مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز
شریف نے سندھ میں قدم جمانے کے لیے کوششیں شروع کردی ہیں۔ اس سلسلے میں
انہوں نے اس ہفتے سندھ کا دورہ کیا اور حیدرآباد میں قوم پرست رہنماﺅں سے
ملاقاتیں بھی کیں۔
نواز لیگ کی پنجاب کے علاوہ باقی تینوں صوبوں میں کمزور پوزیشن کا اندازہ
اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسے سندھ میں قوم پرست رہنماﺅں کے سہارے کی ضرورت
پڑگئی ہے۔ گزشتہ برسوں سے مسلم لیگ ن سندھ میں دھڑے بندی کا شکار چلی آرہی
ہے اور مختلف مواقع پر اس کا اظہار بھی کسی نہ کسی طرح ہوتا رہتا ہے۔ نواز
شریف کے کراچی اور حیدرآباد کے دورے کے موقع پر اس کے مظاہرے دیکھنے میں
آئے، بعض قوم پرستوں نے میاں نواز شریف کی قوم پرست رہنماﺅں سے ملاقاتوں پر
سخت تنقید بھی کی ہے ۔
کراچی کے ایک مقامی ہوٹل میں آرگنائزنگ کمیٹی کے ارکان سے خطاب کرتے ہوئے
میاں نواز شریف نے ہدایت کی کہ وہ گروہ بندی کو فوری طور پر ختم کریں اور
کراچی سمیت صوبے میں پارٹی کو فعال و منظم بنانے کے لیے بھر پور کوششیں
کریں۔ انہوں نے تنظیم سازی اور رکنیت سازی بھی شروع کرنے کی ہدایت کی۔ میاں
نواز شریف نے پیر کے روز کراچی کا دورہ کیا جبکہ منگل کو وہ حیدرآباد گئے۔
وہ ڈاکٹر قادر مگسی کی دعوت پر ترقی پسند ہاﺅس بھی پہنچے۔ جہاں ڈاکٹر مگسی
نے ان کا استقبال کیا اور پھولوں کے ہار پہنائے۔ جہاں بعد میں میاں نواز
شریف نے خطاب بھی کیا اس موقع پر ڈاکٹر قادر مگسی کا کہنا تھا کہ نواز شریف
سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہوئے لیکن پھر سخت جدوجہد سے سیاسی میدان
میں اس مقام پر پہنچے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج ہم میاں صاحب کے کردار کو
قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ڈاکٹر مگسی نے کہا کہ بے نظیر بھٹو کے بعد اب
صرف نواز شریف ہی قومی لیڈر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف نے لندن اے پی
سی میں وعدہ کیا تھا کہ جمہوری نظام میں آئندہ متحدہ قومی موومنٹ کا کوئی
کردار نہیں ہوگا نواز شریف وزیراعظم بنیں یا نہ بنیں لیکن اس کو ضرور یقینی
بنائیں کہ ایم کیو ایم سیاسی اقتدار میں کسی طرح حصہ دار نہ بنے۔
اس موقع پر میاں نواز شریف نے بھی خطاب کیا اور صحافیوں کے سوالوں کے جواب
بھی دیے۔ انہوں نے کہا کہ ”ڈاکٹر قادر مگسی مخلص انسان ہیں، ان کی پارٹی کا
منشور من و عن مسلم لیگ (ن) کے منشور جیسا ہے یہی قائداعظم کا منشور تھا
اور پاکستان بھی اسی نظریے کی بنیاد پر تشکیل پایا تھا، قوم پرستی اچھی چیز
ہے اور ان کے مطالبات بھی درست ہیں، ہمارے بھی یہی مطالبات ہیں۔ میاں صاحب
کے دورے، ملاقاتوں اور ان کے خطاب سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ن لیگی قائد
سندھ کے بڑے شہروں میں متحدہ قومی موومنٹ کی مقبولیت سے خائف ہیں۔ اسی لیے
انہوں نے قوم پرست جماعتوں کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے لیکن یہ واضح
حقیقت ہے اندرون سندھ بھٹو کے نام کی وجہ سے پیپلزپارٹی کا مقابلہ کوئی اور
جماعت نہیں کرسکتی۔ قوم پرستوں سے تعاون کا مسلم لیگ ن کو فائدہ ہونے کی
بجائے قومی سطح پر مزید نقصان ہوسکتا ہے۔ علاوہ ازیں اگر قوم پرست جماعتوں
اور ایم کیو ایم کی لڑائی میں ن لیگ بھی فریق بن گئی تو صوبے میں امن و
امان کی صورتحال بگڑنے کے امکانات اور خدشات مزید بڑھ جائیں گے۔ اگرچہ ترقی
پسند پارٹی کے چیئرمین ڈاکٹر قادر مگسی نے حیدرآباد میں پریس کانفرنس کے
دوران کہا ہے کہ نواز شریف سے انتخابی اتحاد پر کوئی بات نہیں ہوئی۔ لیکن
اگر اس طرح کی انڈر اسٹینڈنگ ہوگئی تو یہ ملاقاتیں قوم پرستوں کی جدوجہد
میں ایک نیا موڑ ثابت ہوسکتی ہے۔ یہ امکان بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ آئندہ
انتخابات میں ن لیگ اور قوم پرست جماعتیں سندھ کی سطح پر انتخابی اتحاد
کرسکتی ہیں۔ |