ ہے کہ ائیرپورٹس، جن میں فوجی
ائیرپورٹس اور تنصیبات بھی شامل ہیں، ان کے باہر چاروں طرف حفاظتی راہ
داریاں، ان پر، اور ان کے اندرونی احاطہ میں بھی ہمہ وقت گشت درکار ہے۔
حفاظتی دیواروں پر مناسب نظر آنے والے فاصلوں پر گارڈ چوکیاں، بکتربند
گاڑیاں، چوکیوں میں اطلاعی نظام، بیٹری سے چلنے والی روشنیوں،دوربینوں اور
دورمار ہتھیاروں سے لیس گارڈ لازمی ہیں۔ اسی طرح شہر میں چلنے والی بے شمار
مشتبہ گاڑیوں کو اکثر چیک کرنے کی ضرورت ہے۔ بلا نمبر پلیٹ، سیاہ شیشوں
والی، اور مشتبہ نمبروں والی تمام گاڑیوں کو روکنے، حراست میں لینے ، اور
مناسب قانونی کاروائی کرنے کا انتظام درکار ہے۔ موجودہ ٹریفک پولیس، یا عام
پولیس، ایسی گاڑیوں اور ان میں موجود افراد کے خلاف قانونی کمزوریوں، اور
عزم و ترغیب کی کمی کی وجہ سے کوئی کاروائی کرنے سے قاصر ہے۔ اتنے بڑے شہر
میں صبح نو بجے تک ٹریفک اہل کار اپنے اپنے مقامات پر نہیں پہنچتے،اور نصف
شب تک اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں۔ اسی طرح اہم شخصیات کی کراچی آمد پر یہ
سب لوگ ان کی سہولت کے لیے ان کی قیام گاہ کے گرد ہجوم کرلیتے ہیں۔ چنانچہ
سڑکوں پر عمومی نگرانی کا نظام کمزور ہوجاتا ہے۔ اسی طرح ایک عام شہری کے
لیے یہ ایک نہایت ہی دشوار امر ہے کہ وہ کسی بھی مشتبہ کاروائی کے بارے میں
کسی بھی قانون نافذ کرنے والے ادارہ کو فوری رپورٹ کرسکے۔ 15 نظام نہایت ہی
ناقص ہے، اور اکثر اس نمبر پر رابطہ ممکن نہیں ہوتا۔ اگر ایسے کسی مسئلہ کو
ٹریفک کنٹرول 915 رپورٹ کیا جائے تو وہ معذرت کر کے 15 سے ہی رابطہ کرنے کا
کہتے ہیں۔
کراچی کی شارع فیصل پر چلتے ہوئے دہشت گردوں کی رال ٹپکانے کے کئی انتظامات
ہیں۔ آپ کئی ایسے اہم اطلاعاتی بورڈ دیکھ سکتے ہیں، جو آپ کو بتاتے ہیں کہ
یہاں کس اہم دفاعی شخصیت کی رہائش گاہ ہے۔ سچ مچ۔ پھر یہ کہ پاکستان نیوی
نے اپنے فضائی دفاعی نظام کے تمام انڈے ایک ہی مہران ٹوکری میں رکھ ڈالے۔
شاید پاکستان نیوی کے لیے یہ بہتر ہو کہ وہ دیگر متبادل کے ساتھ ساتھ ماری
پور کے فضائی اڈّے کو بھی استعمال کریں، جہاں احاطہ کی سیکیوریٹی بہترمحسوس
ہوتی ہے۔ جب کہ فیصل ائیربیس کئی اطراف سے شہری آبادی، اور ندی نالے کے
خطرات سے گھرا ہوا ہے۔ اس کے ساتھ گزرنے والی ریلوے لائن کی شہ رگ بھی فی
الوقت اس کے لیے ایک خطرہ کا باعث ہے۔ قیام پاکستان کے بعد یہ تنصیبات شہر
سے باہر محسوس ہوتی تھیں، مگر اب ان کو منتقل کرنے کے متعلق منصوبہ بندی کی
ضرورت ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ افغانستان پر روسی یلغار کے زمانہ میں جب کہ
پاکستان ائیرفورس بہت چوکنا رہتی تھی، ایک روسی طیارہ ہمارے فوجی فیصل
ائیربیس ، کراچی، پر اتر گیا تھا، جب کہ اسے کراچی ائیرپورٹ پر اترنا تھا۔
اور جہاں تک ہمیں یاد ہے اسے فوری حراست میں لینے کے بجائے اسے دوبارہ شہری
ائیرپورٹ کی جانب روانہ کردیا گیا تھا۔ ہوسکتا ہے کہ اس بارے میں کوئی
قانونی جواز بھی ہو، مگر اس زمانہ کے لحاظ سے یہ کاروائی شرارت آمیز ہی
محسوس ہوئی تھی۔ اسی طرح نیا امریکی قونصل خانہ ایک ایسے تزویری مقام پر
قائم کردیا گیا ہے جہاں سے بحرعرب ، تجارتی بندرگاہ، فوجی بندرگاہ،اور
پاکستان نیوی کی تمام اہم تنصیبات ، راڈار، اطلاعی نظام،اور اثاثہ جات قریب
ترین ہیں۔ ہاکس بے سے گزرنے والا ایک زمینی راستہ براستہ منوڑہ پاکستان
نیوی کے بن قاسم کمانڈو مرکز تک جاتا ہے۔
اس داخلی راستہ پر، اور سمندر کی جانب سے کوسٹ گارڈ کی کشتیوں کے ہمہ وقت
گشت کے ساتھ ساتھ یہاں پر بھی بہتر نگرانی، اور دفاعی نظام کو بکتر بند
گاڑیوں اور کندھوں پر رکھ کر چلائے جانے والے میزائلوں کے دفاعی نظام سے
لیس کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔
چنانچہ پیارے قارئین، چونکہ پاکستان نیوی خاصہِ عرصہ سے دشمنوں کا نشانہ
بنی ہوئی ہے، یہ خیال کیا جاتا تھا کہ انہوں نے اپنے اندرونی اور بیرونی
خطرات کا بہتر اندازہ لگا لیا ہوگا۔ اور حفاظتی اقدامات میں اضافہ کیا گیا
ہوگا۔ تاہم یہ امر روز روشن کی طرح پاکستانی قوم پر عیاں ہوچکا ہے کہ ایسے
انتظامات مناسب حد تک نہیں کیے جاسکے۔ چنانچہ یہ بہتر ہوگا کہ پاکستان نیوی
کی اعلیٰ ترین قیادت فوری طور پر مستعفی ہوکر ایک اعلیٰ اخلاقی مثال قائم
کردے۔
دوسری جانب یہ امر بھی قابل غور ہے کہ دنیا میں کئی ایسے واقعات رونما
ہوچکے ہیں جہاں کہ اسلحہ دینے والے ممالک، یا اہم دفاعی تنصیبات تعمیر کرنے
والے ممالک خود ہی تخریبی کاروائیوں کا اہتمام کرتے ہیں۔ اس کی اہم مثالیں
عراق کے ایٹمی ری ایکٹر پروگرام کے بارے میں فرانس کا کردار، اور ایران کے
بوشہر کے شہری ایٹمی پاورپلانٹ کے بارے میں روس کا رویہ اور منصوبے، اور
اسلام آباد میں اوجھڑی کیمپ کا واقعہ محل نظر ہیں۔ چنانچہ، کیا یہ نقصان
بھی اسی طرح کا ہے کہ:
دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی
واضح رہے کہ یہ کوئی معمولی واقعہ ہرگز نہیں۔ اسے فوجی حکمت عملی اور دفاعی
صلاحیتوں کے لحاظ سے دنیا بھر میں پرکھا، اور جائزہ لیا جائے گا۔ اور صد
افسوس کہ یہ پاکستانی دفاعی نظام کی کمزوریوں اور ناکامیوں میں ایک اور
سیاہ باب کا اضافہ کرے گا، اور ہماری دیگر حساس ترین دفاعی تنصیبات اور
اثاثہ جات ، اور فوجی نقاہت و بصیرت کے بارے میں چہ می گوئیاں بڑھ سکتی ہیں۔
آئیے ایک مرتبہ پھر ہم اور آپ دعا کے لیے ہاتھ اٹھائیں، اور یہ التجا کریں
کہ ہمارے ارباب بست وکشاد کے مطالعہ، بصیرت، اور عزیمت میں اضافہ ہو، اور
وہ مناسب منصوبہ بندی کے اصولوں پر عمل کرنا سیکھیں۔ خاص طور پر دفاعی حصار
کے بارے میں کسی بھی امکانیہ خطرے کو رد نہ کریں، اور ان کے عملی و تصوراتی
سد باب کا انتظام کریں۔ مثلاً ، خدا نہ کرے، کیا کوئی حملہ آور سمندری
راستوں سے زیرِ بحر دخل اندازی کر کے سمندر کے کنارے واقع کراچی ایٹمی بجلی
گھر، اور ہمارے بحری جہازوں کو بھی اسی طرح آسانی سے نقصان پہنچاسکتا ہے!!!
اسی تناظر میں کراچی میں مقیم تمام غیرملکیوں، خاص طور پر افغانیوں کو فوری
طور پر کیمپوں تک محدود کردیا جائے، اور جلد از جلد امریکہ بہادر سے یہ
مطالبہ کیا جائے کہ اب چونکہ افغانستان بقول انہی کے کافی حد تک ان کے قابو
میں آچکا ہے، وہ ان بلائے جان مہمانوں کو اب اپنے گھروں کو لوٹا دیں۔ 1979
سے پاکستانی گلی کوچوں میں بلاخوف وخطر گھومتے ہوئے یہ غیرقانونی اشخاص
غریب پاکستان کے ملکی وسائل اور سلامتی کے لیے ایک بہت بڑا بوجھ اور خطرہ
ہیں، اور ممکنہ طور پر اپنے افغانی رابطوں کی بناء پر پاکستان کے خلاف
کاروائیوں میں بھی معاون ہوسکتے ہیں۔
پیارے دوستوں، چلتے چلتے ساحر لدھیانوی کے چند اشعار پیش خدمت ہیں:
میرے محبوب وطن! تیرے مقدر کے خدا
دستِ اغیار میں قسمت کی عناں چھوڑ گئے
اپنی یک طرفہ سیاست کے تقاضوں کے طفیل
ایک بار اور تجھے نوحہ کناں چھوڑ گئے |